سینے کی آگ آتش محشر ہو جس طرح
یوں موجزن ہے غم کہ سمندر ہو جس طرح
زخموں سے یوں ہے جسم کی دیوار ضو فگن
شعلوں کا رقص شاخ شجر پر ہو جس طرح
بادل کا شور ہانپتے پیڑوں کی بے بسی
یوں دیکھتا ہوں میرے ہی اندر ہو جس طرح
اڑتے ہوئے غبار میں آنکھوں کا دشت بھی
کچھ یوں لگا کہ خشک سمندر ہو جس طرح
بستی کے ایک موڑ پہ برسوں سے اک کھنڈر
یوں نوحہ گر ہے میرا مقدر ہو جس طرح
ویرانیوں کا کس سے گلا کیجیے کہ دل
اتنا اداس ہے کہ لٹا گھر ہو جس طرح
سکھ کی اگی نہ دھوپ نہ دکھ کی مٹی لکیر
یوں ہے مرا نصیب کہ پتھر ہو جس طرح
احساس میں شدید تلاطم کے باوجود
چپ ہوں مجھے سکون میسر ہو جس طرح
یوں حسرتوں کے خوں کی مہک میں بسا ہے دل
مہندی رچا وہ ہات معطر ہو جس طرح
پیاسا ہوں پاس ہے وہ چمکتا ہوا بدن
یوں ہات کانپتا ہے کوئی ڈر ہو جس طرح
پتھر نہ جان تجھ کو دکھاؤں گا آب و تاب
یوں قید ہوں کہ سیپ میں گوہر ہو جس طرح
زلفیؔ کو کھینچو! دار پہ دیوار میں چنو
سچ بولتا ہے یوں کہ پیمبر ہو جس طرح
- کتاب : Range-e-Gazal (Pg. 388)
- Author : shahzaad ahmad
- مطبع : Ali Printers, 19-A Abate Road, Lahore (1988)
- اشاعت : 1988
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.