Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریختہ پر اشعار

’ریختہ‘ اردو زبان کے

پرانے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ ریختہ کے لغوی معنی ملی جلی چیز کے ہوتے ہیں ۔ اردو زبان چونکہ مختلف بولیوں اور زبانوں سے مل کر بنی تھی اس لئے ایک زمانے میں اس زبان کو ریختہ کہا گیا ۔ یہاں آپ ایسے اشعار پڑھیں گے جن میں اردو کو اس کے اسی پرانے نام سے پکارا گیا ہے ۔

جا پڑے چپ ہو کے جب شہر خموشاں میں نظیرؔ

یہ غزل یہ ریختہ یہ شعر خوانی پھر کہاں

نظیر اکبرآبادی

اب نہ غالبؔ سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا

بن گیا میں بھی نشانہ ریختہ کے تیر کا

محمد علوی

یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے

کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیںؔ کا

شبلی نعمانی

ریختہ کے قصر کی بنیاد اٹھائی اے نصیرؔ

کام ہے ملک سخن میں صاحب مقدور کا

شاہ نصیر

کیا ریختہ کم ہے مصحفیؔ کا

بو آتی ہے اس میں فارسی کی

مصحفی غلام ہمدانی

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی

گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں

مرزا غالب

آنکھیں نہ چرا مصحفیٔؔ ریختہ گو سے

اک عمر سے تیرا ہے ثنا خوان ادھر دیکھ

مصحفی غلام ہمدانی

قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول

ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا

قائم چاندپوری

طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب

ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا

جرأت قلندر بخش

موئے نے منہ کی کھائی پھر بھی یہ زور زوری

یہ ریختی ہے بھائی تم ریختہ تو جانو

شمیم قاسمی

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

میر تقی میر

جب سے معنی بندی کا چرچا ہوا اے مصحفیؔ

خلطے میں جاتا رہا حسن زبان ریختہ

مصحفی غلام ہمدانی

کیوں نہ آ کر اس کے سننے کو کریں سب یار بھیڑ

آبروؔ یہ ریختہ تو نیں کہا ہے دھوم کا

آبرو شاہ مبارک

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

مرزا غالب

قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار

اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر

قائم چاندپوری

یار کے آگے پڑھا یہ ریختہ جا کر نظیرؔ

سن کے بولا واہ واہ اچھا کہا اچھا کہا

نظیر اکبرآبادی

اے مصحفیؔ استاد فن ریختہ گوئی

تجھ سا کوئی عالم کو میں چھانا نہیں ملتا

مصحفی غلام ہمدانی

قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ

اک بات لچر سی بزبان دکنی تھی

قائم چاندپوری

پیچ دے دے لفظ و معنی کو بناتے ہیں کلفت

اور وہ پھر اس پہ رکھتے ہیں گمان ریختہ

مصحفی غلام ہمدانی

مصحفیؔ گرچہ یہ سب کہتے ہیں ہم سے بہتر

اپنی پر ریختہ گوئی کی زباں اور ہی ہے

مصحفی غلام ہمدانی

ریختہ گوئی کی بنیاد ولیؔ نے ڈالی

بعد ازاں خلق کو مرزاؔ سے ہے اور میرؔ سے فیض

مصحفی غلام ہمدانی

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ

مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

میر تقی میر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے