بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل (ردیف .. ا)
بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ پھول کی خوشبو ہو یا دل سے نکلنے والی آہیں یا پھر محفل کے چراغ سے اٹھنے والا دھواں، تیری بزم سے جو بھی نکلا وہ پریشان اور اور بکھرا ہوا ہی نکلا۔ شاعر محبوب کی محفل سے نکلنے اور اس سے دور ہونے کی پریشانی کا بیان کرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس پریشانی میں تو سبھی مبتلا ہیں۔ انسان تو انسان، بے جان بھی اسی طرح اس کے عشق میں گرفتار ہیں اور پھر پھول کی خوشبو، دل کے نالہ اور محفل کے چراغ سے اٹھنے والے دھوئیں کا تذکرہ کرتا کہ وہ بھی جب تری بزم سے نکلتے ہیں تو بکھرے ہوئے اور پریشان نکلتے ہیں۔ مطلب یہ کہ دنیا میں جو بھی جاندار یا بے جان ہے وہ سب محبوب کے عشق میں مبتلا ہے اور اس سے بچھڑنا، اس کی موت ہے۔ ہوا کے تھپیڑے ان سب کو اس طرح بکھیر دیتے ہیں کہ جیسے ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اگر بزم سے دنیا مراد لیں تو بوئے گل معشوق اور ان کا حسن، نالۂ دل، ان کے عاشق اور چراغ محفل دھوئیں کی طرح ناپائیدار دنیا کی رونقیں قرار پائیں گی۔ ان میں سے کوئی ہمیشہ باقی نہیں رہتا۔ بزم یعنی دنیا تو باقی رہتی ہے لیکن اس عالمِ خاک سے نکل جانے والی ہر چیز بکھر کر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو بھی آیا اس کے مقدر میں بکھرنے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ اس کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک وہ بزم دنیا میں موجود ہے۔ شعر کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ معشوق سے دور رہ کر کوئی زیادہ دیر تک اپنے اصل وجود پر قائم نہیں رہ سکتا۔ غالبؔ کے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ عموماً عام سے خاص کی طرف جاتے ہیں۔ اس شعر میں انہوں نے اپنی ذات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا پھر بھی پڑھنے والا بہ آسانی سمجھ جاتا ہے کہ معشوق کی بزم سے نکل کر شاعر پر کیا گزر گئی۔
محمد اعظم
- کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 144)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.