Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

مرزا غالب

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

    نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

    تشریح

    اس شعر کے معنی سب سے پہلے ’’یادگار غالب‘‘ میں الطاف حسین حالیؔ نے بیان کئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’نشاط‘ کے معنی امنگ کے ہیں۔ نشاط کا معنی کام کرنے کی امنگ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو چہل پہل ہے وہ صرف اس یقین کی بدولت ہے کہ یہاں رہنے کا زمانہ بہت تھوڑا ہے۔ یہ انسان کی اک طبعی خصلت معلوم ہوتی ہے کہ جس قدر فرصت قلیل ہوتی ہے اسی قدر زیادہ سرگرمی سے کام کو سر انجام کرتا ہے۔ حالیؔ کے بعد غالبؔ کے اکثر شارحین ’’نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا‘‘ کے ان ہی معنوں میں الجھ کر، اپنے اپنے الفاظ میں حالیؔ کے بتائے ہوئے معنی کو دہراتے رہے۔ لیکن اس معنی میں دو بڑی خرابیاں ہیں۔ پہلی یہ کہ زندگی کی چہل پہل موت کو یاد رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کو بھلائے رہنے کی وجہ سے ہے اور دوسری خرابی یہ کہ اگر ہم یہ معنی تسلیم کر لیں تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ غالبؔ ہوس کے نشاط کارکو ہی جینے کا مزا قرار دے رہے ہیں جب کہ ہوس صنفِ مخالف، دولت، شہرت اور دنیا کی لذتوں کی کبھی نہ مٹنے والی طلب کو کہتے ہیں اور یہ لفظ ہمیشہ منفی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات غالبؔ کے مجموعی فکری نظام سے میل نہیں کھاتی۔ خصوصاً اس وقت کہ جب انہوں نے اپنے اسی عمل میں ہوس کی مذت کر دی ہے۔ ’’ہوس کو پاسِ ناموس وفا کیا‘‘۔ یعنی ہوس وفا کے مرتبہ کو کیا جانے! بہرحال اگر ہم لفظ مرنے کو عشق کے معنی میں لیں (اور یہ معنی زبردستی کے نہیں ہوں گے بلکہ لغات میں موجود ہیں اور ہم روزمرہ میں بولتے بھی ہیں کہ فلاں، فلاں پر مرتا ہے) تو شعر کا مفہوم صاف ہو جائے گا کہ ہوس کار لوگ اپنی سرگرمیوں میں جس طرح خوش ہیں، ان کو کیا معلوم کہ جینے کا اصل مزا تو عشق میں ہے۔ شعر کا ایک مطلب یہ بھی نکل سکتا ہے کہ ہوس پرست یعنی رقیب ہمارے محبوب کے وصل کے مزے لے رہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی جینا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اسی دکھ میں ہمیں مرجانا ہے اور مرنے کے بعد معشوق کے وصل کا حقیقی اور دائمی لطف ہمیں ہی حاصل ہوگا۔ یہی مرنا دوسری زندگی میں جینے کا اصل مزا ہوگا۔ غالبؔ کے کلام میں معنی کے بہت سے تار رسی کی طرح بٹے ہوئے ہیں۔ ان کے کلام کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو جو معنی دل کو زیادہ لگتے ہوں ان کو قبول کر لیا جائے یا پھر تمام مفاہیم کے مجموعے کو معنی تصور کیا جائے۔ قاری کو اختیار ہے کہ وہ کون سا طریقہ اپناتا ہے۔

    محمد اعظم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے