او پچھلی رت کے ساتھی
او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تشریح
دوستو !آج ناصر کاظمی کے اس سادہ اور لطیف شعر کی تشریح کرتے ہیں اور اس کے اجزا کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اردو شاعری میں اداسی، ہجر اور غم کو نئے زاویوں سے بیان کرنے پرکھنے، برتنے اور بیان کرنے کا جو فن ناصر کاظمی کو حاصل ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ وہ استعارے ہیں جو ناصر کاظمی نے غزل کی پیکر تراشی میں استعمال کیے بلکہ ایسے ہی جیسے کوئی ماہر معمار مستعمل اشیاء سے عمارت کی بناوٹ میں ایک نیا حسن پیدا کر دیتا ہے۔ ناصر کاظمی نے رتوں، موسموں، تنہائی، دکھ، سفر، دریا، پیڑ اور اسی طرح کی دوسری علامتیں اپنے جذبات کے اظہار میں کچھ اس طرح استعمال کی ہیں کہ ان علامتوں کا ہر رنگ ہی دوبالا ہوگیا، نیا ہوگیا۔
دوستو! یہ ایک سادہ سا شعر ہے جس میں بظاہر شاعر اپنے بچھڑے ساتھی سے مخاطب ہے، اپنے محبوب سے خطاب کر رہا ہے، اس کو یاد کر رہا ہے اور اس کو اپنے دکھ بھرے دل کی بپتا سنا رہا ہے۔ اس کو بتا رہا ہے کہ ایک حسین عرصہ جو اس نے گزارا ہے، اس کی دلخراش یادیں اب سوائے بے چینی کے اور کچھ نہیں دیتی ہیں سوائے بے کلی، بے قراری کے کچھ حاصل ہونے نہیں دیتی ہیں۔ اس شعر میں جو انداز تکلم ہے وہ بھی بہت پرسوز، پر درد ہے۔ شاعر اپنے محبوب کو جس رقّت ِ قلب اور جس حسرت و یاس کے ساتھ مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ اے میرے بچھڑے ہوئے دوست! اے میرے حسین رتوں کے ساتھی! اے میرے خوبصورت لمحوں کے محرم ! اے میرے شاندار ایّام کے گواہ ! آ اور میرا حال زار بھی دیکھ ! کہ اس رت میں، اس موسم میں، اس برس میں میٙں تیرے بنا کتنا تنہا ہوں، کتنا اداس ہوں، کتنا ملول ہوں، تجھے یاد کر کے کتنا بے کل اور بے چین ہوں۔ وہ بہت حسین وقت تھا، جو تیرے ساتھ گزارا گیا تھا۔ وہ وقت اب یاد آ آ کر مجھے تڑپا رہا ہے، بے چین کر رہا ہے، بے قرار رہا ہے اور میں سوائے اس غم سے تڑپنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتا ہوں۔ ناصر کاظمی کے کلام میں یہ عناصر بہت شدت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ تمام دکھ درد کبھی خطاب کے انداز میں، کبھی تکلّم کے انداز میں، تو کبھی خود کلامی کے انداز میں نظر آتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے سادہ سے انداز سے درد و الم کی جو تصویر بنائی ہے، اس کا ثانی نہیں ملتا ہے۔
اس مضمون کو شمیم عباس نے اس طرح ادا کیا ہے :
عمر گزر جاتی ہے قصّے رہ جاتے ہیں
پچھلی رت کے بچھڑے ساتھی یاد آتے ہیں
اور غوث سیوانی نے جب اس مضمون پر غور کیا تو کچھ اس طرح ادا کیا ۔
ساون رت اور اڑتی پروا تیرے نام
دھوپ نگر سے ہے یہ تحفہ تیرے نام
یوں تو ہجرو غم شاعری کا مستقل مضمون رہا ہے مگر جس سرلتا سے ناصر کاظمی اس کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس کا جواب نہیں ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسانۂ درد سنا رہے ہیں اور ان کا محبوب، جو اگرچہ ان کے ساتھ نہیں ہے مگر اس کو سن رہا ہے اور وہ یہ سارا ماجرا بیان کر کے اپنے دل کا بوجھ اتار رہے ہیں۔
بشر نواز نے کہا تھا:
ہر نئی رت میں نیا ہوتا ہے پیکر میرا
ایک پیکر میں کہاں قید ہے پیکر میرا
یعنی یہ کہ یہ دکھ درد کا قصہ تو ہمیشہ سے ہے مگر اس کے shades ہر شاعر نے اپنے اپنے طور پر ادا کیے ہیں، برتے ہیں۔ ،دیکھے ہیں، سمجھے ہیں، اور ادا کیے ہیں۔ اس خوبصورت شعر میں ناصر کاظمی نے جو قصۂ غم سنایا ہے وہ اگرچہ بہت سادہ ہے مگر دل میں اتر جانے والا ہے۔ بہت معصومیت سے بھرا ہے۔ شاعر ایام گزشتہ کی یادوں سے اس قدر پریشان ہے کہ اس کو لمحہ لمحہ یہ یاد ماضی پریشان کر رہی ہے اور سوائے غم زدہ ہونے کے وہ کچھ نہیں کر سکتا ہے۔P.B. Shelley اے اپنی شہرہ آفاق نظم STANZAS WRITTEN IN DEJECTION NEAR NAPLES میں ایک جگہ لکھا ہے ۔
Alas! I have nor hope nor health,
Nor peace within nor calm around,
Nor that content surpassing wealth
The sage in meditation found,
And walked with inward glory crowned—
Nor fame, nor power, nor love, nor leisure.
Others I see whom these surround—
Smiling they live, and call life pleasure;
To me that cup has been dealt in another measure
کس طرح ناصر کاظمی کا یہ سادہ سا شعر دکھ، درد،غم اور الم کی پرتیں کھولتا ہوا نظر آتا ہے۔
سہیل آزاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.