جی میں آتا ہے کہ چل کر جنگلوں میں جا رہیں
جی میں آتا ہے کہ چل کر جنگلوں میں جا رہیں
نت نئے موسم کے بھی ہم راہ وابستہ رہیں
آتی جاتی رت کو دیکھیں اپنے چشم و گوش سے
موسموں کے وار سہہ کر بھی یوں ہی زندہ رہیں
پھول پھل پودے پرندے ہم دم و دم ساز ہوں
ان میں بستے ہی بھلے لیکن نہ یوں تنہا رہیں
شہر کے دیوار و در ہر اک سے ہیں نا آشنا
شہر میں رہتے ہوئے کیونکر نہ بیگانہ رہیں
بے مروت ہے زمانہ اس کا شکوہ کیوں کریں
اپنے اندر کے مکیں کا بن کے ہمسایہ رہیں
جسم کے اندر غموں کی آندھیاں چلتی رہیں
ظاہری صورت میں سب چہرے تر و تازہ رہیں
دیکھتے ہی جس کو سب محرومیاں کافور ہوں
دل میں طوفاں سے اٹھیں چہرے مگر سادہ رہیں
مسئلہ یہ بھی تو ہے اس عہد کا اے جان جاں
کیوں نچھاور جاں کریں کس کے لیے زندہ رہیں
اڑتے لمحوں کو اگر قابو میں کرنا ہے سعیدؔ
بھاگنے کو ہر گھڑی ہر وقت آمادہ رہیں
- کتاب : naquush (Pg. 295)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.