Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Insha Allah Khan Insha's Photo'

انشا اللہ خاں انشا

1752 - 1817 | دلی, انڈیا

لکھنؤ کے سب سے گرم مزاج شاعر ، میر تقی میر کے ہم عصر ، مصحفی کے ساتھ چشمک کے لئے مشہور ، انہوں نے ریختی میں بھی شعر کہے اور نثر میں ’رانی کیتکی کی کہانی‘ لکھی

لکھنؤ کے سب سے گرم مزاج شاعر ، میر تقی میر کے ہم عصر ، مصحفی کے ساتھ چشمک کے لئے مشہور ، انہوں نے ریختی میں بھی شعر کہے اور نثر میں ’رانی کیتکی کی کہانی‘ لکھی

انشا اللہ خاں انشا کے اشعار

9.7K
Favorite

باعتبار

عجیب لطف کچھ آپس کی چھیڑ چھاڑ میں ہے

کہاں ملاپ میں وہ بات جو بگاڑ میں ہے

جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشا اللہ

کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

پہنچوں میں کس کی کہنہ حقیقت کو آج تک

انشاؔ مجھے ملا نہیں اپنا ہی کچھ سراغ

کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر

فعل بد خود ہی کریں لعنت کریں شیطان پر

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی

تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں

میں نے جو کچکچا کر کل ان کی ران کاٹی

تو ان نے کس مزے سے میری زبان کاٹی

کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت

ٹال کر کہنے لگے دن ہے ابھی رات کے وقت

لیلیٰ و مجنوں کی لاکھوں گرچہ تصویریں کھنچیں

مل گئی سب خاک میں جس وقت زنجیریں کھنچیں

جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی

حیف کہ اس سے ملاقات نہ ہونے پائی

یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں

وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

کر لیتا ہوں بند آنکھیں میں دیوار سے لگ کر

بیٹھے ہے کسی سے جو کوئی پیار سے لگ کر

سانولے تن پہ غضب دھج ہے بسنتی شال کی

جی میں ہے کہہ بیٹھیے اب جے کنھیا لال کی

زمیں سے اٹھی ہے یا چرخ پر سے اتری ہے

یہ آگ عشق کی یارب کدھر سے اتری ہے

نزاکت اس گل رعنا کی دیکھیو انشاؔ

نسیم صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا

یاد کیا آتا ہے وہ میرا لگے جانا اور آہ

پیچھے ہٹ کر اس کا یہ کہنا کوئی آ جائے گا

کاٹے ہیں ہم نے یوں ہی ایام زندگی کے

سیدھے سے سیدھے سادے اور کج سے کج رہے ہیں

ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

نہ کہہ تو شیخ مجھے زہد سیکھ مستی چھوڑ

تری پسند جدا ہے مری پسند جدا

دہکی ہے آگ دل میں پڑے اشتیاق کی

تیرے سوائے کس سے ہو اس کا علاج آج

پھبتی ترے مکھڑے پہ مجھے حور کی سوجھی

لا ہاتھ ادھر دے کہ بہت دور کی سوجھی

ہر طرف ہیں ترے دیدار کے بھوکے لاکھوں

پیٹ بھر کر کوئی ایسا بھی طرحدار نہ ہو

گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی

ہر طور غرض آپ سے ملنا ہی کم اچھا

صبح دم مجھ سے لپٹ کر وہ نشے میں بولے

تم بنے باد صبا ہم گل نسرین ہوئے

دے ایک شب کو اپنی مجھے زرد شال تو

ہے مجھ کو سونگھنے کے ہوس سو نکال تو

ہے خال یوں تمہارے چاہ ذقن کے اندر

جس روپ ہو کنھیا آب جمن کے اندر

صنم خانہ جاتا ہوں تو مجھ کو ناحق

نہ بہکا نہ بہکا نہ بہکا نہ بہکا

غنچۂ گل کے صبا گود بھری جاتی ہے

ایک پری آتی ہے اور ایک پری جاتی ہے

جس نے یارو مجھ سے دعویٰ شعر کے فن کا کیا

میں نے لے کر اس کے کاغذ اور قلم آگے دھرا

چند مدت کو فراق‌ صنم و دیر تو ہے

آؤ کعبہ کبھی دیکھ آئیں نہ اک سیر تو ہے

اس سنگ دل کے ہجر میں چشموں کو اپنے آہ

مانند آبشار کیا ہم نے کیا کیا

جاوے وہ صنم برج کو تو آپ کنہیا

جھٹ سامنے ہو مرلی کی دھن نذر پکڑ کر

ہے نور بصر مردمک دیدہ میں پنہاں یوں جیسے کنہیا

سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ اور آنکھوں میں پنگھٹ

تو نے لگائی اب کی یہ کیا آگ اے بسنت

جس سے کہ دل کی آگ اٹھے جاگ اے بسنت

شیخ جی یہ بیان کرو ہم بھی تو باری کچھ سنیں

آپ کے ہاتھ کیا لگا خلوت و اعتکاف میں

بیٹھتا ہے جب تندیلا شیخ آ کر بزم میں

اک بڑا مٹکا سا رہتا ہے شکم آگے دھرا

خوباں روزگار مقلد تیری ہیں سب

جو چیز تو کرے سو وہ پاوے رواج آج

خیال کیجیے کیا کام آج میں نے کیا

جب ان نے دی مجھے گالی سلام میں نے کیا

ہر شاخ زرد و سرخ و سیہ ہجر یار میں

ڈستے ہیں دل کو آن کے جوں ناگ اے بسنت

پتے نہیں چمن میں کھڑکتے ترے بغیر

کرتی ہے اس لباس میں ہر دم فغاں بسنت

نہ لگی مجھ کو جب اس شوخ طرحدار کی گیند

اس نے محرم کو سنبھال اور ہی تیار کی گیند

آتے نظر ہیں دشت و جبل زرد ہر طرف

ہے اب کے سال ایسی ہے اے دوستاں بسنت

گر شاخ زعفراں اسے کہیے تو ہے روا

ہے فرح بخش واقعی اس حد کوہاں بسنت

ہرچند کہ عاصی ہوں پہ امت میں ہوں اس کی

جس کا ہے قدم عرش معلیٰ سے بھی بالا

انشاؔ سے شیخ پوچھتا ہے کیا صلاح ہے

ترغیب بادہ دی ہے مجھے اے جواں بسنت

کافر سما رہا ہے سارنگ کا یہ لہرا

طبلے کی تال و سم کے ہر ہر پرن کے اندر

ہچکیاں لے ہے اس طرح بط مے

جس طرح گٹکری میں تان پھرے

تشریح

جن ناقدین نے شکوہ کیا ہے کہ انشاؔکی شاعری میں قافیہ پیمائی، ابتذال اور پھکڑ پن کے سوا کچھ نہیں ان کی نظر انشاؔ کی شاعری میں الفاظ کے تنوع ، بیان کی تازگی، معنی آفرینی اور انشا کی طباعی کی طرف نہیں گئی ہے۔ زیرِ بحث شعر کو ہی لیجیے۔ اس میں انشا نے ایک عام مضمون کو بیان کی جس طرز میں پیش کیا ہے اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ انشا قافیہ پیمائی کے شاعر ہیں۔ شعر میں مستعمل تلازمات اگرچہ انشا کے دور میں نامانوس نہیں تھے مگر انشا نے اپنے گہرے لسانی شعور، قوتِ تخیل اور جودتِ طبع سے جو محاکاتی فضا تیار کی ہے اس کا جواب نہیں۔ ان تلازمات سے جو بیانیہ قائم ہوا ہے اس میں انشا کی طباعی کا زبردست زور اور کمال دکھائی دیتا ہے۔ جس غزل سے یہ شعر لیا گیا ہے اس کے آخر میں دو قطعے ہیں۔ دونوں دو دو اشعار پر مشتمل۔ یہ شعر پہلے قطعے کا دوسرا شعر ہے۔ پہلا شعر یہ ہے؎

ساقیا آج جامِ صبہا پر

کیوں نہ لہراتی اپنی جان پھرے

پہلے شعر نے اگرچہ دوسرے شعر کے مضمون کو بیان کرنے کی فضا تیار کی ہے تاہم اگر زیرِ بحث شعر کو اس کے ماقبل شعر سے الگ کرکے بھی پڑھا جائے تو معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شعر سے معنوی تعلق کے حوالے سے دو شعر درج کررہا ہوں:؎

مستی ہے اب جو چاہیں سیر آبی

بطِ مے تو ہوئی ہے مرغابی

(میرؔ: مثنوی در مذمتِ برشگال)

گٹکری کا سا ہے لچھّا بہ گلوئے مینا

ہچکیاں قلقلِ مینا جو ہے لیتی پیہم

(ذوق:قصیدہؔ)

میرؔ نے ’’مستی‘‘ ’’ سیر آبی‘‘ ’’ بطِ مے‘‘ اور مرغابیوں کی مناسبتوں سے خوب مضمون پیدا کیا ہے۔ ذوقؔ کا شعر البتہ تزائد لفظی کا شکار ہوا ہے۔ یعنی گٹکری کے بعد لچھا(دونوں ہم معنی ہیں) اور ہچکیوں کے بعد قلقل انشاکے شعر کے مقابلے میں غیر ضروری دکھائی دیتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے شعر کی لغات پر غور کرتے ہیں۔ بطِ مے کی ترکیب شعر میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ بط کے معنی شراب کی صراحی جو بط(بطخ) کی ہم شکل ہوتی ہے۔ آتش کا شعر ہے: ؎

کنارِ آب چلے دورِ جام یا لبِ کشت

شکار ہووے بطِ مے کہاں نہیں معلوم

گٹکری موسیقی کی ایک اصطلاح ہے۔ گٹکری کو موسیقی کی آرائشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں Coloratura ، جرمنی میں Bebendاور اطالوی میں Tremolandoکہتے ہیں۔ موسیقی میں گٹکری اس پیچ دار آواز کو کہتے ہیں جو مغنّی کے گلے سے لہراتی ہوئی نکلے۔ تان میں گٹکری کا عمل اس قدر تیز ہوتا ہے کہ سُروں کی پیمائش نہیں ہوتی اور ازروئے موسیقی اسے ایک سُر کے برابر دکھایا جاتا ہے۔ گٹکری لینا یعنی گاتے گاتے آواز میں لرزش پیدا کرنا:؎

گٹکری ہے گلے میں کافر کے

دیکھیے جب ہے تان ہونٹوں پر

(ناسخؔ)

مرگیا میں تو گٹکری ایسی

تو نے اے بلبلِ سحر لی ہے

(مصحفیؔ)

تان سُروں کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جو راگ کے پھیلانے میں کارآمد ہو۔

گٹکری، تان اور بط کی طرف جب متوجہ ہوتے ہیں تو لاشعوری طور پر ذہن میں بربط (Lute)کا خیال آجاتا ہے۔گویا کسی شیرین دھن کا لہرا فضا میں تیرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اگرچہ بربط کا مذکور نہیں اور نہ اس کی ضرورت یا محل ہے۔ مگر انشا نے وہ فضا بنائی ہے کہ لاشعور میں جھنکار سنائی دیتی ہے۔

شعر میں سارا معاملہ شراب کا صراحی سے جام میں گرنے کا ہے۔ اس عمل کو گریۂ شیشہ کہتے ہیں۔قلقل کو گریہ اور قہقہہ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ ذوقؔ کا شعر ہے: ؎

ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثلِ قلقلِ مینا

کسی نے قہقہہ اے بے خبر مارا تو کیا مارا

انشا اگرچہ تشبیہ سے آگے نہیں بڑھے ہیں مگر ہچکی کو گٹکری کی تان کے مشابہ ٹھہرا کے گویا شاعرانہ معجزہ انجام دیا ہے۔اس امر سے قطع نظر کہ ہچکیاں، بطِ مے، گٹکری اور تان میں جو مناسبتیں ہیں ان سے شعر میں کمال درجہ کا تاثر پیدا ہوا ہے، یہ بات بھی لائق داد ہے کہ انشا نے ذوقؔ کی طرح گٹکری، لچھا، گلوئے مینا، ہچکیاں، قلقل، مینا جتنے الفاظ استعمال کرنے کے بغیر ہی جو نادر پیکر تراشا ہے اس کی نوعیت بصری تو ہے ہی، لمسی، سمعی، شامی، مذوقی اور حرکی بھی ہے۔ چنانچہ اس پورے محاکاتی بیانیہ میں ’’ بطِ مے کا ہچکیاں لینا‘‘ اور’’ گٹکری میں تان پھرنا‘‘ دونوں سے سمعی پیکر وجود میں آتا ہے۔ چونکہ صراحی سے شراب جام میں انڈیلی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں صراحی ہچکیاں لے رہی ہے ۔ نیز گٹکری میں تان پھرنے کے عمل میں حرکت ہے اس لیے حرکی پیکر پیدا ہوا۔ شراب صراحی سے جام میں گررہی ہے جس سے جام شراب کا لمس محسوس کرتا ہے اس لیے لمسی پیکر بن گیا۔ جب شراب کا ذکر ہوا تو ذہن میں اس کی بو کا خیال آگیا اس سے شامی پیکر صورت پذیر ہوا۔ علاوہ بریں شراب کا ذائقہ محسوس ہوا جس سے مذوقی پیکر بن گیا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ذوقؔ کے علی الرغم انشانے بڑی لطافت کے ساتھ صرف ہچکیوں، تان اور گٹکری سے تاثر پیدا کیا ہے۔

شعر میں اگرچہ کوئی نیا مضمون پیدا نہیں کیا گیا ہے تاہم بیان کی لطافت نے اس میں غضب کا تاثر ڈال دیا ہے۔ مفہوم سیدھا سادہ ہے کہ بطِ مے یعنی مینا یا صراحی سے شراب جام میں گرتے ہوئے جو آواز پیدا کرتی ہے اسے سن کر لگتا ہے جیسے گٹکری میں تان پھر رہی ہے۔ صراحی سے جب شراب جام میں گرتی ہے تو اس سے جو قلقل کی آواز بنتی ہے اس میں وہی تسلسل ہوتا ہے جو تان میں ہوتا ہے۔ چونکہ تان گٹکری میں پھرتی ہے لہٰذاتان کے اندر ایک قسم کا اہتزاز موجود ہے۔ پس اسی مناسبت سے انشا نے یہ مضمون پیدا کیا ہے کہ محفلِ سرود کے اثر سے صراحی بھی نہ بچ سکی اور وہ بھی نشے میں آکر اسی طرح جام میں شراب انڈیل رہی ہے جس طرح تان میں گٹکری پھرتی ہے۔ معنوی پہلو سے لفظ ہچکیاں بھی قابلِ غور ہے۔ شرابی جب خوب نشے میں آتا ہے تو اس کے حلق سے وقفہ وقفہ سے ہچکیاں نکلتی ہیں۔ تو گویا بادہ کشوں کے ساتھ ساتھ صراحی بھی نشے میں چورہوکر ہچکیاں لے رہی ہے۔ اور ہچکیوں کی صورت یہ ہے کہ جیسے تان میں گٹکری پھر رہی ہے۔

کمال کا شعر ہے۔

شفق سوپوری

لگا دی دون اس جنگل کو بس اک دو ہی آہوں میں

یہ دھرپت قہر کچھ انشا نے دیپک راگ کا جوڑا

تشریح

انشا ء اللہ خان انشائاردو شاعری کے بہت بڑے فنکار تھے۔ انہیں الفاظ کے داخلی اور خارجی آہنگ، معنیات کی جہات اور تلازمات کی مناسبتوں کا کمال عرفان حاصل تھا۔ انشاء کا مطالعہ میرے لئے اس واسطے بھی باعث دلچسپی ہے کہ ان کے کلام میں موسیقی کی اصطلاحات کا برتاؤ تخلیقی سطح پر کمال درجہ فنکارانہ چابکدستی سے ہوا ہے۔ میرے خیال میں جس قدر انشاء نے موسیقی کی اصطلاحات کا تخلیقی استعمال کیا ہے اس قدر اور شاعروں میں ملنا دشوار ہے۔ وجہ ان کا گہرا لسانی شعور اور علم موسیقی کا وسیع ادراک ہے۔ انشاء نے موسیقی کی اصطلاحات سے ایسے ایسے نادر مضامین پیدا کیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ موسیقی کی اصطلاحات کا پورا عرفان ہی کافی نہیں بلکہ انہیں صحیح صحیح برتنے کا شعور بھی ہونا چاہیے۔ اور یہ شعور انشاء میں بدجۂ اتم موجود ہے۔ چنانچہ اسی شعور کی بنا پر انشاء تلازمات سے مضمون کو ہمہ پہلو بنا دیتے ہیں۔

زیرِ بحث شعر میں موسیقی کی دو ہی اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے۔ دھرپت اور راگ دیپک۔ دھرپت ہندوستانی موسیقی کی ایک قدیم صنف ہے جس کی طرز نہایت سادا ہے۔ اس میں زمزمہ، مرکی یا گٹکری وغیرہ کی اجازت نہیں۔ سیدھے سادے طریقے سے ولمبت(سست) لے میں گایا جاتا ہے۔

راگ دیپک کا تعلق پوربی ٹھاٹھ سے ہے۔(ٹھاٹھ کہتے ہیں راگ راگنیوں کے خاندانوں کو۔ شاستری سنگیت میں دس ٹھاٹھ ہیں جن سیراگ راگنیوں کا تعلق ہے) بعض لوگ اسے بلاول، کلیان اور بھیروں ٹھاٹھ پر بھی گاتے ہیں۔ مگر چتر پنڈت کے نزدیک پوربی ٹھاٹھ کی ’’مت‘‘ (طرز)سب سے اچھی ہے۔ راگ دیپک کے بارے میں ایک مفروضہ یہ ہے کہ اس کے گانے بجانے سے شمعیں جل جاتی ہیں یا آگ لگتی ہے۔ اسی بنا پر اس راگ کا نام دیپک رکھا گیا ہو۔

شعر میں لفظ دَون (بتحریکِ اول) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دَون اس آگ کو کہتے ہیں جو جنگل میں جلائی جاتی ہے۔ دَون کے اور بھی معنی ہیں مگر انشاء نے اسے جنگل کی آگ کے معنوں میں ہی استعمال کیاہے۔ اس طریقے سے دون کی مناسبت جنگل اور دیپک سے خوب ہے۔ جب دون اور دیپک کہا تو ظاہر ہے کہ آہ سے مراد آہِ آتشیں ہے۔ انشاء کا ہی شعر ہے؎

پھر اس پہ ایسی ہی مطرب نے جوگیا گائی

کہ بن کھڑا ہوا فوں آہِ آتشیں کا سانپ

اب نئی مناسبتیں دجود میں آئیں۔دون کی مناسبت سے جنگل اور آہ(آہِ آتشیں)کی مناسبت سے راگ دیپک۔لیکن انشاء کی فنکاری کمال دیکھیے کہ آگ جو کہ سامنے کا لفظ ہیکے بجائے دون استعمال کیا ہے۔ دُون(بضم اول) موسیقی کی ایک اصطلاح ہے۔ اور موسیقی میں دُون کہتے ہیں اونچے سُر کی آواز کو۔ اگرچہ شعر میں دُون کا کوئی محل نہیں ہے مگر دَون (جنگل کی آگ) اور دُون(اونچا سُر) کے املا میں مماثلت ہے۔ اگر یہ زبر اور پیش کا فرق نہیں ہوتا تو استخدام پیدا ہوتا۔ بہرحال مماثلت کی بنا پر تربیت یافتہ قاری کا ذہن انشاء کی اس ذہانت کو خوب سمجھ سکتا ہے۔ انشاء نے دُون کا لفظ اس شعر میں استعمال کیا ہے؎

ٹھاہ اور دُون میں نالے میں بھروں تو مطرب

ابھی گڑ پنکھ ہو قانون و نے و چنگ اڑے

ٹھاہ کہتے ہیں مدہم درجے کی آواز کو۔ یعنی ٹھاہ اور دون ہوئے زیروبم۔ شعر میں خاص بات یہ ہے کہ آہ اظہارِ درد کا ایک وسیلہ ہے۔ اس میں کسی طور کے تکلف، تصنع از قسم النکار (گٹکری، زمزمہ، مرکی وغیرہ) کا کوئی محل نہیں۔ اس طور سے آہ کی مناسبت دھرپت سے بنتی ہے۔ ایک اور دلچسپ پہلو کی طرف بھی دیکھیں۔ یہ پہلو ہے دون کا صوتی آہنگ۔ طبلے کے بائیں سے جب تال کے ایک بول’’دِھن‘‘ کی آواز نکلتی ہے تو سننے میں دوں لگتی ہے۔ میر حسن کا عمدہ شعر ہے؎

کہا زیر نے بم سے بہر شگوں

کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں

نظیر اکبر آبادی نے تو سماں ہی باندھا ہے؎

ہر سرنا میں دھن میں میں کی اور کرنا ترئی جھانجھ بڑے

کر دھونسے دھوں دھوں باج رہے اور تاشے بجتے کڑ کڑ سے

ایک اور عمدہ پہلو یہ بھی ہے کہ جوڑنا کا ایک معنی حساب لگانا اور جلانا بھی ہے۔ اس طرح سے ’’ایک دو ہی‘‘ کی مناسبت سے جوڑنا اور جوڑنا بمعنی جلانا کی مناسبت سے دون اور دیپک راگ شعر کے معنوی حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔

کمال ہے۔

شفق سوپوری

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے