ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلچسپ معلومات
.تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا (از سعادت خاں ناصر لکھنوی) میں میر کے باب میں لکھا ہے کہ میر اپنی کم عمری کے زمانہ میں،جب تک خان آرزو کی صحبت میں رہے، کبھی کبھی دو چار شعر ان کی خدمت میں پڑھتے تھے، جنھیں وہ پسند کرتے تھے اور تاکید شعر و سخن کی زیادہ سے زیادہ کرتے تھے۔"ایک دن خان آرزو نے کہا کہ کہ آج مرزا رفیع آئے اور یہ مطلع نہایت مباہات کے ساتھ پڑھ گئے/ (چمن میں صبح جو اس جنگجو کا نام لیا۔۔۔۔ صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا) میر صاحب نے اس کو سن کر بدیہ یہ مطلع پڑھا۔ ''ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا ۔۔۔۔۔۔۔ دل ستم زدہ کو اپنے تھام تھام لیا'' (مطبوعہ نسخوں میں "اپنے کی جگہ "ہم نے " ہے ) خان آرزو فرط خوشی سے اچھل پڑے اور کہا خدا چشم بد سے محفوظ رکھے
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
تشریح
تذکرۂ خوش معرکۂ زیبا (از سعادت خاں ناصر لکھنوی) میں میر کے باب میں لکھا ہے کہ میر اپنی کم عمری کے زمانہ میں،جب تک خان آرزو کی صحبت میں رہے، کبھی کبھی دو چار شعر ان کی خدمت میں پڑھتے تھے، جنھیں وہ پسند کرتے تھے اور تاکید شعر و سخن کی زیادہ سے زیادہ کرتے تھے۔ ایک دن خان آرزو نے کہا کہ کہ آج مرزا رفیع آئے اور یہ مطلع نہایت مباہات کے ساتھ پڑھ گئے/
چمن میں صبح جو اس جنگجو کا نام لیا / صبا نے تیغ کا آب رواں سے کام لیا
میر صاحب نے اس کو سن کر بدیہ یہ مطلع پڑھا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا۔۔۔۔۔۔۔ دل ستم زدہ کو اپنے تھام تھام لیا(مطبوعہ نسخوں میں اپنے کی جگہ ہم نے ہے )
خان آرزو فرط خوشی سے اچھل پڑے اور کہا خدا چشم بد سے محفوظ رکھے
آئیے اب میر کے اس شعر پر غور کریں۔ اس سیدھے سادے شعر میں آخر ایسی کیا خوبی ہے کہ خان آرزو جیسا صاحب نظر اسے سن کر فرط خوشی سے اچھل پڑا،شفقت کے اظہار یا حوصلہ افزائی کے کئے تھوڑی سی واہ واہ کافی تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیفیت کا شعر ہے جو شاعر کے دل سے نکل کر سیدھا سامع کے دل میں جاتا ہے اور یہی اس شعر کی خوبی ہے۔ لیکن یہ بات تو ہم واردات قلبی کے کسی بھی شعر کے بارے میں کہہ سکتے ہیں، جو ہم کو پسند ہو۔ تو کیا اس شعر میں بس اتنی ہی خوبی ہے؟
اب اگر ہم اس شعر کو ذرا غور سے پڑھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس شعر میں غزل کی رسوم شعری کے حوالہ سے معانی کا اک جہان آباد ہے۔ اس سادہ سے شعر میں عاشق، معشوق کا نام سن کر اپنے دل کو تھام تھام لیتا ہے۔ دل تھام لینے کی وجوہ بیان نہ کر کے شاعر نے بیک وقت اپنے تمام اندیشوں اور امکانات کا اظہار کر دیا ہے۔ یعنی ہمارے سامنے کوئی اس کا نام کیوں لے؟ کیا وہ بھی اُسی کے عشق میں مبتلا ہے جس کے عشق میں میں مبتلا ہوں!کیا وہ شخص ہمارے محبوب کا ہمارے سامنے نام لے کر ہمارے رازعشق کو جاننا چاہتا ہے جو ہم نے ابھی تک چھپا رکھا ہے۔ بہرحال ہم نے اپنے راز عشق کو افشاء نہیں ہونے دیا حالانکہ ہم کو اس کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ یہاں شعر کے دوسرے مصرع میں لفظ تھام کی تکرار کا اصل جواز واضح ہوتا ہے۔ غور کیجئے کہ اگر دوسرا مصرع اس طرح ہوتا۔۔۔دل ستم زدہ کو اپنے ہم نے تھام لیا تو شعر آسمان سے زمین پر گر جاتا بلکہ مضحکہ خیز ہو جاتا۔
شعر میں لفظ نام بھی بڑے کام کا ہے۔ بو علی سینا کے پاس اک مریض لایا گیا جو دن بدن لاغر ہوتا جا رہا تھا ۔ بو علی سینا سمجھ گئے کہ یہ مریض عشق ہے لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ کچھ بھی بتانے کو تیار نہیں تھا۔ وہ کون ہے، کس شہر میں رہتی ہے،اس کا نام کیا ہے جب تک یہ نہ معلوم ہو اس کا علاج کیونکر ممکن تھا۔ آخر انہں اک تدبیر سوجھی۔ انہوں نے مریض کی نبض پر ہاتھ رکھا اورشہروں کے نام لینے لگے۔ آخر ایک شہر کے نام پر مریض کی نبض پھڑک اٹھی۔ لیجئے شہر کا نام معلوم ہو گیا۔ اسی طرح انھوں نے متعلقہ محلہ، مکاں اور لڑکی کے نام کا پتہ لگا لیا اب مریض کا علاج آسان تھا۔ یہاں میر صاحب کے شعری عاشق کو بو علی سینا کا سامنا نہیں تھا کہ بے قابو نبض اس کو مشکل میں ڈالتی، بس دل کو بمشکل تھام،بلکہ تھام تھام کر اس نے راز دل چھپا لیا۔
اب دل ستم زدہ پر غور کیجیے۔ عاشق ستم کا مارا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ معشوق جفا جو کسی کے ساتھ ستم سے باز نہیں آتا۔ اب ایک شخص اُسی کا نام لے رہا ہے عین ممکن ہے کہ وہ اس کی طرف مائل ہو یا اس کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہو۔ میر کے عاشق نے تو ستم، جیسے تیسے، جھیل لئے لیکن ایسا کر پانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اب اس نئے عاشق پر کیا گزرے گی؟ یہ سوچ کر ہی اس کا دل دہل جاتا ہے اور وہ اپنے دل ستم زدہ کو تھام تھام لیتا ہے۔ یہ شاعر کے احساس درد مندی کی مثال ہے
شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عاشق کو بر بنائے غیرت یہ بھی گوارہ نہں کہ کوئی اس کے معشوق سے کسی قسم کا تعلق رکھنا تو دور، اس کا نام بھی اپنی زبان پر لائے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ صاحب تذکرہ نے شعر میں ہم نے کی جگہ اپنے لکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ یادداشت یا کتابت کی غلطی ہو۔ بہرحال اپنے کے ساتھ شعر اپنے مرتبہ سے گر جاتا ھے، کیونکہ اوّل تو اپنے بے محل اور زائد ٹھہرے گا ( یہ تو ممکن نہیں کہ اپنے سوا کسی دوسرے کا دل تھام لیا جائے) پھر اپنے لکھنے سے یہ بھی گمان ہو سکتا تھا کہ شائد نام لینے والا خود اپنا دل تھام رہا ہے۔ یہ شعر کا اک مضحکہ خیز پہلو ہوتا۔ لفظوں کو برتنے کا یہی فن بڑے شاعر کو معمولی شاعر سے ممتاز کرتا ہے۔
محمّد آزم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.