یہ تو ہاتھوں کی لکیروں میں تھا گرداب کوئی
یہ تو ہاتھوں کی لکیروں میں تھا گرداب کوئی
اتنے سے پانی میں اگر ہو گیا غرقاب کوئی
غم زیادہ ہیں بہت آنکھیں ہیں صحرا صحرا
اب تو آ جائے یہاں اشکوں کا سیلاب کوئی
عشق کا فیض ہے یہ تو جو چہک اٹھا ہے
بے سبب اتنا بھی ہوتا نہیں شاداب کوئی
ابر بن کر مجھے آغوش میں لے اور سمجھ
کیسے صحرا کو کیا کرتا ہے سیراب کوئی
تربیت دید کی دیتے ہیں جو ہیں لائق دید
خود کہاں جانتا ہے دید کے آداب کوئی
یہ جو ہر دھوپ کو للکارتی رہتی ہے سدا
کیا مرے سر پہ دعاؤں کی ہے محراب کوئی
کیسی تعبیر کی حسرت کہ ضیاؔ برسوں سے
نامراد آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں خواب کوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.