سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو (ردیف .. ے)
دلچسپ معلومات
( ایک دن لکھنو میں میراور سودا کے کلام پر دو شخصوں تکرار نے طول کھینچا دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے، انھیں کے پاس گئے اور عرض کی کہ آپ فرمائیں ۔ انھوں نے کہا کہ دونوں صاحبِ کمال ہیں مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ''آہ'' ہے اور مرزا کا کلام ''واہ'' ہے ۔ مثال میں میر صاحب کا یہ شعر پڑھ دیا ''سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو ''ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے'' پھر مرزا کا شعر پڑھا ''سودا کی جو بالیں پہ ہوا شور قیامت ۔ خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے'' ان میں ایک شخص جو مرزا سودا کے طرفدار تھے وہ مرزا کے پاس آئے اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ مرزا بھی میر صاحب کے شعر کو سن کر مسکرائے اور کہا کہ شعر تو میر صاحب کا ہے مگر درد خواہی ان کی دوا معلوم ہوتی ہے (بحوالہ آب حیات
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
تشریح
میرؔ کے اس شعر میں کمال کی ڈرامائی صورت پائی جاتی ہے۔ اس ڈرامائی صورت میں کم از کم تین کردار فرض کئے جاسکتے ہیں۔اگر یہ تصور کیا جائے کہ شعری کردار کئی لوگوں سے مخاطب ہیں تو کرداروں کا تعین کرنا مشکل ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ کتنے لوگ میر کی مزاج پرسی کے لئے آئے ہیں، واضح نہیں ہوتا۔ اس شعر میں لفظ ’’ٹک‘‘ (یعنی ذرا سا)کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اسی سے شعر میں تاثیر پیدا کی گئی ہے۔ ’’روتے روتے‘‘سے جو مسلسل گریے کی کیفیت پیدا کی گئی ہے وہ بھی کم دلچسپ نہیں۔
شعر ایک منظر کی کیفیت بیان کرتا ہے۔ مخاطب کا لہجہ انتباہی بھی ہوسکتا ہے اور التماسی بھی۔ دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ خطاب صرف ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو میرؔ کے سرہانے بیٹھ کر یا تو گفتگو کرتے ہیں یا پھر میرؔ کی طبیعت کا حال مخاطب سے پوچھ رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو لوگ مزاج پرسی سرہانے بیٹھ کر کرتے ہیں وہ بیمار کے زیادہ قریبی ہوتے ہیں۔ بہرحال مخاطب کا میر کے سرہانے بیٹھ کر گفتگو کرنے والوں سے کہنا کہ میر کے سرہانے کوئی نہ بولو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ میر ذرا سی آواز سے بھی جاگ سکتے ہیں۔ ’ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے‘ میں کمال کی ڈرامائیت ہے۔ یعنی مخاطب گواہ ہے کہ میر نے بہت دیر تک گریہ کیا اب تھک ہار کے ابھی ذرا سا سوگئے ہیں۔ ذرا سا جب کہا تو گویا میر ابھی اٹھ کر پھر سے رونا شروع کریں گے۔
شفق سوپوری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.