Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آؤ چوری کریں!

سعادت حسن منٹو

آؤ چوری کریں!

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کشور: (ایکا ایکی اپنی بیوی سے )آؤ چوری کریں!

    لاجونتی: کیا کہا؟

    کشور: یہ کہا‘ آؤ چوری کریں!

    لاجونتی: میں سمجھی۔۔۔اب آپ چوری اور سینہ زوری پر اُتر آئے ہیں یعنی مجھے بتا کر میری چیزیں اُڑانا چاہتے ہیں۔ ہے نا یہی بات؟

    کشور: بھئی کیا سمجھی ہو۔۔۔ داد دیتا ہوں تمہاری سُوجھ بُوجھ کی۔۔۔ میں فقط چوری کرنے کو کہہ رہا تھا‘ سینہ زوری نہیں۔ یہ سینہ زوری کا اضافہ تم نے اپنی طرف سے کیا ہے۔

    لاجونتی: آؤ چوری کریں کا مطلب یہ ہوا کہ آپ خود بھی چوری کرنا چاتے ہیں اور مجھ سے بھی چوری کروانا چاہتے ہیں تو آپ خود چوری کریں‘ خیر چھوڑئیے اسے آپ یہ بتائیے کس کی چوری کرنا چاہتے ہیں آپ؟

    کشور: آہستہ بولو۔۔۔دیوار ہم گوش درد۔چوری چُپ چپاتے کی جاتی ہے۔ یوں ڈھنڈورا نہیں پِیٹا جاتا۔ ہولے بات کرو۔ کوئی سُن لے گا تو بڑی بدنامی ہو گی۔

    لاجونتی: ہوا کرے‘ پہلے آپ کا کون سا نام ہے جو بدنامی کا ڈر ہے سبھی جانتے ہیں کہ آپ چور ہیں۔ اسکول کی بھی آپ کی چوریاں مشہور ہیں۔ کسی کی کتاب کسی کی پنسل کسی کا قلم وغیرہ وغیرہ آپ دن دہاڑے اُڑا لیا کرتے تھے۔

    کشور: یہ تم سے کس نے کہا۔

    لاجونتی: آپ نے اور کس نے؟۔۔۔ نرائن صاحب سے باتیں کرتے ہوئے اُس روز کیا آپ نے قبولا نہیں تھا کہ دس کتابیں چُرا کر آپ نے بیچ ڈالیں تھیں۔۔۔ کر پارام کا فونٹین پن آپ نے ایسا ہضم کیا کہ ڈکار تک نہ لی۔

    کشور: کتابوں وغیرہ کی چوری چوری نہیں ہوتی اور یہ ہے بھی تو اُس زمانے کی بات جب عمر بہت چھوٹی تھی۔

    لاجونتی: اور اس عمر میں جب کہ آپ ایک بچے کے باپ ہیں کیا آپ نے چوریاں نہیں کیں۔

    کشور: مثلاً:

    لاجونتی: ابھی کل کی بات ہے کہ بنارسی ساڑھی کی زری نوچ کر جو میں نے الماری میں رکھی تھی‘ آپ بیچ کر کھا گئے۔ میرے لیئیدوا کے طور پر ڈاکٹر نے جو برانڈی دی تھی۔ آپ چپکے چپکے پی گئے او ربوتل میں پانی بھر دیا دس روپے کا نوٹ جو میں اپنے ٹرنک میں رکھ کر بھول گئی تھی‘ آپ نے اُڑا لیا او راُس پر ستم یہ کہ ایک روپے کے رس گلے لا کر میرے سرکے اُوپر اُلٹا احسان کیا۔۔۔بجلی کے بل کے روپے آپ ہزاروں مرتبہ کھا گئے او رمجھے دو دو مہینے کا اکٹھا بل دینا پڑا۔ ایک روز آپ نے پانچ روپے کسی اندھ و د یالہ میں خیرات دینے کے لیئے مجھ سے لیئے اور اُس کی ایک ایک پائی آپ ہضم کر گئے، پرسوں نعمت خانے سے گاجر کا حلوہ آپٖ نے نوشِ جاں کر لیا اور چمچے سے ذرا پھیلا دیا۔۔۔بھئی چور ہو پر کچے چور ہو۔

    کشور: بالکل جھوٹ۔۔۔ میں نے گاجر کے حلوے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ تمہا رے گھر کے مودی خانے میں موٹے موٹے سنڈے چوہے جو سیندھ مارتے پھرتے ہیں وہ تمہارا حلوہ کھا گئے ہیں۔

    لاجونتی: میں ثبوت کے بغیر کوئی بات نہیں کہا کرتی۔ آپ کا وہ رومال ابھی تک میلے کپڑوں میں پڑا ہے جس سے آپ نے حلوہ کھا کر اپنے ہاتھ پونچھے تھے۔

    کشور: خیر۔۔۔لیکن تم یہ بتاؤ کہ اب چاہتی کیا ہو۔

    لاجونتی: او رکچھ نہیں فقط یہ کہ چوری کرے توپکی چوری اور یہ کہ حلوہ خوردن رار وئے باید۔

    کشور: تو خاموش رہو۔

    لاجونتی: بہت اچھا۔

    (چند لمحات کے لیئے خاموشی طاری رہتی ہے۔)

    کشور: (’’کیا سُنائیں ماجرائے درد دل‘‘ گنگناتا ہے۔۔۔پھر دفعتاً جیسے کچھ یاد آگیا ہے کہتا ہے) لاجونتی۔

    لاجونتی: کہو کیا کہتے ہو۔

    کشور: کہتا ہوں یہ کہ آؤ ایک بڑی مزیدار چوری کریں۔

    لاجونتی: ارے کچھ کہو گے بھی یا آؤ چوری کریں کی رٹ ہی لگائے جاؤ گے۔

    کشور: سنو ایک پارسل نرائن کا میرے مکان کے پتے سے آیا ہے یعنی اُس نے میرے گھر کے پتے سے منگوایا ہے۔ اُسے کھولیں اور صاف ہڑپ کر جائیں۔

    لاجونتی: بھئی ڈر لگتا ہے۔ نہ معلوم کیا ہو کیا نہ ہو۔ بعد میں بیکار کا فضیحتا ہو میں درگذری ایسی چوری کی شرکت سے۔

    کشور: تم بھی عجیب بیوقوف ہو۔ فضیحتا کیا ہوگا۔ آخر میں نرائن کو اُلو بنائیں گے اور بات کو ہنسی ہنسی میں اُڑا دیں گے۔ وہ اپنا بے تکلف دوست ہے۔ اور پھر کوئی ایسی چوری تھوڑے ہی ہے کہ تھانہ تھنول ہو۔ لاجونتی تم بڑی ڈر پوک ہے۔ میری بیوی اور ایسی کچے دل کی۔

    لاجونتی: بھئی جو کچھ ہو ایک تو یوں چوری چکا ری سے میرا دل دہلتا ہے او وہ بھی اپنے ہم چشموں کی۔ آخر میں نظر ملانی مشکل ہوتی ہے۔ آپ تو ہوئے دیدہ دلیر آپ کی آنکھوں کا تو پانی مر گیا ہے۔ نہ بابا مجھ سے یہ کام نہ ہو گا۔

    کشور: اَرے اِک ننھا مُنھا تو پارسل ہے کوئی سیر دوسیر سونے چاندی کا پارسل تھوڑے ہی ہے

    لاجونتی: اچھا سُنو۔ اگر کوئی زیادہ قیمت کی چیز ہوئی تو بھئی میں ہاتھ تک نہ لگاؤں گی۔

    کشور: لو کھولو۔

    لاجونتی: تم کیوں نہیں کھولتے۔

    کشور: اب کھول بھی دو۔۔۔ لو یہ چاقو۔جھراجھر اس کا کپڑا کاٹ دو۔ ابھی معلوم ہوتا ہے اس میں کیا ہے۔

    لاجونتی: بھئی ڈر لگتا ہے۔۔۔اچھا یہ لو۔۔۔ (کپڑا کاٹنے اور پارسل کھولنے کی آواز)کاغذ ہی کاغذ ہیں۔۔۔ایک بوتل ہے اور یہ لفافہ۔

    کشور: سچ مچ یہ تو لفافہ ہی نکلا۔۔۔ذرا دینا اِدھر ۔۔۔(کاغذ کی کھڑ کھڑاہٹ)۔۔۔خط ہے۔۔۔ سوامی رام پر کاش جی ہر دوار والے کا۔۔۔

    لاجونتی: سوامی رام پر کاش۔۔۔ اور اس میں کیا لکھا ہے۔

    کشور: ٹھہر و‘پڑھ کے سُناتا ہوں(تھوڑا وقفہ) نرائن کے کسی دوست کا خط ہے اور۔۔۔اوراس بوتل میں سرکا گنج دُور کرنے کے لیئے تیل ہے۔

    لاجونتی: جھوٹ‘بالکل جھوٹ‘ لاؤ خط مجھے دو میں خود پڑھتی ہوں۔

    کشور: کہہ جو دیا کہہ جو دیا کوئی خاص بات نہیں۔

    لاجونتی: (خط پر جھپٹنے کی آواز) بس بس‘اب چھیننے کی کوشش نہ کیجئے گا‘ مجھے پڑھ لینے دیجئے کوئی خاص بات تو ہے نہیں پھر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے (خط کھولنے کی آواز۔۔۔پڑھتی ہے)ڈیرمسٹر نرائن۔۔۔آپ کا خط مجھے مل گیا تھا۔ اور روپے بھی‘ مجھے افسوس ہے کہ آپ کی مطلوبہ شے میں فوراًہی نہ بھیج سکا‘ اس لیئے کہ نوچندی کی اتوار میں کچھ دن باقی تھے۔۔۔ اب میں ایک موہنتی منتر آپ کو بھیج رہا ہوں۔۔۔ہوں منتر۔۔۔اچھا۔۔۔

    کشور: لاجونتی‘تمہیں کسی کا پرائیویٹ خط پڑھنے کا کیا حق حاصل ہے؟

    لاجونتی: چُپ رہو جی۔۔۔ مجھے پڑھنے دو۔۔۔ لکھا ہے۔۔۔ یہ منترا ماوس کی رات کو ایک سو آٹھ مرتبہ پڑھ کر جس کو اپنا گرو یدہ اور تابعدار بنانا ہو پھونکا جائے۔ باوا جی کا چمتکار آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ اس کو سنبھال کر اپنے پاس ر کھیئے‘بڑی نایاب چیز ہے‘ اور بوتل میں جو تیل ہے یہ بالوں میں ہر روز لگانے کے لیئے ہے‘ اس سے تمام مرادیں پوری ہو جائیں گی۔ منتر یہ ہے۔۔۔

    کشور: لو اب خط دے دو سب کچھ تو پڑھ لیا۔

    لاجونتی: ابھی چار سطریں باقی ہیں‘ منتر یہ ہے۔۔۔اونگ نما کا مشیری مدھ مدیش اوتمادے بھرینگ پرا سواہا۔۔۔ اور آپ نے جو کسی کشور صاحب کے لیئے منتر مانگا ہے وہ دس پندرہ روز کے بعد آپ کو مل جائے گا۔۔۔۔

    کشور: لاجونتی‘ اب مذاق حد سے بڑھ گیا ہے ‘لاؤ خط میرے حوالے کرو۔۔۔ یہ منتر ونتر سب بکواس ہے۔پارسل میں نے خود تمہیں اور نرائن کو بنانے کے لیئے پوسٹ کیا تھا۔

    لاجونتی: کہاں سے؟۔۔۔کپڑے پر تو مہردہلی کی لگی ہوئی ہے۔ اور آپ پارسل پوسٹ کرنے دہلی شاید خواب میں گئے ہوں گے‘کیوں؟اجی میں کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوں۔۔۔اب تو آپ اور نرائن صاحب کی چوری پکڑی گئی۔۔۔ بھئی کیا لطیفہ ہوا ہے یعنی آپ نے خود اپنے ہاتھوں اپنا بھانڈا پھوڑ دیا۔

    کشور: دیکھو لاج میں سچ کہتا ہوں بھیجنے والے کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے نرائن کو بھلا ایسے منتروں کی کیا ضرورت ہے کچھ بھی ہو لیکن میرے متعلق۔۔۔

    لاجونتی :آپ کے متعلق کیا؟

    کشور: یہ جو لکھا گیا ہے کہ میں نے منتر مانگا ہے بالکل جھوٹ ہے اس کا اوّل جھوٹ‘ اس کا آخر جھوٹ سر سے پیر تک جھوٹ ہی جھوٹ

    (گھنٹی بجتی ہے)

    کشور: نرائن آیا ہے۔۔۔ دیکھو لاج پر ماتما کے لیئے یہ ساری باتیں اپنے دل تک ہی رکھنا۔۔۔تم نہیں جانتی ہو کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے!۔۔۔لاؤ ادھر خط مجھے دو۔

    لاجونتی: خط میں ابھی نہیں دوں گی پر اتنا وعدہ کرتی ہوں کہ نرائن صاحب سے اس کا ذکر تک نہ کروں گی۔

    کشور: قسم کھاؤ۔

    لاجونتی: لو اب اتنی سی بات پر مجھے قسمیں کھلوانے لگے۔ کہہ جو دیا نہیں کہوں گی‘ اگر نرائن صاحب سے میں نے اس خط کا ذکر کیا تو جو چور کی سزاوہ میری۔۔۔لو اب تو اعتبار آگیا۔

    کشور: پر تم یہ خط واپس کیوں نہیں دے دیتیں‘میں۔۔۔میں۔۔۔ آئیے آئیے مسز نرائن۔۔۔نمسکارنمسکار۔۔۔تشریف رکھئے۔۔۔میں۔۔۔میں کیا کہہ رہا تھا لاجونتی؟

    لاجونتی: کہ مسز نرائن بڑی روشن خیال خاتون ہیں جو جادو ٹونے منتر جنتر کو بالکل فضول سمجھتی ہیں۔

    مسز نرائن: کشور صاحب یہ آپ سے کس نے کہا میرا تو ان چیزوں پر بڑا اعتقاد ہے کیوں بہن لاجونتی؟

    کشور: میں نے کسی سے سُنا تھا؟۔۔۔ہاں۔۔۔میں۔۔۔نرائن۔۔۔نہیں۔۔۔ لاجونتی کس نے کہا تھا کہ انہیں ایسی چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں؟

    مسز نرائن: آپ کی طبیعت آج خراب معلوم ہوتی ہے؟

    کشور: میری؟۔۔۔ نہیں تو۔۔۔مگر۔۔۔مگر۔۔۔شاید آپ نے لاجونتی سے پوچھا ہے۔اُس کی طبیعت واقعی کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں۔

    لاجونتی: میری؟۔۔۔ کیوں میری طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے آپ کوکیسے معلوم ہوا کہ میری طبیعت خراب ہے۔

    کشور: (چونک کر) کیاکہا؟۔۔۔جی ہاں میری طبیعت اس وقت کچھ خراب ہے۔

    لاجونتی: تو آپ۔۔۔

    کشور: (جلدی سے) لیکن اتنی خراب نہیں کہیں آپ لوگوں کے پاس نہ بیٹھ سکوں بلکہ یہاں آپس میں باتیں کرنے سے طبیعت فوراً ٹھیک ہو جائے گی۔

    لاجونتی: بڑے شوق سے بیٹھنے پر آپ کو ٹونے ٹوٹکے منتر جنتر کی باتوں میں حصہ لینا پڑے گا۔

    کشور: ٹونے ٹوٹکے منتر جنتر۔۔۔

    (نرائن کھانستا ہوا آتا ہے)

    نرائن: بھئی ہماری بھابی نے کیا دماغ پایا ہے میں جب بھی آیا انہیں کسی نہ کسی دلچسپ موضوع پر بات کرتے پاپا۔۔۔آج ٹونے منتروں کی بحث شروع ہے۔۔۔اوہو ۔۔۔ہماری’’یہ‘‘بھی تشریف رکھتی ہیں۔۔۔ کہئے بھابی جان آپ کے بلانے پر یہ آئیں کہ خود بخود تکلیف گوارا کی۔۔۔ارے۔۔۔تو کیوں گم سُم بنے بیٹھے ہو کشور۔۔۔ طبیعت خراب ہے کیا؟

    لاجونتی: جی ہاں اور میں نے ان سے ابھی ابھی کہا تھا کہ جائیے دوسرے کمرے میں آرام سے سو جائیے۔۔۔

    نرائن: تو یہ جاتا کیوں نہیں؟

    کشور: ارے بھئی معمولی سا درد ہے ابھی باتوں باتوں میں چلا جائے گا۔

    لاجونتی: سر درد کے لیئے بھی تو کوئی منتر یا ٹونہ وغیرہ ہوتا ہو گا کیوں بہن سا وتری؟

    مسز نرائن: لاکھوں۔۔۔ ایک سے ایک اچھے۔

    نرائن: (کشو ر سے) یہ سُناؤ تمہارے سر میں درد کیسے شروع ہو گیا۔ قبض کی شکایت تو نہیں ہے؟

    کشور: اور تو کچھ نہیں پر ابھی ابھی تمہارے آنے سے چند منٹ پیشتر میرے دماغ کو قبض ہو گیا ہے۔۔۔ بیٹھے بیٹھے کچھ ہو گیا ہے کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔

    نرائن: کبھی ایسا ہو جایا کرتا ہے۔۔۔تو ہاں بھئی مجھے تم سے ایک ضروری بات کہنا تھی(ہولے ہولے)میرا ایک پارسل تمہارے۔۔۔

    لاجونتی: ساڑھی کا پلّا بہت ہی نفیس ہے‘تلے کا کام بہت اچھا کیا ہے۔۔۔

    (ذرا اُونچی آواز میں) سوامی رام پر کاش جی ہر دوار والے کافی مشہور آدمی ہیں۔

    کشور: ( ایکا ایکی) لاجونتی!

    نرائن: رام پر کاش جی؟؟

    لاجونتی: جی کچھ آپ نے مجھ سے کہا؟

    کشور: نہیں میں اس سے بات کر رہا ہوں۔

    لاجونتی: (مسز نرائن سے)زری کا کام رام پر کاش جی ہر دوار والے خوب کرتے ہیں۔ میں اُن سے دو ساڑھیوں پر کام کراچکی ہوں۔

    مسز نرائن: یہ تم کیا اُوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہو۔۔۔ کون ہیں یہ سوامی رام پر کاش ہر دوار والے۔

    نرائن: (چونک کر) کچھ مجھ سے پوچھا تم نے۔

    مسز نرائن: نہیں تو۔۔۔پر میں پوچھتی ہوں آج بات کیا ہے۔۔۔ یہاں سب بہکے بہکے کیوں نظر آتے ہیں۔۔۔ لاجونتی بات مجھ سے کرتی ہے اور بیچ میں کشو رصاحب ٹپک پڑتے ہیں۔ میں لاجونتی سے کچھ کہتی ہوں اور آپ خواہ مخواہ چونک اُٹھتے ہیں۔۔۔ آخر بات کیا ہے؟۔۔۔

    نرائن: (گھبرا کر)بات کیا ہو گی۔۔۔بات کیا ہو سکتی ہے؟

    مسز نرائن: پر آپ پریشان کیوں ہوئے جاتے ہیں۔

    نرائن: پریشان؟۔۔۔(کھسیا نی ہنستی ہنستا ہے) یہ پریشانی کی بھی ایک ہی کہی۔۔۔یعنی زبردستی مجھے پریشان کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔۔۔سُنا کشورتم نے؟

    کشور: بھئی مجھے کچھ معلوم نہیں۔۔۔تم جانو اور یہ جانیں۔۔۔ مجھے ٹونے ٹوٹکوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔

    نرائن: اس کا یہ مطلب ہوا کہ مجھے ہے۔۔۔ بھئی اپنے سر کی بلاٹالنے کے لیئے یہ اچھا گر گھڑ لیا ہے تم نے؟

    کشور: اپنے سر کی بلا؟۔۔۔گویا میرے سر پر کوئی بلا ہے۔۔۔ سو وہ تم ایسی بلائیں پالتے ہو‘لاجونتی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ۔۔۔(دبی آواز میں)ارے یہ دونوں آپس میں کیا کُھر پُھسر کر رہی ہیں۔

    لاجونتی: (مسز نرائن سے۔۔۔ہولے ہولے‘ نا بہن مجھے کچھ معلوم نہیں۔۔۔

    مسز نرائن: (دبی آواز میں) ایک پارسل آئے گا۔۔۔

    لاجونتی: (اُونچی آواز میں)پارسل؟

    کشور: پارسل؟

    نرائن: کونسا پارسل؟

    مسز نرائن: پارسل؟۔۔۔یہی تو میں پوچھتی ہوں۔ کونسا پارسل۔۔۔کیا آپ کا پارسل آرہا ہے کوئی؟

    نرائن: نہیں تو۔۔۔ میرا پارسل اس پتے سے کیوں آنے لگا؟۔۔۔کیوں بھابی جان اس سے پہلے میرا کوئی پارسل اس پتے سے آیا ہے؟۔۔۔

    لاجونتی: اس سے پہلے کوئی نہیں آیا۔۔۔ اس کی گواہی میں دے سکتی ہوں۔

    نرائن: لو اب تو یقین آگیا۔۔۔(ایکا ایکی چونک کر) اس سے پہلے؟۔۔۔ اس سے آپ کا کیا مطلب؟۔۔۔یعنی میرا کوئی پارسل آج کل میں اس پتے سے آچکا ہے؟

    لاجونتی: آپ اپنے دوست سے پوچھ لیں‘ پارسل وغیرہ وہی وصول کیا کرتے ہیں؟

    مسز نرائن: (گھبرا کر) کیا کہا؟ پارسل وغیرہ کیا یہی وصول کرتے ہیں؟

    لاجونتی: آج انہوں نے ہی وصول کیا تھا۔

    نرائن: کس کے نام کا تھا؟

    مسز نرائن: کس کا تھا؟۔۔۔میرا تو ہو نہیں سکتا۔

    لاجونتی: اور کیا میرا ہو سکتا ہے؟

    کشور: یہ تم سے کس نے کہا؟

    لاجونتی: پھر آپ بتاتے کیوں نہیں کہ پارسل کس کے نام کا تھا؟

    کشور: کھولا تمہیں نے ہے‘مجھے کیا معلوم؟

    لاجونتی: کھولا میں نے ہے اور بو کھلائے بو کھلائے باتیں آپ کر رہے ہیں۔

    نرائن: (گھبرا کر)پارسل کھول بھی لیا۔۔۔ یہ د یکھیئے۔۔۔یہ د یکھیئے بغیر کھول لیا کہ وہ کس کے نام کا تھا۔

    مسز نرائن: حد ہو گئی ہے۔۔۔ ایک گھنٹہ ہونے کو آیا ہے‘ سب پارسل پارسل پکار رہے ہیں پر یہ کوئی نہیں بتاتا پارسل کس کا تھا۔۔۔

    لاجونتی: میں کچھ نہیں جانتی بابا۔۔۔ بس میری خطا صرف یہ ہے کہ میں نے ان کے کہے پر پارسل کو چاقو سے کھولا او رجو کچھ اُس میں سے نکلا ان کے حوالے کر دیا۔۔۔ اور میں نے ان سے کہا تھا کہ بھئی ڈر لگتا ہے نہ معلوم کیا ہو کیا نہ ہو‘ بعد میں بیکار کا فضیحتا ہو‘ پر ان پر چوری کرنے کا بھوت سوار تھا۔

    نرائن: (گھبرائے ہوئے لہجے میں) لو بھئی میں چلا۔۔۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔

    کشور: تم ہرگز نہیں جاسکتے۔۔۔ یہاں بیٹھ کر تمہیں میری پوزیشن صاف کرنا ہو گی۔۔۔۔ بھئی یہ بھی خوب طریقہ ہے کہ یوں چُپکے سے کھسک گئے اور دوسرے کو آگ میں جھونک دیا۔ بُھس میں چنگی ڈال بی جمالو الگ کھڑی۔

    مسز نرائن: مرے سر میں تو درد شروع ہو گیا ہے۔۔۔میں جاتی ہوں لاجونتی بہن

    لاجونتی: ذرا تھوڑی دیر توبیٹھو۔۔۔اپنے پتی کی پوری کا رستانی معلوم کرتی جاؤ۔۔۔لو یہ خط پڑھو(کاغذ کی کھڑ کھڑاہٹ)۔۔۔تمہارے سوامی نے تمہیں مطیع کرنے کے لیئے ایک منتر منگایا ہے اور جادو کے تیل کی بوتل۔۔۔ اب تم دن رات ان پر لٹو ہو گی۔ ان کی ڈگڈگی پر ناچاکرو گی۔

    نرائن: یہ بالکل جھوٹ ہے یعنی یعنی۔۔۔بالکل جھوٹ۔۔۔بھلا۔۔۔بھلا میں کیوں ایسے منتراورتیل منگانے لگا۔۔۔میری اور اس کی آپس میں کیا بنتی نہیں جو ٹونے ٹوٹکے استعمال کروں۔۔۔ ان کی ضرورت ہو گی تو کشور کو جس کی آئے دن آپ سے چخ رہتی ہے۔۔۔ کیوں سا وتری؟۔۔۔یعنی یعنی۔۔۔ہم تو آپس میں شیرو شکر ہو کے رہتے ہیں۔۔۔ہماری زندگی دوسروں کیلئے ایک نمونہ ہے۔

    کشور: تم خود ایک نمونہ ہو۔۔۔ابھی ساری حقیقت کُھل جاتی ہے۔۔۔لاجونتی ذرا دینا ان کے ہاتھ میں وہ خط۔۔۔پڑھ کر ساوتری کوسنائیں جن کے ساتھ یہ شیرو شکر ہوکے رہتے ہیں اور اپنی زندگی کو دوسروں کیلئے ایک نمونہ بتاتے ہیں اور وہ یوں کہ اپنے ایک دوست کو پھنسانے کے لیئے اُس کے پتے سے ٹونے منتر منگاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ کرپا کرتے ہیں کہ اُس کے لیئے بھی ایک دومنتروں کا آرڈر بھیج دیتے ہیں۔۔۔ بھئی واقعی بڑا اچھا نمونہ پیش کیا ہے تم نے اپنی دوستی کا۔۔۔ وہ تو لاجوننی عقلمند ہے ورنہ آج تو وہ چخ چلتی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ میاں کا چھیچھا لیدر کر دیتی۔۔۔

    لاجونتی: یہ لیجئے خط۔۔۔(کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ) لو اب سنو ساوتری۔۔۔

    مسز نرائن: سُن کے کیا کروں گی۔۔۔ ان کی ساری قلعی تو کھل گئی ہے۔

    نرائن: (ایکا ایکی‘ بلند آواز میں) کون کہتا ہے یہ خط میرے نام ہے۔۔۔

    مسز نرائن: پھر کس کے نام ہے؟

    نرائن: تمہارے۔۔۔لو دیکھو۔۔۔(کاغذ کی کھڑ کھڑاہٹ۔۔۔میری قلعی کھلتے کھلتے تمہاری قلعی کُھل گئی۔۔۔رنگ ہلدی کے گابھے ایسا زرد پڑ گیا۔ یہ منتراو ریہ تیل تمہیں نے تو منگایا ہے۔۔۔ پر اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔ میں تو پہلے ہی سے تمہارا محکوم ہوں پر معلوم ہوتا ہے کہ جتنا تابعدار اور تمہارا مُرید میں اس وقت ہوں اُس سے بھی زیادہ تم مجھے اپنا تابعداور مُرید بنانا چاہتی ہو۔۔۔پر ماتما تم جیسی عورتوں سے سمجھے۔۔۔لو پڑھو۔۔۔دیکھو۔۔۔ ڈئر مسز نرائن۔۔۔ اور یہ منتر۔۔۔میری رہی سہی مردانگی دور کرنے کا منتر۔۔۔ او ریہ تیل جس کو بالوں میں لگانے سے تمہاری سب مرادیں پوری ہو جائیں گی۔۔۔ اب آپ نے کیوں منہ میں گھنگھنیاں بھر لیں آپ کیوں چُپ ہو گئیں۔۔۔بھا بی جان۔۔۔ اس میں آپ کا تو ذکر ہے۔۔۔ آپ نے بھی تو اپنے پتی کو اپنے پرلٹو بنانے کیلئے منتر منگوایا ہے اور شاید جادو کا کوئی چورن بھی جس کو کھاتے ہی یہ ہمیشہ کے لیئے اُلو بن جائے۔۔۔ کشور‘ دیکھا۔۔۔ یہ ہماری چوری پکڑتی تھیں اور اُلٹی ان کی چوری پکڑی گئی‘ اسے کہتے ہیں سچائی کا بول بالا اور جھوٹے کا منہ کالا۔۔۔ تم یقین مانو ان دونوں نے مل کر یہ سازش کی تھی اور تم بھی کتنے بیوقوف ہو کہ گھبراہٹ میں مسٹر کو مسز پڑھ گئے۔۔۔تم سے یہ بھی نہ کہا گیا کہ مرد ٹونے ٹوٹکوں اور منتروں جنتروں کو بالکل بے کار سمجھتے ہیں‘ وہ عورتیں ہی ہیں جو ایسی فضول چیزوں پر اعتقاد رکھتی ہیں۔۔۔ منتر ہوں۔۔۔ اور سوامی رام پر کاش۔۔۔ اُس کی ایسی تیسی!

    نوکر: نرائن صاحب آپ کے نام پارسل آیا ہے۔ باہر ڈاکیا کھڑا ہے۔ وصول کر لیجئے

    نرائن: (بوکھلا کر)پارسل۔۔۔پارسل۔۔۔کیسا پارسل

    نوکر: کوئی سوامی رام پر کاش ہیں جنہوں نے ہر دوار سے بھیجا ہے۔

    نرائن: ضرور ۔۔۔ضرور۔۔۔کوئی غلطی ہوئی ہے۔۔۔ میں ابھی آتا ہوں۔۔۔ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے‘کیوں کشور؟ میں سچ کہتا ہوں ضرور کوئی غلطی ہوئی ہے۔

    فیڈ آؤٹ

    مأخذ :
    • کتاب : آؤ
    • اشاعت : 1940

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے