Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہچکیاں لے ہے اس طرح بط مے

انشا اللہ خاں انشا

ہچکیاں لے ہے اس طرح بط مے

انشا اللہ خاں انشا

MORE BYانشا اللہ خاں انشا

    ہچکیاں لے ہے اس طرح بط مے

    جس طرح گٹکری میں تان پھرے

    تشریح

    جن ناقدین نے شکوہ کیا ہے کہ انشاؔکی شاعری میں قافیہ پیمائی، ابتذال اور پھکڑ پن کے سوا کچھ نہیں ان کی نظر انشاؔ کی شاعری میں الفاظ کے تنوع ، بیان کی تازگی، معنی آفرینی اور انشا کی طباعی کی طرف نہیں گئی ہے۔ زیرِ بحث شعر کو ہی لیجیے۔ اس میں انشا نے ایک عام مضمون کو بیان کی جس طرز میں پیش کیا ہے اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ انشا قافیہ پیمائی کے شاعر ہیں۔ شعر میں مستعمل تلازمات اگرچہ انشا کے دور میں نامانوس نہیں تھے مگر انشا نے اپنے گہرے لسانی شعور، قوتِ تخیل اور جودتِ طبع سے جو محاکاتی فضا تیار کی ہے اس کا جواب نہیں۔ ان تلازمات سے جو بیانیہ قائم ہوا ہے اس میں انشا کی طباعی کا زبردست زور اور کمال دکھائی دیتا ہے۔ جس غزل سے یہ شعر لیا گیا ہے اس کے آخر میں دو قطعے ہیں۔ دونوں دو دو اشعار پر مشتمل۔ یہ شعر پہلے قطعے کا دوسرا شعر ہے۔ پہلا شعر یہ ہے؎

    ساقیا آج جامِ صبہا پر

    کیوں نہ لہراتی اپنی جان پھرے

    پہلے شعر نے اگرچہ دوسرے شعر کے مضمون کو بیان کرنے کی فضا تیار کی ہے تاہم اگر زیرِ بحث شعر کو اس کے ماقبل شعر سے الگ کرکے بھی پڑھا جائے تو معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شعر سے معنوی تعلق کے حوالے سے دو شعر درج کررہا ہوں:؎

    مستی ہے اب جو چاہیں سیر آبی

    بطِ مے تو ہوئی ہے مرغابی

    (میرؔ: مثنوی در مذمتِ برشگال)

    گٹکری کا سا ہے لچھّا بہ گلوئے مینا

    ہچکیاں قلقلِ مینا جو ہے لیتی پیہم

    (ذوق:قصیدہؔ)

    میرؔ نے ’’مستی‘‘ ’’ سیر آبی‘‘ ’’ بطِ مے‘‘ اور مرغابیوں کی مناسبتوں سے خوب مضمون پیدا کیا ہے۔ ذوقؔ کا شعر البتہ تزائد لفظی کا شکار ہوا ہے۔ یعنی گٹکری کے بعد لچھا(دونوں ہم معنی ہیں) اور ہچکیوں کے بعد قلقل انشاکے شعر کے مقابلے میں غیر ضروری دکھائی دیتے ہیں۔

    آگے بڑھنے سے پہلے شعر کی لغات پر غور کرتے ہیں۔ بطِ مے کی ترکیب شعر میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ بط کے معنی شراب کی صراحی جو بط(بطخ) کی ہم شکل ہوتی ہے۔ آتش کا شعر ہے: ؎

    کنارِ آب چلے دورِ جام یا لبِ کشت

    شکار ہووے بطِ مے کہاں نہیں معلوم

    گٹکری موسیقی کی ایک اصطلاح ہے۔ گٹکری کو موسیقی کی آرائشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں Coloratura ، جرمنی میں Bebendاور اطالوی میں Tremolandoکہتے ہیں۔ موسیقی میں گٹکری اس پیچ دار آواز کو کہتے ہیں جو مغنّی کے گلے سے لہراتی ہوئی نکلے۔ تان میں گٹکری کا عمل اس قدر تیز ہوتا ہے کہ سُروں کی پیمائش نہیں ہوتی اور ازروئے موسیقی اسے ایک سُر کے برابر دکھایا جاتا ہے۔ گٹکری لینا یعنی گاتے گاتے آواز میں لرزش پیدا کرنا:؎

    گٹکری ہے گلے میں کافر کے

    دیکھیے جب ہے تان ہونٹوں پر

    (ناسخؔ)

    مرگیا میں تو گٹکری ایسی

    تو نے اے بلبلِ سحر لی ہے

    (مصحفیؔ)

    تان سُروں کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جو راگ کے پھیلانے میں کارآمد ہو۔

    گٹکری، تان اور بط کی طرف جب متوجہ ہوتے ہیں تو لاشعوری طور پر ذہن میں بربط (Lute)کا خیال آجاتا ہے۔گویا کسی شیرین دھن کا لہرا فضا میں تیرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اگرچہ بربط کا مذکور نہیں اور نہ اس کی ضرورت یا محل ہے۔ مگر انشا نے وہ فضا بنائی ہے کہ لاشعور میں جھنکار سنائی دیتی ہے۔

    شعر میں سارا معاملہ شراب کا صراحی سے جام میں گرنے کا ہے۔ اس عمل کو گریۂ شیشہ کہتے ہیں۔قلقل کو گریہ اور قہقہہ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ ذوقؔ کا شعر ہے: ؎

    ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثلِ قلقلِ مینا

    کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا

    انشا اگرچہ تشبیہ سے آگے نہیں بڑھے ہیں مگر ہچکی کو گٹکری کی تان کے مشابہ ٹھہرا کے گویا شاعرانہ معجزہ انجام دیا ہے۔اس امر سے قطع نظر کہ ہچکیاں، بطِ مے، گٹکری اور تان میں جو مناسبتیں ہیں ان سے شعر میں کمال درجہ کا تاثر پیدا ہوا ہے، یہ بات بھی لائق داد ہے کہ انشا نے ذوقؔ کی طرح گٹکری، لچھا، گلوئے مینا، ہچکیاں، قلقل، مینا جتنے الفاظ استعمال کرنے کے بغیر ہی جو نادر پیکر تراشا ہے اس کی نوعیت بصری تو ہے ہی، لمسی، سمعی، شامی، مذوقی اور حرکی بھی ہے۔ چنانچہ اس پورے محاکاتی بیانیہ میں ’’ بطِ مے کا ہچکیاں لینا‘‘ اور’’ گٹکری میں تان پھرنا‘‘ دونوں سے سمعی پیکر وجود میں آتا ہے۔ چونکہ صراحی سے شراب جام میں انڈیلی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں صراحی ہچکیاں لے رہی ہے ۔ نیز گٹکری میں تان پھرنے کے عمل میں حرکت ہے اس لیے حرکی پیکر پیدا ہوا۔ شراب صراحی سے جام میں گررہی ہے جس سے جام شراب کا لمس محسوس کرتا ہے اس لیے لمسی پیکر بن گیا۔ جب شراب کا ذکر ہوا تو ذہن میں اس کی بو کا خیال آگیا اس سے شامی پیکر صورت پذیر ہوا۔ علاوہ بریں شراب کا ذائقہ محسوس ہوا جس سے مذوقی پیکر بن گیا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ذوقؔ کے علی الرغم انشانے بڑی لطافت کے ساتھ صرف ہچکیوں، تان اور گٹکری سے تاثر پیدا کیا ہے۔

    شعر میں اگرچہ کوئی نیا مضمون پیدا نہیں کیا گیا ہے تاہم بیان کی لطافت نے اس میں غضب کا تاثر ڈال دیا ہے۔ مفہوم سیدھا سادہ ہے کہ بطِ مے یعنی مینا یا صراحی سے شراب جام میں گرتے ہوئے جو آواز پیدا کرتی ہے اسے سن کر لگتا ہے جیسے گٹکری میں تان پھر رہی ہے۔ صراحی سے جب شراب جام میں گرتی ہے تو اس سے جو قلقل کی آواز بنتی ہے اس میں وہی تسلسل ہوتا ہے جو تان میں ہوتا ہے۔ چونکہ تان گٹکری میں پھرتی ہے لہٰذاتان کے اندر ایک قسم کا اہتزاز موجود ہے۔ پس اسی مناسبت سے انشا نے یہ مضمون پیدا کیا ہے کہ محفلِ سرود کے اثر سے صراحی بھی نہ بچ سکی اور وہ بھی نشے میں آکر اسی طرح جام میں شراب انڈیل رہی ہے جس طرح تان میں گٹکری پھرتی ہے۔ معنوی پہلو سے لفظ ہچکیاں بھی قابلِ غور ہے۔ شرابی جب خوب نشے میں آتا ہے تو اس کے حلق سے وقفہ وقفہ سے ہچکیاں نکلتی ہیں۔ تو گویا بادہ کشوں کے ساتھ ساتھ صراحی بھی نشے میں چورہوکر ہچکیاں لے رہی ہے۔ اور ہچکیوں کی صورت یہ ہے کہ جیسے تان میں گٹکری پھر رہی ہے۔

    کمال کا شعر ہے۔

    شفق سوپوری

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے