Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے

مرزا غالب

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے

    کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

    تشریح

    غالب کے اشعار کے معنی کی تہوں تک پہنچنا ایسا ہی ہے جیسے دریا سے موتی نکالنا۔ بلکہ کسی بھی شعر کی تشریح اور تفسیر کا عمل ایسا ہی ہے جیسے کسی پھول کی پنکھڑیوں کو بکھیر دیا جائے۔ مگر پھر بھی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ضروری ہے کہ اشعار کو ان کے مطلب کے ساتھ کھول کر بیان کیا جائے، جس سے کہ سننے والے کو اس کے مطلب تک پہنچنا اور آسان ہو جائے۔

    غالب کے اس شعر کی بات کی جائے تو پہلے کچھ الفاظ کے مفہوم پر بحث کی جانی بہت ضروری ہے۔ پہلا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے وہ 'نا امیدی' ہے جو امید کا antonym یا विलोम ہے ۔جس کا अर्थ hopelessness یا despair ہے اور دوسرا لفظ 'قیامت' ہے جس کا اس شعر کے مطابق محاوراتی مطلب فتنہ 'مصیبت، آفت' ہے۔ اس کے علاوہ 'دامانِ خیالِ یار' کا مطلب دیکھیں تو سمجھ آئے گا کہ محبوب کے تصور کا دامن یا اپنے یار کی कल्पनाओं का सिरा یا imaginary form of beloved ہے۔

    سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی شعر میں دو aspacts ہوتے ہیں۔ پہلا اس کے الفاظ کی ترتیب اور اس کی کرافٹ ہے اور دوسرا اس کے معنی کی گہرائی جو شعر کا باطنی حسن ہے۔ یا یوں کہیے کہ جو شعر کی اصل بنیاد ہے۔ معنی وہ ہیں کہ جن کی تہیں بہت گہری ہیں بہت اندر تک پہنچی ہوئی ہیں جن کو کماحقہ (پوری طرح )سمجھنا تو بہت مشکل ہے، مگر یہ کہ اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پرت در پرت بہت سے امکانات سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اپنے دل پر نا امیدی اور ناکامی کے سایوں کے پڑنے کی وجہ سے اتنا پریشان ہے کہ اس کے ہاتھ سے اپنے محبوب کی یاد کے سرے بھی نکلے جاتے ہیں ۔ غالب کسی بات کو سیدھے اور آسان لفظوں میں کہنے کے عادی نہیں ہیں۔ سیدھی سادھی بات کو بھی آفاقی بنا دیتے ہیں اور اتنا व्यापक अर्थ खुलते हुए نظر آتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر حیران ہو جانا بالکل فطری ہے۔

    یہاں غالب خود کو امید اور اس سے اتنا خالی پاتے ہیں کہ نا امید ہو جاتے ہیں اور اسی نا امیدی کو personify کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے نا امیدی! ذرا مجھے سنبھلنے تو دے، مجھے دم لینے تو دے، مجھ کو سوچنے سمجھنے تو دے، مجھ پر ایک کے بعد ایک یاس کی بوچھار نہ ہونے دے، کیونکہ یہ یاس اور ناامیدی ایک طرح سے مجھے ہر قسم کی دنیاوی مصیبتوں میں گھیرے رکھتی ہے، وہیں دوسری طرف میں اپنے محبوب کے تصور اور اس کی کلپنا سے بھی دور ہو جاتا ہوں۔ غالب نے دامان خیال یار کا استعمال کر کے اس عام سے جذبے کو بھی بہت خاص بنا دیا ہے اور عام سے مفہوم کو بہت گہرائی عطا کر دی ہے۔

    غالب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک دکھ درد پریشانی اور مصیبت، آفت اور بے چینی ایسی ہے کہ جو زندگی کو گھیرے ہوئی ہے اور انہیں پریشانیوں اور مصیبتوں نے اس کی زندگی سے اُس کو چھین کر یاس میں بدل دیا ہے۔ شعر کی پرتوں کو کھولیں تو دیکھیں گے کہ اس شعر میں جس حسن اور خوبصورتی سے اس درد کو بیان کیا گیا ہے اس نے اس کے اظہار کو نئی سمت اور نیا رنگ عطا کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیاوی معاملات اور مسائل کی زیادتی ہمیشہ ہی دل کے معاملات پر بھاری ہو جاتی ہے اور یہی غالب کے ساتھ بھی ہوا جس کو وہ اس شعر میں بیان کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ غالب اسی طرح بیان کرتے ہیں کہ

    کوئی امید بر نہیں آتی

    کوئی صورت نظر نہیں آتی

    یعنی ساری امیدیں ختم ہو چکی ہیں آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے تاریکی ہی تاریکی ہے غم ہی غم ہے پریشانی ہی پریشانی ہے ۔

    سہیل آزاد

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے