سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا
سفینہ موج بلا کے لیے اشارہ تھا
نہ پھر ہوا تھی موافق نہ پھر کنارا تھا
ہم اپنے جلتے ہوئے گھر کو کیسے رو لیتے
ہمارے چاروں طرف ایک ہی نظارا تھا
یہ واقعہ جو سنیں گے تو لوگ ہنس دیں گے
ہمیں ہماری ہی پرچھائیوں نے مارا تھا
طلسم توڑ دیا اک شریر بچے نے
مرا وجود اداسی کا استعارا تھا
یہ حوصلہ تو گلوں کا تھا ہنس پڑے لیکن
انہیں کسی کا تبسم بھی کب گوارا تھا
غرور عقل میں ایمان بھی گنوا بیٹھے
یہ اک جزیرہ تو سب کے لیے کنارا تھا
اسے بھی آج کیا میں نے آندھیوں کے سپرد
بہت دنوں سے مرے پاس اک شرارہ تھا
ہم اس کو کیسے سناتے کہانیاں دانشؔ
کتاب دل کا ہر اک صفحہ پارہ پارہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.