کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے
کبھی دیوار کو ترسے کبھی در کو ترسے
ہم ہوئے خانہ بدوش ایسے کہ گھر کو ترسے
جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالو سے
جھوٹ لکھوں تو مرا ہاتھ ہنر کو ترسے
قریۂ نامہ براں اب کے کہاں جائیں کہ جب
ترے پہلو میں بھی ہم اس کی خبر کو ترسے
سب کے سب تشنۂ تکمیل ہیں اس شہر کے لوگ
کوئی دستار کو ترسے کوئی سر کو ترسے
شہر بے مہر میں زندہ ہیں ترے بن جیسے
دھوپ کے شہر کا باشندہ شجر کو ترسے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 16.04.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.