زنداں پر اشعار
کلاسیکی اور جدید شاعری
میں زنداں کا استعارہ بہت مستعمل ہے اور دونوں جگہ اس کی معنویتی جہتیں بہت پھیلی ہوئی ہیں ۔ کلاسیکی شاعری میں زنداں کا سیاق خالص عشقیہ تھا لیکن جدید شعرا نے اس لفظ کو اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی صورتحال سے جوڑ کر اس میں اور وسعتیں پیدا کی ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے اور دیکھئے کہ تخلیق کار ایک ہی لفظ کو کتنے الگ الگ رنگوں میں برتتا ہے اور لفظ کس طرح معنی کی سطح پر اپنا سفر طے کرتا ہے ۔
دیوار زنداں کے پیچھے
جرم محبت میں بیٹھا ہوں
جیل سے واپس آ کر اس نے پانچوں وقت نماز پڑھی
منہ بھی بند ہوئے سب کے اور بدنامی بھی ختم ہوئی
نہ کسی آہ کی آواز نہ زنجیر کا شور
آج کیا ہو گیا زنداں میں کہ زنداں چپ ہے
میں سنتری ہوں عورتوں کی جیل کا حضور
دو چار قیدی اس لیے کم گن رہا ہوں میں
جانے کتنے بے قصوروں کو سزائیں مل رہیں
جھوٹ لگتا ہے تمہیں تو جیل جا کر دیکھیے
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں
-
موضوعات : جبراور 1 مزید
جو قیدئ محن تھے جمیلہؔ وہ چل بسے
زنداں میں کوئی صاحب زنداں نہیں رہا
ذرا سا شور بغاوت اٹھا اور اس کے بعد
وزیر تخت پہ بیٹھے تھے اور جیل میں ہم
پتھر تانے لوگ کھڑے ہیں
زنداں کی دیوار کے پیچھے
زنداں سے نکلنے کی یہ تدبیر غلط ہے
زنجیر کے ٹکڑے کرو دیوار گرا دو
لہو سے میں نے لکھا تھا جو کچھ دیوار زنداں پر
وہ بجلی بن کے چمکا دامن صبح گلستاں پر
ہائے زنجیر شکن وہ کشش فصل بہار
اور زنداں سے نکلنا ترے دیوانے کا
کن شہیدوں کے لہو کے یہ فروزاں ہیں چراغ
روشنی سی جو ہے زنداں کے ہر اک روزن میں
-
موضوع : شہید
زنداں کی تو اپنے سیر تو کر
شاید کوئی بے گناہ نکلے
اب اس غریب چور کو بھیجو گے جیل کیوں
غربت کی جس نے کاٹ لی پاداش جیب میں