آسمان پر اشعار
شاعری پڑھتے ہوئے جو
ایک بنیادی بات ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ تخلیقی زبان لفظ کواس کے معنی اوراس سے وابستہ عمومی تصورسے بہت آگے لے جاتی ہے ۔ آسمان کلاسیکی شاعری کا ایک بنیادی استعارہ ہے اوراس استعارے کے اردگرد پھیلی ہوئی تصورات کی دنیا بھی آسمان کےعمومی تصورسے بہت مختلف ہے ۔ عشق کے باب میں آسمان ایک مضبوط کردار کے طورپرسامنے آتا ہے ۔ عاشق کے خلاف ساری چالیں وہی چلتا ہے اوراس پر ہونے والے سارے ظلم وستم اسی کی کارکردگی کا نتیجہ ہیں ۔ اسی لئےعاشق اسی کی طرف ایک نظرکرم کی امید لئےدیکھتا رہتا ہے ۔ یہ ایک چھوٹا سا انتخاب ہم آپ کیلئے پیش کررہے ہیں ۔
گرے گی کل بھی یہی دھوپ اور یہی شبنم
اس آسماں سے نہیں اور کچھ اترنے کا
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے
-
موضوع : خدا
ہم کسی کو گواہ کیا کرتے
اس کھلے آسمان کے آگے
ذرہ سمجھ کے یوں نہ ملا مجھ کو خاک میں
اے آسمان میں بھی کبھی آفتاب تھا
رت بدلی تو زمیں کے چہرے کا غازہ بھی بدلا
رنگ مگر خود آسمان نے بدلے کیسے کیسے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اگر ہے انسان کا مقدر خود اپنی مٹی کا رزق ہونا
تو پھر زمیں پر یہ آسماں کا وجود کس قہر کے لیے ہے
-
موضوع : وجود
اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف
ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا
زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا
مری زمین پہ پھیلا ہے آسمان عدم
ازل سے میرے زمانے پہ اک زمانہ ہے
-
موضوع : ازل
بدلے ہوئے سے لگتے ہیں اب موسموں کے رنگ
پڑتا ہے آسمان کا سایا زمین پر
کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے
تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے
-
موضوعات : چانداور 1 مزید
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں
ڈھونڈھتا پھرتا ہے خود اپنا ہی سایا سورج
-
موضوع : سایہ
وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں
فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں
-
موضوع : خدا
جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں
اب تو بس آسمان باقی ہے
ہزار راستے بدلے ہزار سوانگ رچے
مگر ہے رقص میں سر پر اک آسمان وہی
اٹھی ہیں میری خاک سے آفات سب کی سب
نازل ہوئی نہ کوئی بلا آسمان سے
ظفرؔ زمیں زاد تھے زمیں سے ہی کام رکھا
جو آسمانی تھے آسمانوں میں رہ گئے ہیں
زمین کی کوکھ ہی زخمی نہیں اندھیروں سے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم