لہو تیزاب کرنا چاہتا ہے
بدن اک آگ دریا چاہتا ہے
میسر سے زیادہ چاہتا ہے
سمندر جیسے دریا چاہتا ہے
اسے بھی سانس لینے دے کہ ہر دم
بدن باہر نکلنا چاہتا ہے
مجھے بالکل یہ اندازہ نہیں تھا
وہ اب رستہ بدلنا چاہتا ہے
نئی زنجیر پھیلائے ہے بانہیں
کوئی آزاد ہونا چاہتا ہے
رتیں بدلیں نئے پھل پھول آئے
مگر دل سب پرانا چاہتا ہے
سکوں کہیے جسے ہے راستے میں
دو اک پل ہی میں آیا چاہتا ہے
ہوا بھی چاہئے اور روشنی بھی
ہر اک حجرہ دریچہ چاہتا ہے
بگولوں سے بھرا ہے دشت سارا
یہی تو روز صحرا چاہتا ہے
- کتاب : Ghazal Ke Rang (Pg. 81)
- Author : Akram Naqqash, Sohil Akhtar
- مطبع : Aflaak Publications, Gulbarga (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.