تقدیر کے دربار میں القاب پڑے تھے
تقدیر کے دربار میں القاب پڑے تھے
ہم لوگ مگر خواب میں بے خواب پڑے تھے
یخ بستہ ہواؤں میں تھی خاموش حقیقت
ہم سوچ کی دہلیز پہ بیتاب پڑے تھے
تصویر تھی احساس کی تحریر ہوا کی
صحرا میں ترے عکس کے گرداب پڑے تھے
کل رات میں جس راہ سے گھر لوٹ کے آیا
اس راہ میں بکھرے ہوئے کچھ خواب پڑے تھے
وہ پھول جنہیں آپ نے دیکھا تھا ادا سے
اجڑے ہوئے موسم میں بھی شاداب پڑے تھے
پچیس برس بعد اسے دیکھ کے سوچا
اک قطرۂ کم ذات میں غرقاب پڑے تھے
ہم لوگ تو اخلاق بھی رکھ آئے ہیں ساحلؔ
ردی کے اسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.