قاتل پر شاعری
کلاسیکی شاعری میں قاتل محبوب ہے ۔ اسی لئے محبوب کی بھوؤں کو تلوار اور پلکوں کو نیزہ سے تشبیہ عام ہے ۔ وہ اپنے انہیں اوزاروں ، جلوؤں اور اداؤں سے اپنے عاشقوں کا قتل کرتا ہے ۔ جدید شاعری میں قاتل عشق کے دائرے سے باہر نکل آیا ہے اور وہ اپنی تمام تر سماجی صورتوں کے ساتھ شاعری میں برتا گیا ہے ۔ معیاری شعروں کا ہمارا یہ انتخاب آپ کو پسند آئے گا۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
-
موضوعات : انقلاباور 1 مزید
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
After she had slain me then from torture she forswore
Alas! the one now quickly shamed was not so before
-
موضوعات : جفااور 2 مزید
جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے
-
موضوعات : دعااور 1 مزید
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
قتل ہو تو میرا سا موت ہو تو میری سی
میرے سوگواروں میں آج میرا قاتل ہے
Today amongst my mourners, my murderer too grieves
A death, a murder as was mine, all lovers should attain
یہ سچ ہے چند لمحوں کے لئے بسمل تڑپتا ہے
پھر اس کے بعد ساری زندگی قاتل تڑپتا ہے
شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی
زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیئے