میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ (ردیف .. ا)
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
تشریح
اس شعر میں سب سے پہلے متوجہ کرنے والا لفظ ’’لڑکپن‘‘ ہے۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ جب میں بچہ تھا اور دوسرے یہ کہ میری یہ حرکت بچکانہ یا ناسمجھی پر مبنی تھی۔ اس شعر کا پورا لطف اس وقت آتا ہے جب ذہن میں غالبؔ کا اک دوسرا شعر:
فنا تعلیمِ درسِ بے خودی ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
یوں دیوان غالبؔ میں بہت سے ایسے شعر ہیں جو ایک دوسرے کی توسیع یا تکملہ ہیں۔ ان کو ساتھ ساتھ پڑھنے سے غالبؔ کے فکری نظام کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
یہاں بھی دونوں اشعار میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ مجنوں ہو یا غالبؔ دونوں پیدائشی عاشق ہیں۔ وہ اس وقت بھی عاشق تھے جب ان کو کوئی شعور نہیں تھا۔ پہلے شعر میں مجنوں متکلم کا جونیر ہے اور دوسرے شعر میں سینئر۔ دوسرے میں مجنوں اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ مکتب کی دیوار پر لیلیٰ کا نام آدھے ادھورے حروف میں لکھتا ہے جبکہ متکلم اس وقت بیخودی (عشق کی) کے تمام مراحل طے کر چکا تھا۔ زیرِ بحث شعر میں خود متکلم لڑکا ہے۔ وہ مجنوں کو مارنے کے لیے اس طرح پتھر اٹھاتا ہے جیسے بچے کسی پاگل کو ستانے کے لیے یا اس سے ڈر کر مارتے ہیں۔ لیکن اس بچپن میں بھی اسے اتنا خیال ہے کہ ایک دن اس کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے جو آج مجنوں کا ہوا ہے۔ شعر میں ’’سر یاد آیا‘‘ کے کئی معنی ممکن ہیں۔ ایک تو وہی جو اوپر لکھے گئے۔ دوسرے یہ کہ شاعر کو خیال آتا ہے کہ مجنوں سے زیادہ تو پتھر کھانے کا مستحق وہ خود ہے۔ کیونکہ عشق اور اس کی دیوانگی میں اُس کا مرتبہ مجنوں سے بڑھ کر ہے لہٰذا وہ پتھر جو اس نے مجنوں کے لیے اٹھایا تھا، خود اپنے سر پر مار لیتا ہے۔ اس طرح کے اشعار میں ارسطو کی منطق نہیں چلتی کہ کوئی سوال کرے کہ مجنوں اور شاعر کے عہد میں تو صدیوں کا فاصلہ ہے پھر دونوں ایک ہی زمانہ میں کیسے ہوگئے؟ یہ شاعرانہ منطق ہے۔ اس کا تعلق حقیقت سے نہیں بلکہ تصور سے ہوتا ہے۔ یہ منطق زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہے۔ شاعر خود کو اور دوسروں کو اپنی چشم تصور سے کبھی، کہیں اور کسی بھی حالت میں دیکھ سکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ تفاعل پر بھی قادر ہوتا ہے۔ اس طرح ’’سریاد آیا‘‘ کے یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ متکلم خیال کرتا ہے کہ کل لوگ مجھے اسی طرح پتھر ماریں گے یا کبھی لوگ مجھے بھی اسی طرح پتھرمارا کرتے تھے۔ ان معنوں میں شاعر خود کو بیک وقت ماضی اور مستقبل دو زمانوں میں شفٹ کر کے دیکھ رہا ہے۔
محمد اعظم
- کتاب : paiman-e-gazal-avval (Pg. 145)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.