کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے
کہیں آنکھیں کہیں بازو کہیں سے سر نکل آئے
اندھیرا پھیلتے ہی ہر طرف سے ڈر نکل آئے
ہوئے ہیں کھوکھلے ہم لوگ ہجرت میں سو ڈرتے ہیں
خلا یہ روح کا ایسا نہ ہو باہر نکل آئے
یہ لگتا ہے کہ پتوں پہ رکھی تھیں منتظر آنکھیں
مرے آتے ہی کتنے پھول شاخوں پر نکل آئے
نہ جانے کھول دے کب کوئی لمحہ یاد کی گٹھری
کسی کونے سے ماضی کا حسیں منظر نکل آئے
مرے ہونٹوں پہ بکھرا یہ تبسم ڈھال ہے میری
کہ جانے کب اداسی کا کہیں خنجر نکل آئے
گرے ہیں جتنے آنسو دامن صحرا میں صدیوں سے
سلگتی ریت بھی اندر سے شاید تر نکل آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.