دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے
دھیان دستک پہ لگا رہتا ہے
اور دروازہ کھلا رہتا ہے
کسی ملبے سے نہیں پر ہوتا
میرے اندر جو خلا رہتا ہے
کھینچتا ہے وہ لکیریں کیا کیا
اور پھر ان میں گھرا رہتا ہے
ہم کو خاموش نہ جانو صاحب
اندر اک شور بپا رہتا ہے
مجھ کو دے دیتا ہے گہرے پانی
خود جزیروں پہ بسا رہتا ہے
میری تنہائی کی پگڈنڈی پر
میرے ہمراہ خدا رہتا ہے
خاک بھی رہتی نہیں انساں کی
نام پتھر پہ کھدا رہتا ہے
رنگ و بو بھرتے ہیں اس کا پانی
مزبلے پر جو پڑا رہتا ہے
قمقمے رہتے ہیں روشن بیتابؔ
دل ہی کم بخت بجھا رہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.