Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دن تال باجتا ہے ہوتی ہے جب سواری (ردیف .. ا)

آبرو شاہ مبارک

دن تال باجتا ہے ہوتی ہے جب سواری (ردیف .. ا)

آبرو شاہ مبارک

MORE BYآبرو شاہ مبارک

    دن تال باجتا ہے ہوتی ہے جب سواری

    لشکر میں راگ شب کوں اونٹوں کا ہے اڑانا

    تشریح

    اس شعر میں بظاہر موسیقی کی دو اصطلاحوں کا استعمال ہوا ہے یعنی تال اور راگ۔ باقی سب تو ٹھیک ہے مگر ڈاکٹر محمد حسن نے اڑانا کے آگے سوالیہ نشان(؟) لگا کر قاری کے لئے مشکل پیدا کی ہے۔ ایسا لگتاہے جیسے محمد حسن اڑانا(بفتح اول) کے معنی سے واقف نہیں تھے۔ مگر ایسا ممکن نہیں کہ اس قدر عالم و فاضل شخص اڑانا کا مطلب نہ جانتا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ اڑانا کے معنی نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہوگا۔ محمد حسن ہی کیا کوئی بھی الجھن میں پڑھ سکتا ہے کیونکہ اڑاناکا بظاہر شعر کے کسی لفظ سے کوئی معنوی ربط و انسلاک نظر نہیں آتا۔

    بہر حال شعر میں کئی مناسبتیں ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے شب، تال کی مناسبت سے راگ، سواری کی مناسبت سے اونٹ اور ان دونوں کی مناسبت سے لشکر۔ شعر کی لغات پر غور کرتے ہیں:

    دن: سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کا درمیانی وقفہ۔

    تال: موسیقی میں وقت اور آہنگ کے عنصر کو تال کہتے ہیں۔ جس طرح شاعری کے لئے عروض ضروری ہے اسی طرح موسیقی کے لئے تال ضروری ہے۔ گویا تال کو موسیقی کے وزن سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

    سواری: گھوڑے، اونٹ وغیرہ پر چڑھنے کا عمل۔ سواری کا لفظ راکب و مرکب دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نیز اس کا ایک معنی جلوس بھی ہے۔

    سواری ہونا: کسی مقتدر شخص یا خاتوں کا شان و شوکت سے سوار کو کر نکلنا۔

    اڑانا: روز مرہ کی رو سے اڑانا روکنا، الجھانا، حائل کرنا، ملانا، شریک کرنا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ٹانگ اڑانا محاورہ ہے مطلب اس کا پاؤں پھنسانا، بے ضرورت دخل اندازی کرنا، بیجا مداخلت کرنا، کسی کو آگے بڑھنے سے روکنا وغیرہ ہے۔

    شعر میں اس کا کہیں پر ذکر نہیں کہ کس کی سواری نکلتی ہے۔ شاید محبوب ہو یا ممدوح۔ مگر لشکر کے تلازمے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہاں مقصود ممدوح ہی ہو جو شاید بادشاہ ہوکہ آبروؔ ‘‘درویش منشی اور مشرب قلندر’’ مشہور ہونے سے پہلے‘‘ ملازمت شاہی کے سلسلے سے وابستہ رہے’’۔ بہر حال یہ فرض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اس شعر میں ممدوح ہی مقصود ہے۔ چنانچہ اس تفصیل کی روشنی میں شعر کی جو تشریح بنتی ہے اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب میرے ممدوح کا جلوس نکلتا ہے تو شادمانی سے دن تال بجاتا ہے اور جب رات کو ممدوح کے جلو میں چلنے والا لشکر اونٹوں کو روکتا ہے (یعنی خیمہ زن ہوجاتا ہے) تو (یہ نکتہ خیالی ہی سہی) اونٹوں کی گھنٹیوں کا راگ بجتا ہے۔ بظاہر اب کوئی نکتہ باقی نہیں رہتا جس کی روشنی میں مضمون کا کوئی اور پہلو تلاش کیا جاسکے۔ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جب اونٹوں نے قیام کیا تو گھنٹیوں کی نغمہ ریزی بھی ختم ہوگئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اونٹ بیٹھ کر بھی اپنی گردن ہلاتے رہتے ہیں۔

    یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آٹھ اشعار پر مشتمل جس غزل سے یہ شعر ماخوذ ہے اس کا پانچواں شعر یوں ہے؎

    بدلی سو راگ چھایا، تانوں نے جھڑ لگایا

    مردنگ تس کے اوپر بجلی کا کڑکڑانا

    (بادل راگ گا رہا ہے۔(بارش نے) تانوں کی جھڑی لگائی۔ (اس پر غضب یہ کہ) بجلی مردنگ کی طرح تال دے رہی ہے۔)

    اس شعر میں راگ، تان اور مردنگ موسیقی کی اصطلاحات ہیں۔ لگتا ہے جیسے آبروؔ موسیقی کو موضوع بنا کر کچھ اور کہنا چاہتے ہیں۔ اور جیسے انہوں نے شرط یہ مقرر کی ہو کہ کوئی بات چونکا دینے والی (بلکہ چکمہ دینے والی) ضرور ہو۔اور وہ چونکا دینے والی یا چکمہ دینے والی بات لفظ اڑانا میں ہے۔ اڑانا ایک راگنی کا نام ہے جو راگ کانہڑا، راگ دیساکھ اور دھنا سری سے مرکب ہے۔ یہ اساوری ٹھاٹھ کی راگنی ہے۔ بعض کے نزدیک اسے کافی ٹھاٹھ پر بھی گایا جاسکتا ہے۔

    اب شعر کی مناسبتوں کا زاویہ ہی بدل گیا۔ غور کریں دن کی مناسبت سے شب، تال کی مناسبت سے راگ، راگ کی مناسبت سے اڑانا۔ ایک نکتہ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہاں تال کا معنی موسیقی کا وزن نہیں بلکہ مجیرا ہے۔ قلی قطب شاہ کا مصرعہ ہے:

    اب تال منڈل عیش سوں مولود کا گرجاؤ

    (اب تم مولود کا منڈل(ڈھول) اور تال (مجیرا) عیش سے گرجاؤ(زور سے بجاؤ)۔

    مجیرا کہتے ہیں پیتل کی چھوٹی چھوٹی کٹوریوں کو جو طبلے کے ساتھ تال دینے کے واسطے دونوں ہاتھوں سے بجائی جاتی ہیں۔ قلی قطب شاہ کا شعر ہے؎

    سورج چندا پے تال ہوکر بجے نت

    مندل ہو فلک ٹمٹمایاں بجایا

    ایک نکتہ لطف کا یہ بھی ہے کہ ’’دن‘‘ تال کے بولوں میں سے ایک ہے جیسے دن دن نا تن نا تن نا۔اوپر مجیرے کا ذکر ہوا کہ پیتل کی چھوٹی چھوٹی کٹوریاں ہوتی ہیں تو یہ بات نہ بھولیں کہ اونٹوں کی گھنٹیاں بھی پیتل کی ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہتا چلوں کہ راگ ارانا کے گانے بجانے کا وقت آدھی رات ہے۔

    شفق سوپوری

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے