Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسباب پر اشعار

کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے

ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

حسن نعیم

یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل

سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا

افضال احمد سید

اب دیکھتا ہوں میں تو وہ اسباب ہی نہیں

لگتا ہے راستے میں کہیں کھل گیا بدن

فرحت احساس

اس کے اسباب سے نکلا ہے پریشاں کاغذ

بات اتنی تھی مگر خوب اچھالی ہم نے

منظر نقوی

میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر

آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر

اسعد بدایونی

کبھی تو منبر و محراب تک بھی آئے گا

یہ قہر قہر کے اسباب تک بھی آئے گا

سعید اللہ قریشی

اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں

دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں

سلیم صدیقی

ٹکڑے کئی اک دل کے میں آپس میں سئے ہیں

پھر صبح تلک رونے کے اسباب کئے ہیں

قائم چاندپوری
بولیے