ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
آئینہ آگ سے گزارا تھا
میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا
جانے کس دیس کا ستارا تھا
وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا
عکس پتھر سے جو ابھارا تھا
زندگی اور کچھ نہ تھی توقیرؔ
طفل کے ہاتھ میں غبارہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.