Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نقش فریادی

سعادت حسن منٹو

نقش فریادی

سعادت حسن منٹو

MORE BYسعادت حسن منٹو

    افراد

    سہیل : (شاعر)

    نجمہ : (محبت زندہ عورت)

    اور تین چار محبت فروش عورتیں

    نوٹ: ذیل کا تمہیدیہ شاعرانہ انداز میں پڑھا جائے۔ اس کے عقب میں کوئی ایسا ساز بجتا رہے جو موزوں و مناسب ہو۔

    تمہیدیہ:

    شاعر شعر لکھتے آئے ہیں اور لکھتے رہیں گے

    جذبات کے دھارے بہتے آئے ہیں اور بہتے رہیں گے

    سازوں کے تار لرزتے رہے ہیں اور لرزتے رہیں گے

    پتھر میں سندر مورتیاں ڈھلتی رہی ہیں اور ڈھلتی رہیں گی

    کاغذوں پرخیالات الجھتے رہے ہیں اور الجھتے رہیں گے

    دلفریب کہانیاں بنتی رہی ہیں اور بنتی رہیں گی

    عشق کی آگ سُلگتی رہی ہے اورسُلگتی رہے گی

    ہوّس کی برفانی سِلیں جمتی رہی ہیں اور جمتی رہیں گی

    بھڑکتے ہوئے شعلے!۔۔۔۔۔۔ پگھلا دینے والی گرمی؟۔۔۔۔۔۔ برف کے تودے!۔۔۔۔۔۔ منجمد کرنے والی سردی!۔۔۔۔۔۔ آگ اور برف۔۔۔۔۔۔برف اور آگ۔۔۔۔۔۔

    نوٹ: ’’آگ‘‘ کے ساتھ ہی فوراً ہجوم کا شور برپا ہو جائے۔ ایسا ظاہر کیا جائے کہ کہیں آگ لگی ہے۔شور کے اس پردے پر ذیل کے ٹکڑے سپر امپوز کیئے جائیں۔

    ایک آدمی: آگ۔۔۔۔۔۔آگ۔۔۔۔۔۔آگ۔۔۔۔۔۔

    بہت سے آدمی:(بیک زبان) آگ۔۔۔۔۔۔آگ۔۔۔۔۔۔آگ۔

    دوسرا آدمی: سہیل مت جاؤ(زیادہ بلند آواز میں)سہیل مت جاؤ۔ آگ کے منہ میں مت جاؤ۔

    سہیل: مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔(گرفت سے نکل کر)۔۔۔۔۔۔چھوڑ دو مجھے۔

    (آوازوں کا ہجوم۔۔۔۔۔۔آگ بجھانے والے انجن اور لوگوں کی چیخوں کا مِلا جُلا شور۔ چند لمحات کے بعد یہ شور آہستہ آہستہ فیڈآوٹ کردیا جائے۔ اس کے بعد دوسرا منظر شروع ہو)

    سہیل: (ہانپتے ہوئے)۔۔۔تم زندہ ہو۔۔۔۔۔۔تم زندہ ہو۔۔۔۔۔۔آنکھیں کھولو۔

    نجمہ: (گھٹی گھٹی آواز میں)۔۔۔آگ۔۔۔۔۔۔آگ۔

    سہیل: بُجھ چکی۔۔۔۔۔۔اب آؤ اس میں سے نکل کر دوسری آگ میں کود جائیں۔

    نجمہ: (گھبرا کر)۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم کون ہو۔۔۔۔۔۔میں یہاں کیسے آئی؟۔۔۔۔۔۔

    سہیل: (اطمینان کا سانس لے کر)آہ۔ تم زندہ ہو۔۔۔۔۔۔میرے تصّور سے بھی کہیں زیادہ زندہ ہو۔

    نجمہ: میں یہاں کیسے آئی؟

    سہیل: دھوئیں کے مرغولوں میں تمہارے ان بالوں کی سیاہ لٹیں کتنی دلفریب دکھائی دیتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھارات کی تمام پُراسرار تاریکیاں کسی نے آبنوسی ڈبیا میں بند کردی ہیں۔

    نجمہ: تم کون ہو؟

    سہیل: وہ سر جو اپنی جگہ سے اُکھڑ گیا ہے۔

    نجمہ: میں نے پہچان لیا ہے۔۔۔۔۔۔تم سہیل موسیقار ہو۔۔۔۔۔۔کیا یہ غلط ہے؟

    سہیل: میں سہیل موسیقار ہی ہوں۔

    نجمہ: میں نے دُور سے تمہیں کئی بار دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔میں نے تمہارے نغمے بھی سُنے ہیں۔

    سہیل: میں نے تمہیں آج پہلی باردیکھا ہے۔۔۔۔۔۔ شعلے بھڑک رہے تھے۔ دھوئیں کی چادریں تن رہی تھیں اور تم چیخ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ تمہاری ایک چیخ میں نے سُنی جو میرے بنائے ہوئے نغموں کے دل چیرتی ہوئی نکل گئی۔۔۔۔۔۔میں بھاگا۔۔۔۔۔۔دھوئیں اور آگ کے اُلجھاؤ میں گھس گیا۔ اور تمہیں اپنی گود میں اٹھا کر یہاں لے آیا۔

    نجمہ: تم جانتے ہو میں کون ہوں!

    سہیل: تم وہی ہو جو تم ہومیں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ جب آگ کے شعلے چاروں طرف بھڑک رہے تھے تو میں تمہارے تمتمائے ہوئے چہرے کو دیکھتا رہا تھا۔ جب دھوئیں کے بادل بِکھر رہے تھے تو میں تمہارے پریشان بالوں کو سنوارتا رہا تھا میں تمہیں چھو کے دیکھ چکا ہوں۔

    نجمہ: (مضطرب ہوکر) یہ تم نے کیا کیا؟

    سہیل: آگ میں کودا اور اس سے ایک شعلہ نوچ کرلے آیا۔

    نجمہ: بھولتے ہو۔۔۔۔۔۔ میں تو برف کی ایک ڈلی ہوں۔

    سہیل: غلط ہے۔۔۔۔۔۔ شعلے کو اگر معلوم ہوتا کہ وہ شعلہ ہے تو اس میں یہ لپک اور تپش نہ ہوتی۔ برف کو معلوم ہوتا کہ وہ برف ہے تو اس میں یہ نقطہ انجماد نہ ہوتا احساس شدت کو کم کرتا ہے بڑھاتا نہیں۔۔۔۔۔۔ شعور۔لاشعور کے مقابلے میں کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔

    نجمہ: تم مجھے ایک آگ سے بچا کرلے آئے ہو۔۔۔۔۔۔

    سہیل: دوسری آگ میں جھونکنے کے لیئے۔

    نجمہ: تم کتنے شریر ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے تم سے کہیں زیادہ شرارتیں آتی ہیں۔

    جانے دو اس کھیل کو۔ ایک آگ ٹھنڈی ہو چکی ہے دوسری بھی ٹھنڈی کردو۔

    سہیل: پہلے مجھے بتاؤ تمہارا نام کیا ہے؟

    نجمہ: نجمہ۔

    سہیل: نجمہ سُنو۔۔۔۔۔۔ محبت کی وہ چنگاری جو بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان اس دل میں پیدا ہوئی ہے کبھی ٹھنڈی نہیں ہوسکتی۔

    نجمہ: محبت کے چقماق پتھر سے اب تک کتنی چنگاریاں پھوٹ چکی ہیں۔۔۔۔۔۔کہاں ہیں یہ چنگاریاں؟۔۔۔۔۔۔ یہ ننھی ننھی چنگاریاں!۔۔۔۔۔۔

    سہیل: محبت کا نام سن کر تمہارے ہونٹ نفرت سے سکڑ کیوں گئے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ تمہارے چہرے پر حقارت کے جذبات کیوں بکھر گئے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ کیا محبت کسی من گھڑت چیز کا نام ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا دل کا زیور محض ایک خیالی چیز ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا میں سُروں کی بھول بھلیوں میں اتنی دیر کسی موہوم شے کو تلاش کرتا رہا ہوں؟۔۔۔۔۔۔میری انگلیاں کیا ساز کے پردوں پربیکار دوڑتی رہی ہیں؟۔۔۔۔۔۔ کیا زندگی محض ایک حادثے کا نام ہے؟

    نجمہ: آگ کا لگنا ایک حادثہ ہی تو تھا۔

    سہیل: تمہارا چیخنا بھی حادثہ تھا۔ میرا آگ میں کودنا بھی حادثہ تھا۔۔۔۔۔۔ تمہاری گرم گرم سانسوں کے گھونٹ پینا بھی حادثہ تھا۔۔۔۔۔۔تمہیں یہاں اپنی گود میں اُٹھا کرلانا بھی ایک حادثہ تھا۔۔۔۔۔۔ میری زندگی کی بنیادوں کا کانپ جانا بھی ایک حادثہ تھا۔۔۔۔۔۔یہ سب حادثے تھے تو آؤ ایک نئے اور بہت بڑے حادثے کی بنیاد ڈالیں۔

    نجمہ: تمہاری اس گرمجوشی سے مجھے ڈرلگتا ہے سہیل۔

    سہیل: ڈر اور خوف بے معنی چیزیں ہیں۔۔۔۔۔۔گرمجوشی نہ ہوتی تو دنیا میں ہر شے کا رنگ زرد ہوتا۔

    نجمہ: میں اب زیادہ دیر تمہارے پاس نہیں ٹھہر سکتی۔۔۔۔۔۔ مجھے گھر جانا چاہیئے۔

    سہیل: گھر تمہارا جل کرراکھ ہو چکا ہے۔

    نجمہ: اس میں تھا ہی کیاجو راکھ ہوتا۔۔۔۔۔۔اوربن جائے گا۔

    سہیل: میرا گھر تمہارے آنے سے آباد ہوگیا ہے۔

    نجمہ: سہیل مجھے نہ روکو۔۔۔۔۔۔

    سہیل: تم نہیں جاسکتی ہو نجمہ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں نہیں جانے دُوں گا۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو اگر تم نے جانے کے لیئے قدم اُٹھائے تو میں تمہیں پکڑ کراس زور کے ساتھ بھینچوں گا کہ تمہاری روح نچڑ کر میرے سینے میں چلی آئے گی۔۔۔۔۔۔ تم نہیں جاؤ گی۔

    نجمہ: مجھے جانے دوسہیل۔۔۔۔۔۔

    سہیل: (جذباتی انداز میں) تم نہیں جاؤ گی۔۔۔۔۔۔ محبت کا وہ آتشیں پودا جو میں نے اپنے ہاتھ سے تمہارے دل میں گاڑا تھا جڑیں پکڑ چکا ہے۔۔۔۔۔۔ اب تم میری ہو۔۔۔۔۔۔آہ مجھے تمہاری کس قدر ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔ وہ موہومُ سر جسے ایک زمانے سے میری اُنگلیاں ٹٹولتی رہی ہیں آج مجھے مل چکا ہے۔۔۔۔۔۔عورت!۔۔۔۔۔۔عورت!!۔۔۔۔۔۔ مرد کے لیئے عورت بے حد ضروری ہے۔ اور نجمہ تمہارے بغیر سہیل ایک ایسا ساز تھا جس کی طرزیں نہ ہوں۔۔۔۔۔۔

    نجمہ: (مجبوری کے انداز میں)۔۔۔۔۔۔سہیل۔۔۔۔۔۔سہیل۔۔۔۔۔۔

    سہیل: کہو کیا کہنا چاہتی ہو!

    نجمہ: تم نے مجھے اس آگ میں کیوں نہ جلنے دیا۔۔۔۔۔۔

    نوٹ: (آہستہ آہستہ ذیل کی نظم شروع ہو)

    ہاں ہم اس آگ سے آئے ہیں نہیں جس کو ثبات

    شرر وشعلہ عیاں لاکھ ہوئے

    خس و خاشاک جلے راکھ ہوئے

    آکہ اب کود پڑیں عشق کی اس آگ میں ہم

    غیر فانی ہیں بھڑکتے ہوئے شعلے جس کے

    تاابد لوٹیں ہم

    آرزوؤں کے دہکتے ہوئے انگاروں پر

    آکہ ہم رُوح کو صیقل کرلیں

    تیرا جوبن ہے جواں سال ابھی

    تجھے کیا اس سے کہ دنیا میں شب وروز ہیں کیوں؟

    رائیگاں جائیں گے یہ لمحے دیکھ

    پھر نہ لوٹ آئیں گے یہ لمحے دیکھ

    آکہ اب کود پڑیں

    غیرفانی ہے محبت کی بھڑکتی ہوئی آگ

    نوٹ: اوپر کی نظم کےُ سر آہستہ آہستہ مدھم ہو جائیں۔ پھر ایک لمحے کے لیئے خاموشی طاری رہے اور تیسرا منظر شروع ہو۔ اس منظر کے عقب میں آہستہ آہستہ کوئی ساز بجتا رہے۔

    نجمہ: (آہستہ مگرجذبات بھری آواز میں)سہیل ایسی کتنی شامیں گزر چکی ہیں؟

    سہیل: کس کمبخت کو یاد ہے۔۔۔۔۔۔ جانے کتنی گزر چکی ہیں۔۔۔۔۔۔ محبت حساب کی بہت کچی ہوتی ہے۔

    نجمہ: سہیل مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے ایک لمبا سفرطے کرنے کے بعد تھک کر گرم گرم قہوے کی پیالی پی ہے اور نرم نرم لحاف اوڑھ کر لیٹ گئی ہوں۔ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ یہ میٹھی میٹھی سی تھکن۔۔۔۔۔۔ یہ شیر گرم سا اضمحلال جس میں کہ میں لپٹی ہوئی ہُوں مجھے کیوں اچھا لگتا ہے؟۔۔۔۔۔۔

    سہیل: یہ تھکن۔۔۔۔۔۔یہ شیر گرم سا اضمحلال ہی زندگی کا عرق ہے۔۔۔۔۔۔ نجمہ! زندگی کتنی خوبصورت چیز ہے!۔۔۔۔۔۔ ہری ہری گھاس کا یہ بستر۔۔۔۔۔۔اوپر نیلا نیلا آسمان اور اس پر ہوا سے ادھر ادھر اڑتے سفید بادلوں کے ٹکڑے۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ شاہ جہاں کے نامکمل مرمریں خواب حقیقت بننے کے لیئے بیتاب ہیں۔۔۔۔۔۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اس کے ہر جھونکے میں، دبے پاؤ ںآنے والی شام کے ریشمی لباس کی کتنی سرسراہٹیں گھلی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔

    نجمہ: سرسراہٹیں۔۔۔۔۔۔!

    سہیل: فضا ایک بے آواز موسیقی سے معمور ہے۔۔۔۔۔۔ رات کی سیاہ اور گھنی پلکوں پر دن اپنے اجلے پر تول رہا ہے۔ آسمان کی سرخ نیلاہٹوں میں کتنے ناگفتہ شعر لپٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ اس ماحول میں دماغ میرا ایک جھاڑ سا بن گیا ہے جس میں خیالات بلوریں قمقموں کی طرح جھم جھم کررہے ہیں۔

    نجمہ: سہیل! تم شاعربھی ہو۔۔۔!

    سہیل: یہ تمہارا ہی ایک ادنیٰ کرشمہ ہے ورنہ سہیل کے دل میں ان تمام لطافتوں کی آنکھیں مندی رہتیں۔۔۔۔۔۔

    (وقفہ)

    نجمہ: (اضطراب کے ساتھ)مجھے چھوڑ مت جانا!

    سہیل: کیسی باتیں کرتی ہونجمہ۔

    نجمہ: (اضطراب کے ساتھ) سہیل مجھے معاف کردو۔مگر یہ دنیا اس قدر حسین نہیں جتنی کہ اب نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔ غازے کا یہ خوبصورت غبار جو اس وقت کائنات پر چھا رہا تھا مجھے پیارا لگتا ہے۔ لیکن میں اسے ہاتھ لگاتے ڈرتی ہوں۔۔۔۔۔۔بچپن میں جب میں تتلیوں کو پکڑا کرتی تھی تو ان کے پروں کے خوبصورت رنگ میری انگلیوں کے ساتھ لگ جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔میں ڈرتی ہوں۔۔۔۔۔۔اسی لیئے میرا جی چاہتا ہے کہ ہم دونوں اس باغ میں پتھرکی دومورتیاں بن جائیں۔۔۔۔۔۔ جو کچھ اس وقت نظر آتا ہے پتھرمیں ڈھل کر دیرپا ہو جائے۔۔۔۔۔۔تمہاری تمام باتیں ننھے ننھے سنگریزے بن کر اس سامنے والی ندی میں لڑھک جائیں۔۔۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ دلفریب گھڑیاں پگھل جائیں گی۔۔۔۔۔۔ یہ سیال مسرت ایسی ڈھلوانوں میں بہہ جائے گی کہ اس کا نام و نشان تک نہیں ملے گا۔۔۔۔۔۔مجھے چھوڑ مت جانا سہیل۔۔۔

    سہیل: تمہیں چھوڑ کرسہیل کہاں جائے گا پیاری۔۔۔۔۔۔ جس طرح راگ سے کوئی سُر علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح سہیل کی زندگی سے تم جدا نہیں ہوسکتیں۔

    نجمہ: ایک بار پھر یہی کہو!

    سہیل: لو سُنو۔۔۔۔۔۔ نہیں تم خود کہو

    عقب میں جو ساز بجتا رہا تھا اُبھر آئے۔ پھر آرکسٹرا کے دوسرے ساز بھی ہم آہنگ ہو جائیں اور ذیل کا گیت شروع ہو

    چاہ سے پھُوٹا درد کا دھارا

    ڈُوب رہا ہے سکھ کا تارا

    آجا میرے پاس

    میں ہوں تیرے من کی آس

    میں ہوں ایک سہانا سپنا

    سپنوں سے قائم سندرتا

    رس کی بوندیں پریم کی برکھا

    سُکھ کی جھیل پہ جیون نیا

    آجا میرے پاس

    میں ہوں تیرے من کی آس

    شبنم پھول کی پیاس بجھائے

    چاند چکور کو پاس بُلائے

    بھونرا پھولوں پر منڈلائے

    تو کیوں اپنا من ترسائے

    آجا میرے پاس

    میں ہوں تیرے من کی آس

    اس گیت کےُ سر آہستہ آہستہ تحلیل ہو جائیں۔۔۔۔۔۔پھر تیسرا منظر نجمہ کی سُبکیوں سے شروع ہو:

    تسنیم: نجمہ تم رو رہی ہو!

    نجمہ: اس لیئے کہ ہنستی بہت رہی ہوں۔

    نبیلا: یہ تمہیں ایکا ایکی کیا ہوگیا؟

    نجمہ: ایکا ایکی کہاں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ایکا ایکی ہوتا تو دل کی حرکت ایک دم بند ہو جاتی۔ ر ونا تو اسی بات کا ہے کہ جو کچھ ہوا بہت ہولے ہولے ہوا۔ اس قدر دھیرے دھیرے کہ یہ آنسو جو اب آنکھوں سے نکل رہے ہیں جانے پہچانے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ گھلا ہوا صدمہ میں خود اپنی اوک سے پیتی رہی ہوں۔

    تسنیم: نجمہ آنسو معمّے نہیں ہوتے۔

    نجمہ: دنیا میں کوئی چیز بھی معمّہ نہیں تسنیم۔زندگی کا دھاگا بہت صاف اور سیدھا ہے اس میں اُلجھاؤ تو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔آہ۔ یہ اُلجھاؤ۔۔۔۔۔۔ کچھ دن پہلے دنیا کتنی سُندر دکھائی دیتی تھی۔ ایسا لگتا تھا وقت کا چکّر ایک صحت افزا مقام پرُ رک گیا ہے۔ ہوائیں لطیف اور خوشبوؤں میں بسی ہوئی تھیں۔ جی چاہتا تھا کہ یہ، بس یہیں رکا رہے۔۔۔۔۔۔پر جب ہولے ہولے آنکھیں کھلیں تو دیکھا وقت کا چکّر اسی طرح چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میں بہت آگے نکل چکی ہوں۔ پیچھے مڑ کر جب دیکھا تو ماضی کے ریگستان میں اس کانچ کے سپنے کے زرّے چمکتے نظر آئے۔۔۔۔۔۔کانچ کتناہی سندر ہو آخر کانچ ہے۔

    نبیلا: سہیل۔۔۔۔۔۔

    نجمہ: اس کا نام نہ لو نبیلا۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیئے اس کا نام نہ لو۔۔۔۔۔۔میں اس کو بھول جانا چاہتی ہوں۔

    نبیلا: نہیں نجمہ۔ تم اسے نہیں بھول سکتیں۔ وہ بھی تمہیں نہیں بھلا سکتا۔۔۔۔۔۔ کیا دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے صرف بھول جانے کیلئے ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ تم بھولتی ہو۔ ضرور تمہارے دل میں بے بنیاد شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔ سہیل تمہیں دھوکا نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔کیوں تسنیم تمہارا کیا خیال ہے۔

    تسنیم: سہیل کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔ اگر اس نے تمہیں دھوکا دیا ہے تو سمجھنا پڑے گا۔ یہ دنیا خود ایک بہت بڑا فریب ہے۔

    نبیلا: غلط ہے، یہ دنیا فریب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ یہ فریب نہیں ہوسکتا۔

    نجمہ: یہ فریب اتنا بڑا ہے کہ فریب دکھائی نہیں دیتا۔

    نبیلا: تو اسے ختم کردینا چاہیئے۔

    نجمہ: مجھ میں اتنی ہمت کہاں؟۔۔۔۔۔۔ اگر مجھ میں اتنی ہمت ہوتی بھی تو میں اسے ختم نہ کرتی۔۔۔۔۔۔ میں صرف اس کو بھولنا چاہتی ہوں۔ باقی تمام چیزیں میں یاد رکھنا چاہتی ہوں۔

    تسنیم: آخر ہوا کیا؟

    نجمہ: سہیل موسیقار ہے۔۔۔۔۔۔ ایک راگنی اس نے بنائی تھی۔ اس کو بنا کر وہ کچھ دن خوش رہا۔ اب وہ نئے سُروں کی تلاش میں ہے۔

    تسنیم: تم کو پا کروہ سب راگنیاں بھول گیا تھا۔

    نجمہ: مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام کڑوی حقیقتیں جانتے ہوئے بھی میرے دل کے کسی گوشے میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں سہیل کے چاروں طرف ایک دیوار بن جاؤں اور اسے قید کرلوں۔۔۔۔۔۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں اب اسے نہیں پا سکتی۔

    تسنیم: کیوں؟

    نجمہ: وہ جب میرے نزدیک آرہا تھا تو دراصل وہ مجھ سے بہت دُور جارہا تھا۔ میں سمجھ نہ سکی۔۔۔۔۔۔ میں اس کو بالکل سمجھ نہ سکی۔

    نبیلا: تمہیں اس کا افسوس ہے!

    (وقفہ)

    نجمہ: میں اس کا کیا جواب دوں۔۔۔۔۔۔ نہیں، مجھے افسوس نہیں ہے۔

    (وقفہ)

    تسنیم: مجھے یقین نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ انہونی سی بات ہے۔۔۔۔۔۔ سہیل کبھی ایسا نہیں ہوسکتا۔

    نجمہ: (لہجے سے دکھ کو دُورکرکے چھوڑو اس قصّے کو۔۔۔۔۔۔(اپنے آپ کو دھوکا دیتی ہے) دنیا اسی طرح فریب ہے۔۔۔۔۔۔اس کی رنگینیاں اسی طرح قائم ہیں۔۔۔۔۔۔کوئی چیز کم یا زیادہ نہیں ہوتی( مینڈکوں کی آواز آہستہ آہستہ فیڈ ان کی جائے۔۔۔۔۔۔ یہ آواز اس منظر کے آخر تک جاری رہے)۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھو اس جوہڑ کے ساکن پانی پر چاندنی کیسا منظر پیش کررہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ ایک بہت بڑی کٹھالی میں چاندنی پگھل رہی ہے۔ چاروں طرف خاموشی ہے۔ یہ اونچے اونچے پیڑ اور یہ پست قد جھاڑیاں یوں چپ چاپ ہیں جیسے ایک نہایت ہی دلچسپ کہانی سُن رہی ہیں۔۔۔۔۔۔دنیا اسی طرح خوبصورت ہے۔ اس کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آیا۔۔۔۔۔۔وہ دیکھو جوہڑ کے پاس مٹی کے اس ڈھیلے پر ایک مینڈک بول رہا ہے۔۔۔۔۔۔ کتنی پیاری آواز ہے۔۔۔۔۔۔(آواز بھرا جاتی ہے اور ایک دم پھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کردیتی ہے)۔۔۔۔۔۔سہیل۔۔۔۔۔۔سہیل۔۔۔۔۔۔!!

    (مینڈک کی آواز چند لمحات کے بعد تحلیل کردی جائے۔ پھر چوتھا منظر شروع ہو۔)

    اختری: سہیل میرے پاس بیٹھو۔ آؤ میٹھی میٹھی باتیں کریں۔

    سہیل: (وقفہ) چلو شروع کرو۔۔۔۔۔۔آج میری زندگی میں مصری گھول دو۔

    اختری: صرف آج ہی کیوں ہمیشہ کیلئے کیوں نہیں؟

    سہیل: اور میں پوچھتا ہوں کہ ساری ہمیشگی آج ہی کیوں نہ جمع کردیں۔۔۔۔۔۔ جو کچھ کل یا پرسوں ہونے والا ہے آج ہی کیوں نہ ہو۔

    اختری: سہیل ہر روز یہی ہوتا ہے۔ ہم ہمیشہ وقت سے کچھ آگے ہی رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جب سے تم آئے ہو آج آنے والی کل بنی رہی ہے۔۔۔۔۔۔ تم اتنی دیر کہاں چھپے ہوئے تھے؟

    سہیل: آج اور کل کے اسی الجھاؤ میں کہیں پھنسا ہوا تھا۔

    اختری: کہ میں نے تمہیں نکال لیا۔

    سہیل: اور جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو مجھے تعجب نہ ہوا۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے اجنبی نہ پایا اس لیئے کہ تم میرے لیئے اجنبی نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔تمہارا تصّور بہت دیر سے میرے دماغ میں تھا۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔اختری!

    اختری: بولو!

    سہیل: بس کہہ دیا جو کہنا تھا۔۔۔۔۔۔دنیا میں خاموشی نہ ہوتی تو لطیف جذبات کا اظہار کس قدر مشکل ہو جاتا۔

    اختری: درست ہے پر اس وقت میں خاموشی نہیں چاہتی۔۔۔۔۔۔تم پاس ہوتے ہو تو جی چاہتا ہے کہ بولتے چلے جاؤ۔ باتوں کی یہ سیڑھی اوپر کو اٹھتی چلی جائے حتیٰ کہ میں تاروں کی دنیا میں پہنچ جاؤں۔

    سہیل: (ا زراہِ مذاق) پروہاں تمہیں سہیل نہیں ملے گا۔

    اختری: تمہیں ساتھ لے کرچلوں گی۔

    سہیل: چلو چلیں۔

    اختری: آؤ میرے پاس آجاؤ۔۔۔۔۔۔ اور زیادہ قریب آجاؤ

    آہستہ آہستہ میوزک شروع ہو اور اختری ذیل کا ایک بند گائے:

    میں ہوں ایک سہانا سپنا

    سپنوں سے قائم ایک سندرتا

    رس کی بوندیں پریم کی برکھا

    سُکھ کی جھیل پہ جیون نیا

    (گیت کی دُھن سازوں پر بجتی رہے۔ ذیل کا مکالمہ اس پرسپر امپوز کیا جائے)

    سہیل: (مضطرب ہو کر) اختری! یہ کیسا گیت ہے!

    اختری: تمہارا ہی تو ہے۔

    سہیل: میرا۔۔۔۔۔۔تم نے کہاں سے سیکھا؟

    اختری: آج کل ہر ایک کی زبان پر ہے۔

    سہیل: ہر ایک کی زبان پر کیسے ہوسکتا ہے۔

    (گیت کی دُھن چند لمحات سازوں پر جاری رہے۔ پھر ذیل کا بند کوئی اور لڑکی گائے)

    شبنم پھول کی پیاس بجھائے

    چاند چکور کو پاس بلائے

    بھونرا پھولوں پر منڈلائے

    تو کیوں اپنا من ترسائے

    آجا میرے پاس۔۔۔۔۔۔میں ہوں تیرے من کی آس

    (گیت کی دھن سازوں پر بجتی رہے۔ پھر ذیل کا مکالمہ اس پر سپر امپوز کیا جائے)

    سہیل: شبنم اور پھول سب بکواس ہے۔۔۔۔۔۔ چاند اور چکور کی محبت ایک من گھڑت داستان ہے۔۔۔۔۔۔یہ گیت واہیات ہے۔ اس کا کوئی مطلب نہیں۔۔۔۔۔۔ لوگ پاگل ہیں جو اسے گاتے ہیں۔ اس کا کوئی مطلب نہیں۔

    (گیت کی دھن چند لمحات سازوں پر جاری رہے۔ پھر ذیل کا بند کوئی دوسری لڑکی گائے)

    چاند سے پھوٹا درد کا دھارا

    ڈُوب رہا ہے سکھ کا تارا

    سُونا سُونا ہے جگ سارا

    تو پھرتا ہے مارا مارا

    آجا میرے پاس۔۔۔۔۔۔میں ہوں تیرے من کی آس

    (چند لمحات تک اس گیت کی دُھن سازوں پر بجتی رہے پھر آہستہ آہستہ فیڈ آؤٹ کردی جائے۔اس کے بعد ذیل کا منظر سہیل کے قہقہوں سے شروع ہو۔)

    سہیل: خدا جانے یہ کس بیوقوف کا گیت ہے۔۔۔۔۔۔ آؤ۔۔۔۔۔۔ہنسیں۔ ہنسی ہی دنیا کا سب سے بڑا گیت ہے۔۔۔۔۔۔ زہرہ۔ تم ہنستی کیوں نہیں ہو!

    زہرہ: مجھے ہنسی نہیں آتی۔

    سہیل: تو میرے سامنے سے ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔انوری تم ہنسو۔

    انوری: (ہنسنے کی کوشش کرتی ہے)

    سہیل: کچھ نہیں۔ کھل کے ہنسو۔۔۔۔۔۔ یہ علیل ہنسی مجھے پسند نہیں۔۔۔۔۔۔صحت مند ہنسی کا ایک فوارّہ چھوٹنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ دیوانہ وار ہنسو۔۔۔۔۔۔ مشتری اِدھر آؤ۔

    مشتری: تمہیں کیا ہوگیا ہے سہیل؟

    سہیل: مجھے کیا ہوا ہے؟۔۔۔۔۔۔ مجھے کیا ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ میں عیش چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔دنیا کی تمام عشرتوں کا منہ چومنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔تمہیں کچھ ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔تم اب عورتیں نہیں رہی ہو۔

    زہرہ: سہیل!

    سہیل: (چونک کر) یہ مجھے کس نے پُکارا؟۔۔۔۔۔۔ اوہ زہرہ۔۔۔۔۔۔آؤ۔ ادھر آؤ۔۔۔۔۔۔تم کہاں چھپی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔ آؤ۔ میری آنکھوں کے سامنے آؤ۔۔۔۔۔۔ تم عورت ہو تمہارا رواں رواں عورت ہے۔۔۔۔۔۔ آؤ۔ اپنی ان مخروطی انگلیوں سے میرے بالوں میں کنگھی کرو کہ مجھے نیند آجائے۔۔۔۔۔۔ کئی رت جگے میری آنکھوں میں جمائیاں لے رہے ہیں۔مجھے سلا دو۔

    زہرہ: سو جاؤ۔

    سہیل: نہیں میں نہیں سوؤں گا۔۔۔۔۔۔ نیند بیکار چیز ہے۔ میں جاگتا رہوں گا۔۔۔۔۔۔آہ۔ زہرہ۔ تم خوبصورت ہو۔۔۔۔۔۔مجھے لفظ نہیں ملتے کہ تمہاری خوبصورتی بیان کرسکوں۔

    سہیل: پہلے تمہیں لفظ مل جایا کرتے تھے۔

    سہیل: یہ کیا بکواس ہے۔۔۔۔۔۔ پہلے۔۔۔۔۔۔پہلے۔۔۔۔۔۔ پہلے کیا ہوتا تھا جو اب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ میرے پاس لفظوں کا ذخیرہ ویسے کا ویسا موجود ہے۔

    زہرہ: کیا تم اسی طرح بکواس کیا کرتے تھے؟

    سہیل: (وقفہ)مجھے معاف کردو زہرہ۔۔۔۔۔۔میرے لہجے میں کیا کھردرا پن آگیاتھا۔(وقفہ۔۔۔۔۔۔موڈ بدل کر)۔۔۔۔۔۔چلو آؤ کسی باغ میں چلیں۔۔۔۔۔۔ انوری مشتری تم بھی آؤ۔ ذرا تاروں کی چھاؤں میں ایک محفل گرم کی جائے۔ آج میں سازوں کے تمام سُر بے چین کردوں گا۔ سہیل کی اُنگلیاں پردوں پر یوں دوڑیں گی جیسے بادلوں میں بجلی کی دھاریاں۔۔۔۔۔۔آج رات ایک نئی زندگی کا دور شروع ہو۔۔۔۔۔۔ اس دور کا ذرّہ ذرّہ نیا ہوگا۔۔۔۔۔۔پرانے نقش آج پیروں سے مٹا دیئے جائیں گے۔ ان کے بدلے نئے بیل بوٹے بنیں گے۔۔۔۔۔۔آؤ باغ میں چلیں(آگ بجھانے والے انجن کی آواز فیڈ ان کی جائے۔ یاد رہے کہ یہ آواز بہت ہولے ہولے آئے)۔۔۔یہ کیسی آواز۔۔۔(مضطرب ہو کر) یہ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔زہرہ تم سنتی ہو؟

    زہرہ: گھنٹہ سا بج رہا ہے۔

    سہیل: مشتری تم نے بھی یہ آوازسُنی۔

    مشتری: سُن رہی ہوں۔

    سہیل: کیا یہ میرا واہمہ تو نہیں۔

    مشتری: کہیں آگ لگی ہے۔

    سہیل: (دیوانہ وار)۔۔۔۔۔۔آگ۔۔۔۔۔۔آگ۔۔۔۔۔۔کہاں لگی ہے آگ؟

    زہرہ: سہیل تمہیں کیا ہوگیا ہے آگ یہاں تھوڑے ہی لگی ہے۔

    سہیل: میں جانتا ہوں کہاں لگی ہے۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں یہ آگ کس نے لگائی ہے؟۔۔۔۔۔۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس میں کون جل رہا ہے۔۔۔۔۔۔کیا تمہیں اس کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔

    زہرہ: کس کی؟

    سہیل: تم اسے نہیں جانتی ہو۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔مجھے جلد بھاگنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔(دروازہ پر زور زور سے مُکیاں مارتا ہے) دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔جلدی کھولو۔۔۔۔۔۔ مجھے دیر ہو جائے گی۔

    زہرہ: کھولتی ہوں۔ پر تم جا کہاں رہے ہو؟

    سہیل: نجمہ کے پاس۔۔۔۔۔۔ایسا نہ ہو کہ بیچاری جل جائے۔۔۔۔۔۔تم اس کی آواز نہیں سنتی؟(دروازہ کھلنے کی آواز۔ اس کے ساتھ ذیل کا بند نجمہ گائے)

    چاند سے پھوٹا درد کا دھارا

    ڈوب رہا سُکھ کا تارا

    سُونا سُونا ہے جگ سارا

    تو پھرتا ہے مارا مارا

    آجا میرے پاس۔۔۔۔۔۔ میں ہوں تیرے من کی آس

    نوٹ: ’’آجا میرے پاس۔۔۔۔۔۔ میں ہوں تیرے من کی آس۔‘‘ بار بار دہرایا جائے۔۔۔۔۔۔یہ بند اور آخرکی دو سطریں کچھ اس طرح گائی جائیں کہ ان کا ایک ایک لفظ سُنائی دے۔مگر عقب میں آگ بجھانے والے انجن کا شوربرابر جاری رہے۔۔۔۔۔۔جب بند پورا گالیا جائے تو سہیل کہے)

    سہیل: میں آرہا ہوں۔۔۔۔۔۔میں آرہا ہوں

    زہرہ: کہاں جارہے ہوسہیل۔۔۔۔۔۔ یہ کیا پاگل پن ہے۔

    سہیل: مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ تم اس نقش کی فریاد نہیں سُنتی ہو جس کو میں نے خود بنایا تھا۔

    نوٹ: آگ بجھانے والے انجن کا شور زیادہ بلند ہو جائے۔ اس کے ساتھ ہی نجمہ کے گائے ہوئے یہ بول’’آجا میرے پاس۔۔۔۔۔۔میں ہوں تیرے من کی آس۔‘‘ بلند تر ہو جائیں۔ آخر میں یہ دونوں چیزیں بلند ترین ہو جائیں۔۔۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ ان کو تحلیل کردیا جائے)

    جب شور ختم ہو جائے تو ذیل کا ٹکڑا درد ناک سُروں پر سپرامپوز کیا جائے۔

    ایک آدمی: روئی کے گودام میں آگ لگی تھی۔۔۔۔۔۔ سہیل اس میں کیوں گھس گیا۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

    درد ناک سُرچند لمحات تھرتھرا کر خاموش ہو جائیں

    (فیڈ آؤٹ)

    مأخذ :
    • کتاب : منٹو کے ڈرامے
    • اشاعت : 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے