رسوائی پر اشعار

رسوائی کے لفظ کا سیاق

خالص عشقیہ ہے۔ راز کے راز نہ رہنے اور عشق کا چرچہ ہو جانے سے عاشق کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رسوائی دیارعشق میں بھی ہے اور اس سے نکلنے کے بعد میخانے میں بھی ۔ کلاسیکی شاعری میں اس موضوع کو بہت تنوع اور کثرت کے ساتھ برتا گیا ہے نمونے کے طور پر ہم کچھ شعر پیش کر رہے ہیں۔

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین شاکر

عشق جب تک نہ کر چکے رسوا

آدمی کام کا نہیں ہوتا

جگر مراد آبادی

رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے

حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے

خلیل تنویر

اذیت مصیبت ملامت بلائیں

ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

خواجہ میر درد

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی

اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل

وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی

احمد مشتاق

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

مرزا غالب

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے

عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

راحت اندوری

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

میر تقی میر

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں

اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

احمد مشتاق

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی

لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے

کفیل آزر امروہوی

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے

انجم خیالی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

صوفی تبسم

ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم

مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اطہر نفیس

یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں

سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی

گلزار

کس قدر بد نامیاں ہیں میرے ساتھ

کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں

انور شعور

کیا ملا تم کو مرے عشق کا چرچا کر کے

تم بھی رسوا ہوئے آخر مجھے رسوا کر کے

نامعلوم

لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہیئے

کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں

اکبر الہ آبادی

ساری دنیا ہمیں پہچانتی ہے

کوئی ہم سا بھی نہ تنہا ہوگا

احمد ندیم قاسمی

مجھے مسکرا مسکرا کر نہ دیکھو

مرے ساتھ تم بھی ہو رسوائیوں میں

کیف بھوپالی

جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا

خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا

داغؔ دہلوی

دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

آرزو لکھنوی

ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن

اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو

خواجہ میر درد

قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی

چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو

قمر جلالوی

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

مصطفیٰ خاں شیفتہ

تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط

الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

الطاف حسین حالی

اس گھر کی بدولت مرے شعروں کو ہے شہرت

وہ گھر کہ جو اس شہر میں بد نام بہت ہے

مظہر امام

اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار

لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی

اقبال ساجد

دکھ دے یا رسوائی دے

غم کو مرے گہرائی دے

سلیم احمد

اچھی خاصی رسوائی کا سبب ہوتی ہے

دوسری عورت پہلی جیسی کب ہوتی ہے

ف س اعجاز

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں

مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

خاطر غزنوی

رنج و غم درد و الم ذلت و رسوائی ہے

ہم نے یہ دل کے لگانے کی سزا پائی ہے

فدا کڑوی

ساری رسوائی زمانے کی گوارا کر کے

زندگی جیتے ہیں کچھ لوگ خسارہ کر کے

ہاشم رضا جلالپوری

وہ جنوں کو بڑھائے جائیں گے

ان کی شہرت ہے میری رسوائی

سلیم احمد

سر پھوڑ کے مر جائیں گے بد نام کریں گے

جس کام سے ڈرتے ہو وہی کام کریں گے

لالہ مادھو رام جوہر

پیار کرنے بھی نہ پایا تھا کہ رسوائی ملی

جرم سے پہلے ہی مجھ کو سنگ خمیازہ لگا

اقبال ساجد

جو تیری بزم سے اٹھا وہ اس طرح اٹھا

کسی کی آنکھ میں آنسو کسی کے دامن میں

سالک لکھنوی

کہئے جو جھوٹ تو ہم ہوتے ہیں کہہ کے رسوا

سچ کہئے تو زمانہ یارو نہیں ہے سچ کا

مصحفی غلام ہمدانی

میری شہرت کے پیچھے ہے

ہاتھ بہت رسوائی کا

پریم بھنڈاری

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے ہم کر چلے

خواجہ میر درد

چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی

تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی

جرأت قلندر بخش

اس شہر میں تو کچھ نہیں رسوائی کے سوا

اے دلؔ یہ عشق لے کے کدھر آ گیا تجھے

دل ایوبی

وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو

افتخار عارف

ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا

ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

خورشید ربانی

میری رسوائی اگر ساتھ نہ دیتی میرا

یوں سر بزم میں عزت سے نکلتا کیسے

اختر شمار

تنگ آ گیا ہوں وسعت مفہوم عشق سے

نکلا جو حرف منہ سے وہ افسانہ ہو گیا

احسن مارہروی

کسی کی شخصیت مجروح کر دی

زمانے بھر میں شہرت ہو رہی ہے

احمد اشفاق

گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال

میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی

ظہور نظر

کون مصلوب ہوا حسن کا کردار کہ ہم

شہرت عشق میں بدنام ہوا یار کہ ہم

مسعود قریشی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے