ماچس کی ڈبیا
دیدی (گہرا سانس لے کر) تواب مجھے اس کمرے میں رہنا ہو گا۔۔۔ کیا کہتے ہیں بمبئی کی زبان میں ایسے کمروں کو۔
پال: کھولی۔
دیدی: کتنا واہیات نام ہے۔۔۔ غربت کی توہین ایسے ہی بدنما ناموں سے تو ہوتی ہے۔۔۔کھولی۔۔۔ یعنی جس نے چاہا کھول لی۔۔۔ مجھے غریبی سے اتنی وحشت نہیں ہوتی جتنی غربت ظاہر کرنے والی چیزوں سے ہوتی ہے۔۔۔
پال: جناب یہ فلسفہ بگھارنے کا وقت نہیں‘ پہلے آپ اپنا سامان ٹھکانے سے رکھ لیجئے۔۔۔ رات آرہی ہے۔۔۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے پاس تاریکی دُور کرنے کے لیئے کوئی بھی چیز نہیں۔
دیدی: چھوڑ دیا اس سامان کو۔۔۔مجھے کون سا محل سجانا ہے۔۔۔ جو چیز یہاں رکھ دی گئی ہے‘ ٹھیک ہے۔۔۔ تم تاریکی اور روشنی کی باتیں کرتے ہو میں ان دونوں میں امتیاز کرنا ہی بھول گیا ہوں۔۔۔ مجھے تو دن کو اجالا تاریک نظر آتا ہے اور رات کو اندھیارا روشن۔ دن کوشہر کے ہنگامے میں کچھ سجھائی نہیں دیتا لیکن رات کو میں اپنے دل کی ہر بات پڑھ لیتا ہوں۔
پال: قصہ کیا ہے‘ آج تم بہت شاعری کر رہے ہو۔
دیدی: شاعری (ہنستا ہے) اگر جو کچھ میں نے کہا ہے شاعری ہے تو میرا خیال ہے کہ شاعر بڑے تیرہ بخت انسان ہوتے ہوں گے۔۔۔ پال تم نے کبھی محبت کی ہے۔
پال: یہ محبت کا سوال تم بیچ میں کیا لے آئے؟
دیدی: پال تم سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہا ہوں۔۔۔
پال: اماں ہٹاؤ اس سنجیدگی کو۔۔۔ میں کیا جانوں محبت کیا بلا ہے؟
دیدی: تو میری طرح تمہارا دل بھی محبت کا پیاسا ہے؟۔۔۔ پال۔۔۔ میں نے لوگوں سے سُنا ہے اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک شے جسے محبت کے نام سے پکارتے ہیں دل کی لطیف ترین غذا ہے ۔کیا یہ سچ ہے؟
پال: میرے دل کا ہاضمہ درست ہے مجھے کبھی اس لطیف تر غذا کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔۔۔تمہارا تو دماغ خراب ہو گیا ہے‘ نہ جانے تمہارے دل میں یہ محبت کا خیال کب اور کس وقت اندر چلا گیا۔۔۔مجھے تو کام دھندوں سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ اس بارے میں کچھ سوچوں‘تم خود ہی غور کرو مِل کے اندر مشینوں کی دیکھ بھال کروں۔ ان کے پرزوں میں تیل دوں یا تمہار ی اس محبت کو دماغ میں لے کر بیٹھ جاؤں۔۔۔؟
دیدی: پال تمہیں فوراً کسی ڈاکٹر سے اپنا علاج کرانا چاہیئے۔۔۔مشینوں کے اندر رہ کر تم خود لوہا بن گئے ہو۔۔۔تم باتیں تو یوں کرتے ہو گویا تمہارے پہلو میں دل کی بجائے برف کا ڈھیلا ہے جس پر کوئی نقش بیٹھ ہی نہیں سکتا۔۔۔ عورت کو دیکھ لو، جس مرد کا دل اپنے لیئے ایک رفیق ڈھونڈنے کا خیال پیدا نہ کرے اسے سینے سے باہر پھینک دینا چاہیئے۔
پال: اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ میرا دل سینے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں یا اس کے اندر کسی رفیق کو ڈھونڈنے کا خیال پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
دیدی: پال تم نہیں سمجھے میں کیا چاہتا ہوں؟ میں یہ چاہتا ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں۔۔۔
پال: ہاں ہاں بولو۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو۔۔۔پانی کا گلاس دُوں پینے کے لیئے؟
دیدی: میں یہ چاہتا ہوں تم محبت کرو۔ میں محبت کروں‘ سب محبت کریں۔۔۔ دنیا میں سب محبت کرنے والے بسیں۔۔۔ہر ایک دل میں محبت ہو۔۔۔ آہ‘پال تم نہیں سمجھے کہ اس ننھے سے لفظ میں کتنی مٹھاس ہے کتنی راحت ہے۔۔۔محبت۔۔۔محبت۔۔۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری آتما شبنم سے لدی ہوئی گھاس پر صبح کی ہوا سے کھیل رہی ہے۔۔۔تم ضرور محبت کرنے کی کوشش کرو پال۔۔۔ بغیر محبت کے کوئی آدمی مکمل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
پال: جناب میں خاکسار بہت کوشش کر چکا ہے ہوں خاطر مگرخواہ نتیجہ ابھی تک نہیں نکلا۔۔۔۔ہر روز رات کو آپ کا یہ خادم ایک خیالی عورت بنا کر اس سے محبت کرتا ہے اور صبح ہوتے ہی اپنے دل کے باہر یہ بورڈ ٹکا دیتا ہے کرائے کے لیئے خالی ہے‘کمرہ ہوادار ہے مگر اس طرف کوئی رخ ہی نہیں کرتا۔۔۔کمرہ ضرور ہوادار ہے مگر ہوا کے سوا اس میں دھرا ہی کیا ہے۔ آج کل کی عورتیں صرف ہوا پر تو زندہ نہیں رہ سکتیں۔ کمرہ سجا ہوا ہو تو بہت سے کرایہ دار مل سکتے ہیں۔
دیدی: محبت محلوں سے زیادہ جھونپڑیوں میں رہتی ہے پال۔۔۔ اسے ظاہری سجاوٹوں سے کیا کام؟ اور پھر محبت تو خود ایک سجاوٹ ہے دل کے لیئے اس سے خوب صورت زیور اور کیا ہوسکتا ہے۔
پال: یہ شاعری اب کسی اور وقت پر اُٹھا رکھو مجھے نائٹ ڈیوٹی پر جانا ہے۔۔۔ اگر میرے دل نے یہ زیور اس وقت پہن لیا تو؟ بوتل کی مشینیں آج رات بند رہیں گی۔۔۔ اچھا تو میں چلا۔
دیدی: جاؤ‘بھئی جاؤ۔۔۔آج کی رات جیسے کٹے گی وہ ظاہر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقفہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُوسرا منظر
(مشین چلانے کی آواز سُنائی دیتی ہے)
لاجو: آج یہ ہوا بھی کتنے زوروں پہ چل رہی ہے۔۔۔اُف توبہ۔۔۔لیمپ کی بتی کس طرح پھڑ پھڑا رہی ہے۔
لاجو کی ماں: تماشا کیا دیکھتی ہے۔ذرا اُٹھ کے چمنی کے اس طرف لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کے رکھ دے۔۔۔ اگر یہ بجھ گیا تو تجھے ہی نیچے دیا سلائی لینے کے لیئے جانا ہو گا۔۔۔ میری بلا سے نہیں سنتی تو نہ سُن!
لاجو: ماتا جی۔۔۔مجھے اس کی پھڑ پھڑاہٹ اچھی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ایسا لگتاہے جیسے میرا اپنا دل اس چمنی کے اندر دھڑک رہا ہے۔
لاجو کی ماں: جانے کیا واہی بتاہی بک رہی ہے۔۔۔یہ لو۔۔۔ ہوانا وہی جس کا مجھے کھٹکا تھا۔
لاجو: ہائے رام یہ تو سچ مچ بجھ گیا۔۔۔کتنا اندھیرا ہو گیا ہے۔
لاجو کی ماں: اب یہاں بیٹھ کے باتیں نہ بنا۔۔۔ جا بازار سے ایک پیسے کی ماچس لے آ۔
لاجو: ماں‘مجھ سے تو یہ نہ ہو سکے گا۔ پانچ سیڑھیاں نیچے اتروں اور پھر پانچ سیڑھیاں اوپر چڑھوں، میرے گھٹنے تو ابھی سے جواب دے رہے ہیں۔
لاجو کی ماں: تجھے تو کسی نواب کے گھر پیدا ہونا چاہیئے تھا یہاں بیٹھے بٹھائے تجھے ہر چیز مل جاتی۔۔۔میری لاڈو کے پاؤں کی مہندی گھستی ہے۔سیڑھیاں اُترتے۔۔۔افوہ۔۔۔بابا کیسا زمانہ آیا ہے۔۔۔ اس جوانی میں تیرے گھٹنے جواب دے رہے ہیں تو میری عمر کو پہنچ کر تیرا کیا حال ہو گا؟ جا ساتھ والی کھولی میں پڑوسن سے دیا سلائی مانگ لا۔۔۔تجھ سے اٹھا نہ جائے گا میں ہی جاؤں؟
لاجو: جاتی ہوں ماں یہ نگوڑے کپڑے بھی تو سینے ہیں مجھے۔۔۔ اگر صبح تک تیار نہ ہوئے تو چولہے میں آگ کیسے جلے گی۔۔۔جاتی ہوں۔۔۔اس ٹھہرے پانی ایسی زندگی سے جانے کب نجات ملے گی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔(تھوڑا وقفہ)۔۔۔۔۔۔
(دروازے پر دستک دینے کی آوازسُنائی دیتی ہے)
لاجو: دینو کی ماں‘ دینو کی ماں۔
(پھر دستک کی آواز سُنائی دیتی ہے)
لاجو: دینو کی ماں دینو کی ماں۔۔۔ارے سو گئی ہو کیا؟۔۔۔نہیں دروازہ تو کُھلا ہے(دروازہ کھلنے کی آواز)۔۔۔دینو کی ماں۔۔۔ ارے تم نے یہ کمرے میں یہ دُھونی کیسی رُما رکھی ہے۔۔۔اُف میرا تو دم گھٹنے لگا ہے۔۔۔
دینو کی ماں ۔۔۔؟ میں پوچھتی ہوں تم نے یہ بیڑیاں کب سے پینی شروع کی ہیں؟
دیدی: کون ہے؟
لاجو: ارے‘یہ کون بول رہا ہے؟
دیدی: ارے‘ یہ کون بول رہا ہے؟
لاجو: دینو کی ماں کہاں ہے؟
دیدی: دینو کی ماں۔۔۔یہاں دینو کی ماں نہیں رہتی اور میری ماں کو مرے اُتنے ہی برس ہوئے ہیں جتنے کہ مجھے زندہ رہتے ہو گئے ہیں۔۔۔ کمرے میں دھواں میں نے اس لیئے بند کر رکھا ہے کہ اس سے کمرے کی غلاظت دب جاتی ہے۔
لاجو: تم کوئی اور ہو۔۔۔میں۔۔۔میں غلطی سے یہاں چلی آئی۔۔۔مجھے دینو کی ماں سے ملنا ہے۔
دیدی: دینو کی ماں سے؟۔۔۔جب میں نے اپنی ماں کی شکل نہیں دیکھی تو دینو کی ماں کو میں کیسے جان سکتا ہوں؟۔۔۔ یہ کمرہ ۔۔۔نہیں۔۔۔یہ کھولی میں نے آج ہی کرائے پر لی ہے۔
لاجو: تو دینو کی ماں ہمیں اطلاع دئیے بغیر یہاں سے چلی گئی؟ میں اس سے دیا سلائی کی ڈبیا مانگنے آئی تھی۔ ہمارا لیمپ بجھ گیا ہے۔
دیدی: تمہارا لیمپ بُجھ گیا ہے۔۔۔پر یہاں تو ایک لیمپ روشن ہو گیا ہے۔
لاجو: کیا کہا آپ نے؟
دیدی: سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ ماچس چاہیئے نا۔
لاجو: جی ہاں!
دیدی: ماچس۔۔۔اور ماچس لے کر تم فوراً ہی یہاں سے چلی جاؤ گی۔
لاجو: ہاں‘ہاں ۔۔۔ مجھے لیمپ بھی توروشن کرناہے۔۔۔میری ماں اندھیرے میں بیٹھی ہے۔
دیدی: بالکل درست ہے۔میں سوچ کیا رہا ہوں۔۔۔تمہیں فوراً ہی جیب سے ماچس نکال کے کیوں نہیں دے رہا۔۔۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ کیا قصہ ہے؟۔۔۔کیا تم اس معاملے میں کچھ روشنی ڈال سکتی ہو؟
لاجو: ماچس لائیے۔
دیدی: تم بڑی۔۔۔وہ ہو۔۔۔
(لاجو ہنستی ہے)
(دیدی ہنستا ہے)
لاجو: مجھے دیر ہو رہی ہے لائیے ماچس۔
دیدی: ہاں۔ہاں۔ واقعی تمہیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔یہ لو ماچس۔۔۔ (ماچس کی ڈبیا میں تیلیوں کی کھڑکھڑاہٹ)
لاجو: لائیے۔۔۔ارے۔۔۔آپ کا لیمپ بھی بُجھ گیا۔۔۔(دیا سلائی کی ڈیبا گرنے کی آواز) اور ماچس بھی گر گئی۔۔۔
دیدی: اچھا ہوا۔
لاجو: کیا کہا؟
دیدی: میں نے کہا۔ کتنا بُرا ہوا۔۔۔ اب کیا سچ مچ اسے ڈھونڈنا ہی پڑے گا۔
لاجو: واہ جناب واہ۔۔۔ ڈھونڈنا کیوں نہیں پڑے گا۔۔۔دو لیمپ بجھے پڑے ہیں۔ ان کو روشن نہیں کرنا ہے کیا؟
دیدی: روشنی زیادہ ہو جائے گی۔
لاجو: کیا کہا؟
دیدی: میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے اب روشنی کی کیا ضرورت ہے؟
لاجو: پر مجھے تو ہے۔
دیدی: تو ماچس خود ہی ڈھونڈ لو۔۔۔میرا دل بھی اس میں پڑا ہے۔
لاجو(ہنستی ہے)آپ کا دل ماچس میں پڑا ہے۔۔۔اور میرا دل اپنے بجھے ہوئے لیمپ میں!
دیدی: تو پھر ماچس کوفوراً ہی ڈھونڈنا چاہیئے۔۔۔ ارے میں سوچ کیا رہا ہوں۔۔۔ٹھہرو۔۔۔(زمین پر ہاتھ مارنے کی آواز) یہیں گری تھی اور یہیں ہونی چاہیئے۔۔۔(ماچس پر ہاتھ پڑنے کی آواز)یہ لو،لیکن ٹھہرو ۔۔۔میں لیمپ جلا کر تمہیں تو اچھی طرح دیکھ لوں۔۔۔شاید کل تمہاری کھولی میں کوئی اور آجائے۔
لاجو: نہیں ہم نے اس مہینے کا کرایہ پیشگی دے دیا تھا۔
دیدی: ایک مہینے تک میں اسی کھولی میں رہوں گا کیونکہ میں نے بھی پیشگی ہی دیا ہے(لیمپ کی چمنی اور دیا سلائی جلانے کی آواز)
لاجو: ایک تو روشن ہو گیا!
دیدی: کیا دوسرا روشن نہیں ہوا۔۔۔؟
لاجو: اب جا کے روشن کروں گی۔۔۔لائیے ماچس۔۔۔آپ کا دل ہے نا ابھی تک اس میں؟
دیدی(ہنستاہے)۔۔۔ہاں ہاں اسی میں ہے۔۔۔ماچس کی آواز)یہ لو۔۔۔
لاجو: مہربانی۔۔۔تو میں چلتی ہوں۔
دیدی: ہاں ہاں جاؤ۔۔۔لیکن ذرا ٹھہرو۔۔۔نہیں نہیں جاؤ۔۔۔تمہیں لیمپ بھی روشن کرنا ہے۔۔۔تمہاری ماں اندھیرے میں بیٹھی تمہاری راہ دیکھ رہی ہو گی۔۔۔جاؤ۔۔۔لیکن ٹھہرو تو۔۔۔ہاں ٹھہرو تو۔۔۔
لاجو: کچھ کہتا ہے کیا؟
دیدی: کچھ کہنا ہی تو ہے۔۔۔ کچھ کہنا ہی تو ہے۔۔۔پر کیا کہنا ہے۔۔۔ہاں‘تو اب تم جارہی ہو کیا؟
لاجو: جی ہاں جارہی ہوں۔
دیدی: تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔۔۔اچھا تو میں بھی ہوں پر بے کاری بُری بلا ہے؟۔۔۔
لیکن اب میں کوئی نہ کوئی کام ضرور ڈھونڈ لوں گا۔۔۔مجھ میں آج بڑی ہمت پیدا ہو گئی ہے۔۔۔دنیا میں اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں میں شجاعت کبھی پیدا نہ ہوتی۔۔۔اگر تم مجھ سے کہو تو میں اس کھڑکی میں سے ابھی نیچے بازار میں کُود جاؤں۔۔۔پر میں یہ کیا گفتگو کر رہا ہوں۔
لاجو: میں اب جاتی ہوں۔
دیدی: ہاں اب جاؤ۔۔۔پر اپنا نام تو بتاتی جاؤ۔
لاجو: میرا نام لاجونتی ہے۔۔۔ماں مجھے لاجوکہتی ہے۔
دیدی: لاجونتی۔۔۔لاجو۔۔۔بڑا پیارا نام ہے۔۔۔تم یہاں کیا کرتی ہو؟
لاجو: سلائی کا کام کرتی ہوں۔۔۔اگر آپ کپڑا دیں تو میں آپ کی قمیص سی دوں گی۔
دیدی: شکریہ۔۔۔میرا کوٹ کہنیوں پر سے پھٹ رہا ہے۔۔۔ اگر کبھی اس کو رفو کر دو تو بڑی مہربانی ہو گی۔
لاجو: میں کل آکے یہیں رفو کر دوں گی۔۔۔اچھا میں اب جاتی ہوں(تھوڑا وقفہ)
(پھر دروازہ بند کرنے کی آواز)
دیدی: (فرطِ مسرت کے باعث بلند آواز میں)دیدی!۔۔۔دیدی!۔۔۔
دوست تمہارا نصیبہ جاگ اُٹھا۔(سیٹی بجاتا ہے)
(وقفہ)
تیسرا منظر
(دروازہ کھٹ کھٹانے کی آواز)
دیدی: آجاؤ۔
پال: (دروازہ کھولنے کی آواز) سناؤ بھئی کیا حال ہے‘نیا کمرہ کیسا رہا؟۔۔۔ ارے تم اپنے کوٹ کو۔۔۔بیڑی سے جلا کیوں رہے ہو؟
دیدی: اس لیئے کہ اس میں بہت سے سوراخ ہو جائیں۔
پال: سوراخ ہو جائیں۔۔۔سُوراخ تو ہو ہی جائیں گے۔ پر میں سوچتا ہوں کہ یہ منطق کیا ہے؟
دیدی: ایک سوراخ رفو کرنے میں اگر پانچ منٹ صرف ہو گے تو تین سوراخ رفو کرنے میں پندرہ منٹ صرف نہ ہوں گے۔
پال: ہاں ہاں پندرہ منٹ ہی صرف ہوں گے۔ پر تمہاری بات سمجھنے میں مجھے کتنے گھنٹے لگیں گے۔
(دیدی ہنستا ہے)
پال: تم تو آج ہنس بھی رہے ہو۔۔۔یہ کیا قصہ ہے۔
دیدی: قصہ یہ ہے۔۔۔ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ اور یہ ایک نقرئی آواز آئی۔۔۔دینو کی ماں‘دینو کی ماں‘ یہ تم نے بیڑیاں کب سے پینا شروع کر دی ہیں۔۔۔ اور وہ اندر چلی آئی۔۔۔سُن رہے ہو پال۔۔۔میرے خوابوں کی پری اندر چلی آئی۔۔۔پر ماتما کی رحمت ہو اس دینو کی ماں پر ۔۔۔تم جانتے ہواس دینو کی ماں کو۔۔۔؟ لیکن میری طرف یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیوں دیکھ رہے ہو؟۔۔۔ہنسو پال۔۔۔آج خوب ہنسو۔۔۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ آج ہر شے ہنس رہی ہے۔۔۔ وہ ابھی آئے گی۔۔۔میرا کوٹ رفو کرنے ۔۔۔میں نے اس میں تین بڑے بڑے سوراخ بنا دئیے ہیں۔۔۔ اس لیئے میں اسے دیر تک سامنے بٹھا کر دیکھ سکوں گا۔۔۔ کیا میں شریرنہیں؟لیکن تم خاموش کیوں ہو؟
پال: میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے اب کس بلڈنگ میں نیا کمرہ کرائے پر لینا چاہیئے۔۔۔
- کتاب : کروٹ
- اشاعت : 1946
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.