Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آؤ اخبار پڑھیں!

سعادت حسن منٹو

آؤ اخبار پڑھیں!

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    لاجونتی: (بڑ ے اشتیاق بھرے لہجے میں) آؤ اخبار پڑھیں!

    (کاغذ کی کھڑکھڑا ہٹ)

    کشور: (چونک کر)کیا کہا؟

    لاجونتی: کہہ رہی ہوںآؤ اخبار پڑھیں!

    کشور: پڑھو‘ پڑھو‘ ضرور پڑھو۔۔۔ شکر ہے کہ تمہیں کچھ پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔

    لاجونتی: جی۔۔۔ گویا میں بالکل ان پڑھ ہوں‘ الف کا نام بھلا نہیں جانتی‘ آج دن تک گھاس ہی چھیلتی رہی ہوں۔

    کشور: ارے بھئی تم سے یہ کس نے کہا ہے تم سب کچھ جانتی ہو۔ اس سے کسے انکار ہے میں نے تو صرف یہ کہنا چاہا تھا کہ اخبار پڑھنے کا شوق بڑا اچھا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی خبریں گھر بیٹھے معلوم ہو جاتی ہیں۔ ابھی تم نے اخبار پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔

    لاجونتی: جانے بھی دو ‘کیوں جھوٹ بولتے ہو‘ تمہیں خوشی ہوئی۔۔۔ضرور ہوئی ہوگی اگر تمہاری طرح میں بھی صبح سویرے اُٹھ کر یہ موا اخبار پڑھنا شروع کر دوں‘ تو دیکھوں جناب کی خوشی کہاں رہتی ہے۔ خودتوس سینکنے‘ دُودھ اُبالنا اور چاء کا پانی بنانا پڑ جائے تو یہ اخبار اس گھر میں کبھی نظر آئیں۔۔۔ دن بدن انگریز ہی بنتے جاتے ہو۔

    کشور: یہ انگریز بنتے چلے جانے کی بھی ایک ہی کہی‘ کھانا کھانے کے بعد سگرٹ پئے وہ تمہارے نزدیک انگریز جوشیو کرنے کے بعد تھوڑا سا پاؤڈر چہرے پر مل لے وہ بھی انگریز‘ ہیٹ لگایا تو انگریز‘ ذرا بات چیت میں دو ایک شبد بھولے سے انگریزی کے بول دئیے وہ بھی انگریز۔۔۔ اب ناشتے پر اخبار پڑھنے والا بھی انگریز۔۔۔ چلو بھئی انگریز ہی سہی‘ یہ گالی تھوڑی ہے جو چڑجاؤں۔ وہ تم ہی ہو جو اس روز مجھ پر بگڑ گئی تھیں۔ جب میں نے تمہیں میم کہا تھا۔

    لاجونتی: میم ہو کوئی تمہاری ہوتی سوتی میں کیوں میم بنوں۔۔۔ یہ موئی لال منہ والی بندریاں تمہیں پسند تھیں تو مجھ سے بیاہ کرنے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی کسی نے تم کو مجبور تھوڑی کیا تھا کسی ایسی ویسی کو پکڑ کر گھر میں بسا لیا ہوتا۔ آج ان جھگڑوں کی نوبت تو نہ آتی۔

    کشور: تم اخبار پڑھنے والی تھیں۔

    لاجونتی: میں پرماتما جانے کیا کیا کرنے و الی تھی‘ پر اس گھر میں آتے ہی ایسے جنجال میں پھنسی کہ سب کچھ بھول گئی کبھی بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتی ہوں تو بے اختیار آہیں نکل جاتی ہیں۔۔۔ میں سمجھی تھی کہ میرے سارے سپنے اس گھر میں پورے ہو جائیں گے۔ پرجو بھاگ میں لکھا ہے وہ کیسے مِٹ سکتا ہے۔

    کشور: ہمدردی بھرے لہجے میں) سب کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے لا جونتی ۔ شروع شروع میں یہ زندگی بڑی اچھی معلوم ہوتی ہے لیکن جب بال بچے پیدا ہو جاتے ہیں اور جب دوسرے دُکھ درد شروع ہو جاتے ہیں تو ایک تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے پر یہ بھی تو ہمارے جیون کا ایک رنگ ہے سکھ ہی سکھ ہو تو کیا مزا۔۔۔ میٹھا زیادہ ہو جائے تو من کو نہیں بھاتا۔ زبان کو کڑوا معلوم ہونے لگتا ہے۔۔۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایسی باتوں پر دھیان ہی نہیں دینا چاہیئے۔۔۔ چلو اخبار پڑھیں۔

    لاجونتی: سرد آہ بھر کر‘ آؤ اخبار ہی پڑھیں۔

    کشور: تم پڑھو‘ میں سنوں گا۔

    لاجونتی: میری آنکھیں بہت کمزور ہو گئی ہیں‘ تم پڑھو‘ میں سنتی رہوں گی۔

    کشور: (اخبار اٹھانے اور ورق گردانی کرنے کی آواز) پہلے کوئی دلچسپ خبر ڈھونڈ لوں۔۔۔ یہ تو سب بیکار ہیں جرمنی اور اٹلی کے ڈکٹیٹروں کی خبریں ہیں۔

    ۔۔۔ یہ سارا کالم ہٹلر کی بکواس سے بھرا پڑاہے اور یہ کالم۔۔۔

    لاجونتی: ذرا ٹھہر و تو ۔۔۔ یہ موا ہٹلر ہے کون؟۔۔۔ بڑا چرچا ہو رہا ہے آج کل اس کا پرسوں دھوبی دھلائی لے کر آیا تو کہنے لگا۔ سرکار بس اسے آخری دھلائی سمجھئے۔ سب گھاٹوں پر تھوڑی ہی دیر میں ہٹلر کا قبضہ ہو جائے گا۔۔۔ کیا یہ ہٹلر ذات کا دھوبی ہے؟

    کشور: دھوبی؟۔۔۔ نہیں نہیں وہ تو اچھا بھلا انسان ہے یعنی یعنی۔۔۔

    جرمنی کا ڈکٹیٹر۔۔۔ جانتی ہو ڈکٹیٹر کسے کہتے ہیں؟

    لاجونتی: ڈکٹے ٹر۔۔۔ اڈی ٹروں اور ایکٹروں کی قسم کا کوئی آدمی ہوگا؟۔۔۔

    تم ہی بتادو نا یہ کون ہوتے ہیں؟

    کشور: ڈکٹے ٹراس آدمی کو کہتے ہیں۔۔۔ ٹھہر و‘ میں تمہیں مثال د ے کر سمجھاتا ہوں یہ ہمارا گھر ہے‘ اس میں تم ہو ہمارا مُنا ہے دُرگا نوکرانی ہے۔۔۔میرے پتا جی ہیں‘ ماتا جی ہیں اور میں ہوں۔۔۔ یہ سب لوگ مجھے بڑامانتے ہیں۔ اس لیئے کہ گھر کا انتظام میں کرتا ہوں‘ پر میں سب کی رائے لے کر کام کرتا ہوں‘ اب اگر کل سے میں اس گھر میں صرف اپنا ہی حکم چلانا شروع کر دُوں اور سب سے اپنا کہا منوانا شروع کر دُوں تو میں وہ نہیں رہوں گا جو پہلے تھا ٹھیک ہے نا؟

    لاجونتی: ٹھیک ہے۔

    کشور: بس یوں سمجھ لو کہ میں ڈکٹیٹر بن جاؤں گا اور جب میں ڈکٹیٹر بن جاؤں گا تو مجھے اس بات کا ادھیکار ہو گا کہ آلوؤں کو ٹماٹر کہنا شروع کر دوں‘ٹماٹروں کو گھڑیاں اور گھڑیوں کو دواتیں کہنے لگوں۔۔۔صبح کا ناشتہ رات کے بارہ بجے ہو ڈنر صبح کو کھایا جائے‘لنچ رات کو ہو چاء میں سکنجبین ملا کر پی جائے‘ سالن پہلے کھایا جائے اور روٹی بعد میں۔۔۔

    لاجونتی: کیا پاگل خانوں میں قفل لگوا دو گے؟۔۔۔

    کشور: اب کیا لوگوں نے ان تمام ڈکٹیٹروں کو پاگل خانے بھجوادیا ہے جن کا حال ہر روز اخباروں میں چھپتا ہے۔ اری باؤلی ڈکٹیٹر بہت بڑا آدمی ہوتا ہے بہت بڑا آدمی‘ وہ دن کہے تو دن رات کہے تو رات۔۔۔ پر جا کو اس کی ہر بات ماننا ہی پڑتی ہے۔ میں نے گھر کی مثال اسی لیئے دی تھی کہ تم جلدی سمجھ جاؤ۔۔۔

    لاجونتی: سب سمجھ گئی ہوں‘ یہ اخبار پڑھ پڑھ کر اب تم بھی اس گھر میں ہٹلر بننا چاہتے ہو‘ پر مجھ سے سن لو تمہاری ڈکٹیٹری یہاں نہ چل سکے گی۔۔۔ جس دن تم نے آلوؤں کو ٹماٹر کہا اور ٹماٹروں میں کُوک بھرنا شروع کی میں اپنے مُنے کو لے کر یہاں سے چل دوں گی مجھ سے یہ پاگل پن نہ دیکھا جائے گا۔

    کشور: لاجونتی تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اس گھر میں ڈکٹیٹر بن سکتا ہوں۔۔۔ اس جرمنی کا ہٹلر تو صرف تم ہی ہو۔۔۔ میں تو جی حضوری ہوں۔ آنکھیں بند کیئے سب حکم مانتا رہتا ہوں

    لاجونتی: سب حکم مانتے رہتے ہو۔۔۔تم نے کہا اور میں نے مان لیا۔ شادی کے دودن بعد جب میں نے تم سے کہا تھا کہ ناتھ میں تم سے التجا کرتی ہوں‘ یہ سگرٹ پینا چھوڑ دو تو یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا؟ لاج پیاری تم مجھے حکم دے سکتی ہو‘ یہ التجا کیسی؟۔۔۔سگرٹ کیا میں تمہاری خاطر اپنی عزیز سے عزیز چیز چھوڑ سکتا ہوں؟۔۔۔اور اس وقت تمہارے منہ سے دھوئیں کے یہ بادل جو نکل رہے ہیں کیا بتاتے ہیں؟ ہماری شادی کو چار برس گزر چکے ہیں‘ ذرا حساب کر کے بتاؤ تو کتنے سگرٹ اب تک پی چکے ہو؟۔۔۔

    کشور: سگرٹ کی کیا بات کرتی ہو لاج؟پیاپیانہ پیا۔۔۔تم تو معمولی سے معمولی بات بھی لے بیٹھتی ہو۔

    لاجونتی: سگرٹ پینا معمولی بات ہوئی تو کبھی کبھی وسکی اور بیئر پینے میں کیا ہرج ہے اُن موئی ایکٹرسوں کے یہاں جانے میں کیا مضائقہ ہے برج اور ریس کھیلنے سے کیا ہوتا ہے۔ باہر ہی باہر دوستوں کے ساتھ گلچھرے اُڑانے سے کیا بگڑتا ہے؟۔۔۔کچھ بھی نہیں بیچاری استری گھر میں پڑی گھلتی رہتی ہے۔۔۔اس سے زیادہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ جانے دو اب مجھ سے ان معمولی باتوں کی فہرست نہ بنواؤ ۔چلو آؤ اخبار پڑھیں!

    کشور: اخبار۔۔۔ہاں اب اخبار پڑھنا ہی پڑے گا۔

    لاجونتی: اگر نہیں جی چاہتا تو چھوڑ دو۔

    کشور: نہیں‘نہیں جی کیوں نہیں چاہتا‘ ابھی پڑھتے ہیں۔۔۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ تمہیں مجھ سے بالکل پریم نہیں ہے‘تمہارے لیئے میں نے ہمسایوں سے لڑائی مول لی۔ اپنے رشتہ داروں کو چھوڑا‘آپ غُلامی کا طوق پہن لیا۔۔۔موٹر بیچ دی کہ تمہاری چوڑیاں بن جائیں سردیوں میں میں ہمیشہ ہندوستانی دواخانے کا بنا ہوا حلوہ کھایا کرتا تھا۔ پر اس سال میں نے وہ بھی نہ لیا کہ تم اپنی سہیلیوں کی دعوت کر سکو۔۔۔ میں نے اتنی قربانیاں کیں پر تمہارا پریم۔۔۔وہ پریم جو مرد کے دل کی غذا ہے ابھی تک مجھے نہیں ملا۔۔۔ پر ماتما کیلئے مجھے آج یہ تو بتا دو کہ میں تمہارا پریم کس قیمت پر خرید سکتا ہوں۔

    (باہر سے آواز کرتی ہے۔’’ایک آنے میں۔۔۔ ایک آنے میں‘‘)

    کشور: یہ کون بولا؟

    لاجونتی: یہ کس نے کہا؟

    (باہر سے پھر آواز آتی ہے۔‘‘ آج کا تازہ اخبار۔۔۔ایک آنے میں۔۔۔ایک آنے میں

    کشور: (ہنستا ہے)

    لاجونتی: (ہنستی ہے)

    کشور: میں حیران ہو گیا تھا کہ ایک آنے میں تمہارا پریم کیسے مل سکتا ہے۔

    لاجونتی: مل سکتا ہے۔۔۔ لاؤ ایک آنہ

    کشور: کیا کرو گی؟

    لاجونتی: اخبار خریدوں گی۔۔۔ذرا گرما گرم خبریں پڑھیں۔۔۔جلدی نکالو ایک آنہ کہیں وہ چلا نہ جائے۔

    کشور: ۔۔۔یہ لو۔۔۔

    لاجونتی: ارے اوچھو کرے۔۔۔ذرا ٹھہریو۔۔۔ذرا ٹھہریو۔

    (دروازہ کھلنے کی آواز)

    کشور: (اپنے آپ سے) ایک آنے میں۔۔۔ ایک آنے میں۔۔۔مگر کیا؟۔۔۔ آج کاتازہ اخبار۔۔۔گرما گرم خبروں سے بھرا ہوا۔۔۔میری لاجونتی کیا کم گرم ہے۔۔۔لیکن آج کی تازہ لاجونتی قدرے ٹھنڈی معلوم ہوتی ہے۔

    (دروازے کی آواز۔۔۔ ساتھ ہی کاغذ کی کھڑ کھڑاہٹ)

    لاجونتی: لے آئی ہوں دَھڑا دَھڑ بک رہے تھے معلوم ہوتا ہے بڑے ہنگامے کی باتیں لکھی ہیں۔۔۔ لو پڑھ کے سناؤ پر ذرا ہولے ہولے پڑھنا۔

    کشور: لاؤ۔۔۔ دیکھتے ہیں کیا لکھا ہے:

    (کاغذ کی کھڑ کھڑاہٹ)

    لاجونتی: اب دیکھنا کیا شروع کرو گے۔۔۔ پڑھتے چلے جاؤ۔۔۔ سارا اخبار خبروں ہی سے تو بھرا ہے۔۔۔توبہ‘اتنا بھی گمان نہ ہونا چاہیئے اپنی لیاقت پر۔۔۔میری عینک کی کمانی ٹھیک نہیں ہے ور نہ میں خود ہی پڑھ لیتی۔۔۔ اورہاں یہ تو بتاؤ کہ یہ میری عینک کی کمانی کب ٹھیک کرادو گے‘ پر ماتما جھوٹ نہ بلوائے تو ہزار ایک بار تم سے کہہ چکی ہوں کہ اسے لے جاؤ مرمت کے لیئے ‘پر ہزار بار تم اسے یہیں چھوڑ گئے۔۔۔ دیکھا آپ ہی آپ کیا مزے لے لے کر پڑھ رہے ہو۔۔۔ ذرا منہ سے بولتے جاؤ تو تمہارا کچھ گھسِ تو نہیں جائے گا۔

    کشور: کیا کہا؟

    لاجونتی: گویا میں نے کچھ کہا ہی نہیں تمہارا سارا دھیان تو اس اخبار میں پڑا ہے سنو گے کیا خاک۔۔۔ میں نے یہ اخبار تمہارے لیئے نہیں خریدا پڑھو اور مجھے سناؤ ۔

    کشور: تمہارے مطلب کی کوئی خبر تو ڈھونڈ لوں۔

    لاجونتی: نہیں نہیں ڈھونڈنے وونڈھنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ تم کوئی سی خبر پڑھ کر سنانا شروع کر دو‘ سبھی میرے مطلب کی ہیں‘ میں تمہاری سب چالاکیاں جانتی ہوں‘ سارا اخبار ڈھونڈھتے ڈھونڈتے پڑھ لو گے اور آخر میں یہ چچوڑے ہوئے کاغذ میرے سر مار کر کلب چلے جاؤ گے۔۔۔چلو پڑھو۔۔۔

    کشور: لو‘سُنو۔۔۔میاں نے بیوی کی ناک کاٹ دی‘‘

    لاجونتی: کیا؟

    کشور: بیچ میں بولو نہیں‘سنتی چلی جاؤ۔۔۔قصور‘گیارہ جون۔۔۔ہمارا نامہ نگار لکھتا ہے کہ دن دہاڑے ایک شخض مسمی گنڈا سنگھ نے اپنی بیوی کی ناک کنداُسترے سے کاٹ دی۔ اس ظالمانہ فعل کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کی بیوی اننت کوربڑی جھگڑالو قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر وقت گنڈا سنگھ سے لڑتی رہتی تھی جس سے وہ عاجزآگیا تھا ایک روز اس نے روز روز کے جھگڑے سے تنگ آکر اُس کی ناک اُسترے سے کاٹ دی۔۔۔

    لاجونتی: جھوٹ۔۔۔بالکل جھوٹ!

    کشور: اخبار تمہارے سامنے ہے۔۔۔یہ رہی سرخی۔۔۔ تم عینک کے بغیر بھی پڑھ سکتی ہو۔۔۔میاں نے بیوی کی ناک کاٹ دی۔۔۔اور یہاں سے خبر شروع ہوتی ہے۔۔۔قصور‘گیار ہ جون۔۔۔

    لاجونتی: کوئی اور خبر پڑھو۔

    کشور: کیوں یہ پسند نہیں آئی؟

    لاجونتی: نہیں یہ بات نہیں۔۔۔یہ تو پڑھ چکے‘ اب کوئی اور پڑھو یا اب بار بار یہی پڑھ کر سُنانے کا خیال ہے۔۔۔ جنگلی آدمیوں کو لڑنے مرنے کے سوا اور کام ہی کیا ہوتا ہے۔۔۔ پر تم میری طرف ایسی گہری نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہو۔

    کشور: نہیں تو۔۔۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ بیچارے گنڈا سنگھ نے بڑی مجبوری کی حالت میں اپنی پیاری بیوی کی ناک کاٹی ہو گی۔۔۔ اس کے بعد میں کتنا دُکھ ہوا ہو گا۔

    لاجونتی: پیاری بیوی اور اس کا پیارا خصّم۔۔۔بھاڑ میں جائیں دونوں۔۔۔ پر تم میری ناک کی طرف کیا دیکھ رہے ہو۔

    کشور: کتنی خوبصورت ناک ہے؟۔۔۔اس پر یہ ننھا ساتل کتنا بھلا معلوم ہوتا ہے۔

    (کھانسنے کی آواز آتی ہے۔۔۔(نرائن کی آمد)

    کشور: نرائن۔۔۔

    نرائن: ہاں بھئی نرائن ہی ہے پر تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ہر وقت اپنی بیوی کی تعریف کرتے رہتے ہو‘بڑی اچھی ہیں لاکھوں میں ایک ہیں۔۔۔نمسکار بھائی جان۔

    لاجونتی: نمسکار۔۔۔

    نرائن: آپ اُکتاتی نہیں ہیں‘ ان کے منہ سے ہر روز اپنی تعریف سُنتے سُنتے؟

    لاجونتی: تعریف کا ہے کی؟۔۔۔وہ تو۔۔۔

    نرائن: اجی چھوڑئیے میں سب جانتا ہوں یہ عورتوں کی کمزوری ہے۔ وہ اپنی تعریف سے بہت خوش ہوتی ہیں۔۔۔ہم مردوں میں بیشمار کمزوریاں ہیں۔ مثال کے طور پر۔۔۔یہ کیا؟۔۔۔آج میز پر اتنے اخبار کہاں سے آگئے ؟

    کشور: ایک تمہاری بھابی نے خریدا ہے دو میں لایا تھا۔

    نرائن: کیا لکھتے ہیں یہ؟۔۔۔باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟

    (اخبار پکڑنے اور کھولنے کی آواز)

    ۔۔۔یورپ کے آسمان پر جنگ کے سیاہ بادل‘ لیگ آف نیشن میدان عمل میں (ہنستا ہے)۔۔۔یہ لیگ آف نیشن کیا بلا ہے میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔

    کشور: تم لیگ آف نیشن نہیں جانتے تو اخبار کو ہاتھ میں لیا ہی کیوں تھا؟۔۔۔

    لاجونتی: جیسے دنیا بھر کی چیزیں یہی جانتے ہیں۔۔۔ساری حکمتیں صرف ان کی ہی دماغ میں جمع ہیں ۔۔۔بھلا بتائیے تو لیگ آف نیشن کسے کہتے ہیں۔۔۔

    کشور: لیگ آف نیشن کو۔۔۔یعنی۔۔۔قوموں کی جمعیت کو۔۔۔سمجھتی ہو جمعیت کسے کہتے ہیں۔۔۔ سنگت کو۔۔۔پر یہ تو اس سے بھی مشکل ہے۔۔۔ٹھہر و مجھے کوئی سہل سا لفظ سوچنے دو۔۔۔لیگ آف نیشن۔۔۔دیکھو۔۔۔یہ ایک ایسی پنچائت ہے جس میں ہر ملک کے آدمی شامل ہوتے ہیں اگر کہیں جھگڑافساد ہو جائے تو یہ ایک جگہ جمع ہو کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں۔

    لاجونتی: اور اگر ان کا آپس ہی میں جھگڑا ہو جائے تو؟

    کشور: تمہیں ہر جگہ جھگڑا ہی جھگڑا نظر آتا ہے۔۔۔گنڈا سنگھ اور اننت کور کا قصہ بھول گئی ہو؟

    نرائن: ارے لیگ آف نیشنز میں یہ گنڈا سنگھ اور اننت کور کہاں سے آگئے۔۔۔کیا یہ لیگ میں ہندوستان کے نمائندے ہیں؟

    کشور: نہیں تمہاری تو ہر بات اُلٹی ہوتی ہے۔

    نرائن: دیکھئے بھابی جان یہ آپ کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔

    کشور: پر ماتما کے لیئے جھوٹ نہ بولو نرائن۔۔۔ وہ سمجھیں گی میں نے یہ ان کی بابت ہی کہا ہے اچھی طرح واقف ہو ان کی طبیعت سے پھر خواہ مخواہ ایسی چھیڑ خانی سے فائدہ؟

    نرائن: ہوں۔۔۔ٹھیک ہے‘ٹھیک ہے(ورق اُلٹنے کی آواز)۔۔۔یہ خبر پڑھی تم نے۔۔۔لاجونتی: Disarmament کے متعلق ایک بہت بھاری کانفرنس ہو رہی ہے۔۔۔

    لاجونتی: Disarmament کیا ہوا نرائن صاحب۔۔۔لیگ آف نیشنز کی قسم کی معلوم ہوتی ہے۔

    نرائن: جی ہاں۔۔۔کشور سے پوچھئے‘ وہ آپ کو اچھی طرح سمجھا دے گا۔۔۔کشور‘ بتاؤ بھئی انہیں یہDisarmament کانفرنس کیا ہوتی ہے۔

    لاجونتی: آپ کیوں نہیں بتاتے؟

    نرائن: کشور اچھی طرح سمجھا سکے گا۔ اس لیئے کہ وہ کئی بار آپ کے مقابلے میں ہتھیار پھینک چکا ہے۔

    لاجونتی: کیا کہا آپ نے؟

    کشور: کچھ بھی نہیں نرائن نے کچھ نہیں کہا وہ دوسرے ہتھیاروں کی بات کر رہا تھا۔۔۔ ہاں بھئی کیا پوچھتے ہو۔

    نرائن: یہ پوچھ رہی ہیں کہ یہ کانفرنس کیا ہوتی ہے۔

    کشور: Disarmament کے معنی ہیں بندوقوں‘توپوں اور اس چیز کو جو جنگ میں ہتھیار کے طور پر کام آسکے علیحدہ کر دینا۔۔۔یہ کانفرنس جس کا ذکر تم نے ابھی ابھی اخبار میں پڑھا ہے‘ جنگ وجدال کم کرنے کے لیئے منعقد ہو رہی ہے۔۔۔ اس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ہر ملک کو کتنے کتنے ہتھیار اپنے پاس رکھنا چاہئیں۔اس سے ایک دوسرے کو خطرہ نہ رہے گا۔

    نرائن: وہ کیسے؟۔۔۔فرض کر لیا جائے کہ ہم یعنی میں بھابی اور تم تین ملک ہیں۔الگ الگ لیکن ہماری سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ اب بھابی جان کے پاس لوہے کا ایک کروشیا ہے اور تمہیں ڈر ہے کہ کسی روز منے کا بب بُنتے بُنتے اگر یہ بگڑ گئیں تو کروشیا تمہارے پیٹ میں بھونک دینگی‘اس کا فیصلہ کیا ہو گا؟

    کشور: تحدیدِ اسلحہ یعنی ہتھیار روک کانفرنس بیٹھے گی اور اس پر سوچ بچار کیا جائے گا۔ فیصلہ میرے خیال میں یہی ہو گا کہ مجھے بازار سے ایک چھڑی خرید لینے کی اجازت مل جائے گی تاکہ میں اسے روک کے طور پر استعمال کر سکوں۔ اس میں آپ لوگوں کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا۔

    لاجونتی: اعتراض کیوں نہیں ہو گا۔ تم چھڑی خرید لو اور میرے پاس نگوڑا ایک کرو شیاہی رہے۔ تم جب چاہو مجھے اس چھڑی سے دُھن ڈالو اور میں یہ اکیلا کروشیا لیئے تمہارا منہ دیکھتی رہوں،پٹتی جاؤں، نہ بابا۔۔۔ میں بھی یہ کانفرنس بٹھاؤں گی اور اس میں اس بات کا فیصلہ کراؤں گی کہ مجھے اپنی حفاظت کیلئے وہ چاقو جس سے ترکاریاں بنائی جاتی ہیں اٹھا کر اپنے پاس رکھ لینا چاہیئے تاکہ یہ اپنی چھڑی کا استعمال نہ کر سکیں۔ لڑائی کو بند کرنے کیلئے آپ سب میرا ساتھ دیں گے‘ کیا غلط کہہ رہی ہوں میں؟

    نرائن: نہیں آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ مگر مجھے خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ اگر میرے ہوتے ہوئے آپ دونوں کا جھگڑا ہو گیا‘کروشیا چھڑی اور ترکاریاں کاٹنے والے چاقو کا استعمال شروع ہو گیا تو میں اپنی جان کیسے بچاؤں گا۔۔۔ کیا پتہ کہ میں زخمی ہو جاؤں سو میں فوراً ہی آپ لوگوں سے درخواست کروں گا کہ ایک جگہ بیٹھ کر آپس میں سمجھوتہ کر لیا جائے ‘چنانچہ فیصلہ یہ ہو گا کہ میں بھی اپنے بچاؤ کیلئے ایک معمولی سی چیز۔۔۔مثال کے طور پروہ شکاری چاقو جو میں نے تھوڑے ہی روز ہوئے میرٹھ سے منگوایا ہے جیب میں رکھ لیا کروں۔۔۔اس سے یہ ہو گا کہ ہمیں ایک دوسرے سے کسی قسم کا خطرہ نہیں رہے گا۔

    کشور: شکاری چاقو۔۔۔باپ رے!۔۔۔ نہیں نہیں نرائن یہ نہیں چلے گا۔ کیا پتا ہے کہ ہنسی ہنسی میں تمہارا یہ شکاری چاقو میرا ہی شکار کر دے۔۔۔ مجھے اپنی حفاظت کیلئے ایک چھوٹا سا پستول خریدنا ہی پڑے گا۔ خواہ ایک مہینے کی ساری تنخواہ اسی میں نہ چلی جائے‘ یہ پستول دغے نہ دغے‘ پر تمہیں اپنا شکاری چاقو نکالتے وقت اس کا ڈر تو رہے گا۔

    لاجونتی: پستول؟۔۔۔یعنی آپ جب چاہیں مجھے گولی کا نشانہ بنا دیں‘ نہ بابا۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ کے پاس چھڑی ہو اور اُوپر سے یہ گولیوں والا پستول۔۔۔جونہی مجھے پتا چلے گا کہ آپ پستول لے آئے ہیں میں بھی اپنی حفاظت کے لیئے ایک رائفل خریدلوں گی۔

    کشور: تو ظاہر ہے کہ مجھے ایک مشین گن لینا پڑے گی۔

    لاجونتی: میں وہ زہریلی گیس منگوالوں گی جو حال ہی میں دشمنوں کو مارنے کیلئے بنائی گئی ہے۔

    نرائن: بس بس ادھر میں دو بمب لے آؤں گا تو اس گھر میں بالکل امن قائم ہو جائے گا۔۔۔

    لڑائی کا بالکل اندیشہ نہ رہے گا۔۔۔ سُکھ اور چین اس گھر کی بلائیں لیں گے۔۔۔

    نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کی بانسری۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔

    لاجونتی: سب ٹھیک ہو جائے گا؟

    کشور: (طنزیہ انداز میں) ہاں سب ٹھیک ہو جائے گا

    (فید آؤٹ

    مأخذ :
    • کتاب : آؤ
    • اشاعت : 1940

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے