Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nasir Kazmi's Photo'

ناصر کاظمی

1925 - 1972 | لاہور, پاکستان

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں شامل ، ہندوستان کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے اور پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انہوں نے تقسیم اور ہجرت کی تکلیف اور اثرات کو موضوع سخن بنایا

ناصر کاظمی کے اشعار

98.8K
Favorite

باعتبار

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا

جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے

اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

تیری مجبوریاں درست مگر

تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے

تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آ جانا

ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

تشریح

دوستو آج ناصر کاظمی کے اس حسین شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے شاعری میں جس تخیل اور جس ترتیب الفاظ کی بے مثال آمیزش کی ہے وہ دل پر اثر کرنے کی تمام تر صلاحیت رکھتی ہے۔ ناصر کاظمی نے اس شعر میں نہایت آسان الفاظ میں فراق یار کا افسانہ سنا دیا ہے ۔ وہ یار وہ محبوب جو ہمہ وقت ان کے اوسان پر حاوی ہے اور جو ایک لمحے کے لئے بھی ان کے ذہن و دماغ سے نہیں اترا ہے۔ محبوب سے ملاقات کو اس شعر میں ایک ایسی تقریب کی طرح بیان کیا گیا ہے کہ جس کے لیے نئے لباس کا تعین اور لباس کے ساتھ ساتھ چہرے کی زیبائش کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اپنے محبوب سے ملاقات کے لیے جس خوش دلی کے ساتھ شاعر خود کو تیار کرتا ہے وہی خوش دلی یاس اور اداسی میں بدل جاتی ہے، جب شاعر کا محبوب غیر موجود ہوتا ہے ۔

یہ شعر فراق کا فسانہ تو سناتا ہی ہے، اک ایسا یاس کا منظر نامہ بھی پیش کرتا ہے جس کے اثرات سننے والے یا پڑھنے والے کو بھی مغموم کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس گھڑی شاعر کا محبوب شہر میں موجود تھا اور شاعر کی ملاقات ہوا کرتی تھی اس خوشی کا کیا ٹھکانہ ہو سکتا ہے مگر افسوس صد افسوس جب اس کا محبوب شہر چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے جانے کے ساتھ شاعر کے لیے شہر کی تمام رونقیں ختم ہو گئیں، شہر کا عالم ہی بدل گیا، شہر کا رنگ بے رنگی میں تبدیل ہوگیا۔ شاعر اس قدر مغموم ہے کہ نہ اس کا جی باہر نکلنے کو چاہ رہا ہے اور نہ اپنے لباس کی اور اپنے بالوں کی آرائش و زیبائش کی طرف متوجہ ہونے کو ۔

یہ منظر نامہ اتنا حقیقی ہے کہ ہم بھی گویا اس کرب اور اس تکلیف کو خود اپنے دل میں محسوس کر سکتے ہیں۔ بارہا ہم بھی کہیں نہ کہیں اس تکلیف سے گزرے ضرور ہیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ جہاں جہاں ہم اپنے دوست اور اپنے یار کے ساتھ گھومتے رہے ہیں، جن پارکوں اور ریستورانوں میں وقت گزاری کی گئی ہے وہ سب یکسر بے رنگ اور بے روح لگنے لگتے ہیں جب ہمارا دوست اور ہمارا یار ہم سے بچھڑ جاتا ہے یا وقتی طور ہم سے دور چلا جاتا ہے ۔

ایک اور اہم بات جو اس شعر کو پڑھتے ہوئے آپ محسوس کریں گے کہ شاعر نے الفاظ کا جو تعین کیا ہے وہ اس قدر آسان ہے کہ جس نے شعر کے ظاہری حسن کو غیرمعمولی طور پر دمکا دیا ہے۔ یہ دمک اتنی تیز ہے کہ اس کے پیچھے کرب ناک منظر کی جو سیربین چل رہی ہے اسے صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اگر سامع یا قاری اس کرب تک پہنچ جاتا ہے تو اس شعر کا حق ادا ہوجاتا ہے ۔

اپنے محبوب کے بنا شہر سے گزرنے کا تصور ہی بہت روح فرسا ہے۔ جو کسی بھی حساس شخص کو آبدیدہ کر سکتا ہے ۔

اسی تصور کو ڈاکٹر بشیر بدر اس طرح بیان کرتے ہیں -

انہی راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے

مجھے روک روک پوچھا تیرا ہمسفر کہاں ہے

ناصر کاظمی نے درد و غم کرب و بےکلی کو جس آسان انداز میں بیان کر آفاقی رنگ دیا ہے اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے ۔

سہیل آزاد

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

کون اچھا ہے اس زمانے میں

کیوں کسی کو برا کہے کوئی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں

آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

یاد آئی وہ پہلی بارش

جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے

تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل

آج تو بے سبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم

یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ایک دم اس کے ہونٹ چوم لیے

یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے

پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

او میرے مصروف خدا

اپنی دنیا دیکھ ذرا

نئی دنیا کے ہنگاموں میں ناصرؔ

دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی

چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ

یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے

تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا

اس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا

عمر بھر جس کا راستا دیکھا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں

اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

نیت شوق بھر نہ جائے کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

اپنی دھن میں رہتا ہوں

میں بھی تیرے جیسا ہوں

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا

جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

نہ ملا کر اداس لوگوں سے

حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

تشریح

دوستو! آج ناصر کاظمی کے ایک خوب صورت شعر کی تشریح کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے شاعری کو آسان استعاروں اور آسان الفاظ کے وہ پیکر عطا کئے کہ جن کا ثانی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ناصر کاظمی کے اشعار کے الفاظ زیور کی طرح ہیں جو دل فریب حسن عطا کرتے ہیں۔ سادہ اور سہل انداز میں دنیا جہان کے مفہوم ادا کرنے کا ہنر کوئی ناصر کاظمی سے سیکھے۔

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ تو بہت نازک اندام، نازک مزاج، نازک خیال ہے۔ تیری یہ نازکی اور سادگی تیرا حسن ہے۔ تیری شوخی، تیری شرارت، تیری شگفتگی تیرا لاوبالی پن، یہ سب اوصاف تیرے مزاج کا حصہ ہیں، جن کو ذرا سا بھی ملال، رنج اور درد پراگندہ کر سکتا ہے۔ تیرے حسن کو دکھ درد کی چھایا بھی میلا کر سکتی ہے، غم کا معمولی سا اثر بھی گندہ کر سکتا ہے اور رنج و تفکر بدرنگ کر سکتے ہیں۔ اس لیے تیرے حسن کی خیر اسی میں ہے کہ تو مجھ جیسے اداس لوگوں سے رسم و راہ بند کردے۔ بقول شاعر یہ غم کا غبار تیرے حسن کو خراب کرنے کے لئے کافی ہے۔

شعر کے ظاہری حسن کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ معنوی حسن کو بھی دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ایک نکتہ جو اس شعر میں پوشیدہ ہے وہ شاعر کا غم زدہ اور ملول ہونا ہے اور اس کے محبوب کا شگفتہ مزاج، حسین اور سادہ لوح ہونا ہے۔ گویا یہ سادہ مزاج محبوب جانتا ہی نہیں ہے کہ شاعر جیسے غمزدہ انسان سے مل کر اور تو کیا ہی ہوگا البتہ خود اس کا حسن ماند پڑ جائے گا۔ اس کا حسنِ ظاہری جو پھول کی طرح تروتازہ ہے، چاندنی کی طرح سادہ ہے اور اوس کی طرح نازک ہے، ذرا سی بھی آلودگیٔ الم برداشت نہیں کر سکے گا۔ اس خوبصورت انداز میں شاعر خود کو غمزدہ رنجیدہ اور ملول بتانے اور اپنے محبوب کو نازک مزاج شگفتہ اور حسین اور معصوم بتانے میں کامیاب ہے۔

سہیل آزاد

میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

رات کتنی گزر گئی لیکن

اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے

دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے

تجھ بن ساری عمر گزاری

لوگ کہیں گے تو میرا تھا

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

حال دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا

میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہوں

تو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا

روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں

پھر بھی ہر دل کے مقدر میں نہیں تنہائی

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے

انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے