عورت پر اشعار
عورت کو موضوع بنانے
والی شاعری عورت کے حسن ، اس کی صنفی خصوصیات ، اس کے تئیں اختیار کئے جانے والے مرداساس سماج کے رویوں اور دیگر بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے ۔ عورت کی اس کتھا کے مختلف رنگوں کو ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے ۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
تشریح
یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔
شفق سوپوری
دعا کو ہات اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
-
موضوعات : دعااور 1 مزید
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو میری مہر کے ساتھ
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے
ایک عورت سے وفا کرنے کا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بد دعائیں ساتھ ہیں
کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو
سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں
-
موضوع : بدن
شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں
سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا
-
موضوع : ماں
عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی
پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی
تمام پیکر بدصورتی ہے مرد کی ذات
مجھے یقیں ہے خدا مرد ہو نہیں سکتا
تو آگ میں اے عورت زندہ بھی جلی برسوں
سانچے میں ہر اک غم کے چپ چاپ ڈھلی برسوں
یہ عورتوں میں طوائف تو ڈھونڈ لیتی ہیں
طوائفوں میں انہیں عورتیں نہیں ملتیں
عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے
ابھی روشن ہوا جاتا ہے رستہ
وہ دیکھو ایک عورت آ رہی ہے
روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں
ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں
عورتیں کام پہ نکلی تھیں بدن گھر رکھ کر
جسم خالی جو نظر آئے تو مرد آ بیٹھے
گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں
عورت اپنا آپ بچائے تب بھی مجرم ہوتی ہے
عورت اپنا آپ گنوائے تب بھی مجرم ہوتی ہے
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں
تم بھی آخر ہو مرد کیا جانو
ایک عورت کا درد کیا جانو
عورت ہو تم تو تم پہ مناسب ہے چپ رہو
یہ بول خاندان کی عزت پہ حرف ہے
اسے ہم پر تو دیتے ہیں مگر اڑنے نہیں دیتے
ہماری بیٹی بلبل ہے مگر پنجرے میں رہتی ہے
یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک
مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں
ہے کامیابیٔ مرداں میں ہاتھ عورت کا
مگر تو ایک ہی عورت پہ انحصار نہ کر
زمانے اب ترے مد مقابل
کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے
جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں
وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی
مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں
عورتوں کی آنکھوں پر کالے کالے چشمے تھے سب کی سب برہنہ تھیں
زاہدوں نے جب دیکھا ساحلوں کا یہ منظر لکھ دیا گناہوں میں
خود پہ یہ ظلم گوارا نہیں ہوگا ہم سے
ہم تو شعلوں سے نہ گزریں گے نہ سیتا سمجھیں
قصۂ آدم میں ایک اور ہی وحدت پیدا کر لی ہے
میں نے اپنے اندر اپنی عورت پیدا کر لی ہے
خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر
سجاوٹوں کی بنا عورتوں کی ذات ہوئی
جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم
جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو
ان کو بھی ترے عشق نے بے پردہ پھرایا
جو پردہ نشیں عورتیں رسوا نہ ہوئیں تھیں
شو کیس میں رکھا ہوا عورت کا جو بت ہے
گونگا ہی سہی پھر بھی دل آویز بہت ہے
عورت کے خال و خد پہ بہت داد ہو کہ یہ
میرے خدا کا شہرۂ آفاق شعر ہے