سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی
یہاں اک شہر تھا شہر نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی
میں وہ دل ہوں دبستان الم کا
جسے روئے گی برسوں شادمانی
تحیر نے اسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی
خیالوں ہی میں اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی
ہجوم نشۂ فکر سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی
بتا اے ظلمت صحرائے امکاں
کہاں ہوگا مرے خوابوں کا ثانی
اندھیری شام کے پردوں میں چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی
پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اڑے جاتے ہیں اوراق خزانی
نئی دنیا کے ہنگاموں میں ناصرؔ
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.