نیلی رگیں
افراد
سعید: (شاعر۔ آواز میں جذبات کا ہجوم۔خوش گفتار)
کرشن: (سعید کا دوست)
ثُریّا: ایک اجنبی عورت۔ متلون مزاج)
سعید: (ذیل کے اشعار پڑھتا ہے)
مرمریں پیکر یہ نیلم کے خطوط
سرد ہے دنیائے خواب
میرے برفانی تصوّر میں مگر
بہہ رہا ہے نیلگوں سیماب سا
جس طرح جاری ہو قلب و روح میں
اک حسیں افعی کا زہر
چاند میں جس طرح سے نیلی شعاعوں کی جھلک
مرمریں پیکر پہ نیلم کے خطوط
کرشن: تم اب دن بدن شاعر ہوتے چلے جارہے ہو۔
سعید: مجھے بھی یہی محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ان نیلی رگوں نے مجھے شاعر بنا دیا ہے۔ میرے ذہن کی ہر سلوٹ میں یہ رگیں رینگتی رینگتی پہنچ گئی ہیں(کرشن سے شدّت کے ساتھ مخاطب ہوکر)۔۔۔۔۔۔ کرشن! تم نے کبھی کسی عورت کے ٹھنڈے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبائے ہیں۔
کرشن: ٹھنڈے ہاتھ۔۔۔۔۔۔؟
سعید: ٹھہرو! مجھے اپنا فقرہ درست کرلینے دو۔ پھر جواب دینا۔۔۔۔۔۔ اب بتاؤ۔ کیا تم نے کبھی کسی اجنبی عورت کے ٹھنڈے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبائے ہیں۔۔۔۔۔۔ ایسے ہاتھ جو چاند کی طرح خنک ہوں۔۔۔۔۔۔ کسی اجنبی عورت کے ہاتھ جو تمہاری زندگی میں یوں داخل ہوں جیسے رات کے سنسان اندھیرے میں کوئی جگنو بھٹکتا ہوا آنکلے۔
کرشن: (مذاق کے طور پر) اپنی دُم میں لالٹین باندھے۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ چاند کی ڈلی چوستا ہوا ادھر آنکلے(ہنستا ہے) تمہیں آج کیا ہوگیا ہے سعید۔۔۔۔۔۔ یہ ٹھنڈی یخ عورت تمہاری زندگی میں کب داخل ہوئی۔۔۔۔۔۔ اگر سامنے انگیٹھی میں دہکتے ہوئے کوئلے واقعی گرم ہیں تو جناب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آج دسمبر کی ایک سرد رات ہے اور سرد راتوں میں برف کوئی نہیں پیتا۔ شراب تک کو اس کی سرد آغوش سے دُور رکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر میں تو سبق پڑھانے لگا۔۔۔۔۔۔ بتاؤ یہ سرد ہاتھوں والی عورت کون تھی؟
سعید: سرد ہاتھوں والی اجنبی عورت کہو۔۔۔۔۔۔ اجنبی(آہ بھر کر)۔۔۔۔۔۔کرشن تم نہیں جانتے یہ اجنبیت کس قدرپُرلطف شے ہے۔ سوچو تو اگر خدا بھی ہمارے دیس کا ہوتا۔ ہمارا دیکھا بھالا ہوتا تو۔۔۔۔۔۔ تو اس کی خدائی کیسی ہوتی۔۔۔۔۔۔ اجنبیت کیا ہے۔ نہیں تم نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔۔۔ اجنبیت۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ہمارا جسم تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح جس کی سطح پر کوئی اُڑتا اُڑتا پتا آن گرے، کپکپا اُٹھا کرتا ہے۔ یہ کپکپاہٹ جس کا کچھ مطلب ہوتا ہے اور کچھ مطلب نہیں بھی ہوتا۔ یہ کپکپاہٹ جو سرد اورگرم لہروں کا ایک الجھاؤ سا ہوتا ہے(وقفہ) نہیں۔۔۔۔۔۔ اجنبی عورت کی اجنبیت اس سے زیادہ اجنبی ہوتی ہے۔
کرشن: (مذاقیہ انداز میں) ٹھنڈے ہاتھوں والی اجنبی عورت کی اجنبیت۔ ظاہر ہے اس سے بھی زیادہ اجنبی ہوتی ہوگی اور سرد بھی۔
سعید: (کھوئے ہوئے انداز میں) گورے گورے ٹھنڈے ہاتھ اور ان پر پھیلی ہوئی نیلی رگیں جیسے برف میں نیلم کی لکیریں۔۔۔۔۔۔ ان نیلی رگوں میں کہیں کہیں ہانپتی ہوئی بلبل کے سینے کی سی پھڑپھڑاہٹ۔۔۔۔۔۔ نہیں میں کہیں بہک نہ جاؤں۔
کرشن: آپ کو یہ اندیشہ بہت بعد میں ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ بہک چکے ہیں نہیں، بہکے ہوئے ہیں۔
سعید: یہ سن کر مجھے تعجب نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ جب تک اس دنیا میں عورت شراب اور پھول موجود ہیں۔ انسان ضرور بہکیں گے اور بہکا ہوا انسان عورت۔ شراب اور پھول سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے۔
(موسیقی دھیمے دھیمے سر جن میں انبساط کروٹیں لے۔۔۔۔۔۔ ایسا انبساط جس میں دبے دبے درد کی جھلک بھی ہو۔۔۔۔۔۔ عورت کی ہنسی بکھر سی جائے۔ یہ ہنسی معصومانہ ہو۔۔۔۔۔۔ چند لمحات تک یہ نغمہ جاری رہے اور آہستہ آہستہ دھیما ہو کربیک گراؤنڈ میں چلا جائے۔)
ثُریّا: میں بہک رہی ہوں۔
سعید: تمہاری زندگی نیا لباس پہن رہی ہے۔
ثُریّا: مجھے حجاب محسوس ہوتا ہے۔
سعید: یہ نئے کپڑوں کا قصور ہے۔
ثُریّا: اف میرے ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہیں۔
سعید: میرے ہاتھوں میں دے دو۔۔۔۔۔۔جوانی کے خیالوں کی سی گرمی تم ان میں پاؤ گی۔
(ثریا سردی کے باعث’’سی سی‘‘ کرتی ہے)
ثُریّا: آہ۔۔۔ تمہارے ہاتھ۔۔۔۔۔۔ گرم ہیں۔۔۔۔۔۔ ماں کی گود کی طرح۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے۔ میری ماں بھی ہوا کرتی تھی۔
سعید: ایک میری بھی تھی۔۔۔۔۔۔ مائیں سب کی ہوتی ہیں مگر مصیبت یہ ہے ان میں سے اکثر مر جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ میری ماں کو مرے اتنے ہی برس ہوگئے ہیں جتنے مجھے زندہ رہتے۔
ثُریّا: (ہلکی سی ہنسی) تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم دلچسپ آدمی ہو۔۔۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے؟
سعید: میرا نام۔۔۔۔۔۔ بھئی حد ہوگئی۔۔۔۔۔۔ پہلے تم اپنا بتاؤ۔
ثُریّا: (سی سی کرتی ہے) سردی زیادہ ہوگئی ہے۔
سعید: انگیٹھی میں کوئلے اور ڈال دیتا ہوں۔
ثُریّا: ختم ہوگئے تو کیا کرو گے۔
سعید: کچھ بھی نہیں، ختم ہو جائیں گے تو۔۔۔۔۔۔ ختم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔(وقفہ) لیکن میرے پاس کاغذوں کا ایک انبار موجود ہے۔ اس کو جلانا شروع کردوں گا۔
ثُریّا: لیکن ان کاغذوں پر تو شعر لکھے ہوئے ہیں۔
سعید: اسی لیئے تو کہتا ہوں کہ جلانے کے لیئے اچھے رہیں گے۔ تمہارے آنے سے پہلے میں ان شعروں کو بہت سنبھال کے رکھتا تھا پر تمہارے آنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے ہر ایک لکڑی کا کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔ لکڑی جلانے ہی کے کام تو آتی ہے۔
ثُریّا: دھواں دے گی۔
سعید: (وقفہ)۔۔۔۔۔۔تمہارا نام کیا ہے۔
ثُریّا: میرا نام۔۔۔۔۔۔میرا نام۔۔۔۔۔۔دیکھو تم نے ابھی تک انگیٹھی میں کوئلے نہیں ڈالے میں یہ سردی برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھ۔۔۔۔۔۔دیکھو میرے ہاتھ پھر یخ ہوگئے۔۔۔۔۔۔ لاؤ مجھے اپنے ہاتھ دو۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں تمہارے ہاتھ۔
سعید: یہ رہے۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔ کمرے میں روشنی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک، لالٹین کونے میں پڑی ہے۔ اس کی کپی کا تلا ٹوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر میں اس اندھیرے میں تمہیں دیکھتا کیسے رہا۔۔۔۔۔۔ بخدا تمہارے چہرے کا ایک ایک خط میں نے غور سے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔تمہارا تل۔۔۔۔۔۔
ثُریّا: کہاں پر ہے یہ میرا تل؟
سعید: گویا میں نے دیکھا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں ابھی ابھی تمہارا یہ تل چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ کہاں پر تھا؟ ہونٹوں کی اختتامی تکون کے اوپر۔ دائیں آنکھ کی پتلی کی سیدھ میں یعنی اوپرسے اگر عمود گرایا جائے تو اس تل کو ضرور چھوئے۔۔۔۔۔۔کیا غلط کہتا ہوں؟
ثُریّا: بالکل غلط۔
سعید: تو پھرمیں نے کہاں دیکھا تھا۔
ثُریّا: یہ تل ٹھیک اسی جگہ تمہارے چہرے پر ہے۔
سعید: میرے چہرے پر؟۔۔۔۔۔۔ نہیں ایساہرگز نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ارے۔۔۔۔۔۔تم شاید ٹھیک کہتی ہو۔ اب مجھے یاد آیا۔ یہ تل میرے ہی چہرے پر ہے۔ کل جب تم برفانی رات میں مجھ سے ملی تھیں اور میں نے ماچس جلا کر تمہاری طرف دیکھا تو مجھے تمہارے ہونٹوں کے اختتامی کونوں کے اوپر کی جگہ بہت پسند آئی تھی۔ اور میں نے سوچا کہ اگر وہ تل جو میرے چہرے پر بیکار پڑا ہے اڑ کر وہاں چلا جائے تو کیسا بھلا معلوم ہو۔۔۔۔۔۔(وقفہ) وہاں تل ضرور ہونا چاہیئے۔ خواہ میرا ہو یا تمہارا اپنا۔
ثُریّا: وہاں تل کا ہونا ضروری کیوں ہے؟
سعید: ارے بھئی۔ وہاں تل کا ہونا اشد ضروری ہے۔ اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔ دیکھو۔۔۔۔۔۔ ٹھہرو تمہیں تصویر بنا کر سمجھاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن تم دیکھو گی کیسے؟۔۔۔۔۔۔ یہاں تو سخت اندھیرا ہے۔۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔۔۔۔۔۔تل کا ہونا وہاں بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے سخت روحانی کوفت ہوگی اگر وہاں تل نہ ہوا۔
ثُریّا: تمہیں روحانی کوفت نہیں ہوگی اس لیئے کہ تل وہاں موجود ہے۔
سعید: ہونا چا ہیئے تھا۔۔۔۔۔۔ اگر نہ ہوتا تو بھی ہوتا(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن تم نے جھوٹ کیوں بولا۔
ثُریّا: اس لیئے کہ یہ تل سے زیادہ خوبصورت چیز ہے۔۔۔۔۔۔ میرا دل چاہتا تھا کہ تمہیں چھیڑوں۔۔۔۔۔۔ میں بڑی شریر ہوں(ہنسی)
سعید: تمہیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ داناؤں نے کہا ہے کہ جھوٹ نقصان دہ ہوتا ہے۔
ثُریّا: یہ سب سے بڑا اور سب سے خوبصورت جھوٹ ہے جو داناؤں نے بولا۔۔۔۔۔۔ لیکن میں پوچھتی ہوں تم نے جھوٹ کیوں بولا؟۔۔۔۔۔۔ ابھی ابھی تم کہہ رہے تھے کہ تمہارے ہونٹوں کے اوپر واقعی ایک تل موجود ہے۔ کیا میں دیکھ سکتی ہوں۔
سعید: (بوکھلا کر) بھئی نہیں ہوگا اور بہت ممکن ہے کہ ہو۔۔۔۔۔۔ بہرحال کہیں نہ کہیں ضرور ہے۔۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ میں اپنا چہرہ بہت کم دیکھا کرتا ہوں آئینے سے مجھے نفرت ہے۔ اس میں اصل شکل نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔ میں نے جب اپنا چہرہ اس میں دیکھا مجھے ایسا لگا کہ اس پر کسی نے قلعی کردی ہے۔ لعنت بھیجو ایسی واہیات چیز پر۔۔۔۔۔۔ جب آئینہ نہیں تھا ۔ لوگ زیادہ خوبصورت تھے اب آئینہ موجود ہے۔ مگر لوگ خوبصورت نہیں رہے۔
۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔
ثُریّا: سردی ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔کوئلے ختم ہوگئے تو؟
سعید: (اپنے خیال میں)۔۔۔۔۔۔تومیں آئینے جلانا شروع کردوں گا۔
ثُریّا: آئینے؟
سعید: اور کیا۔۔۔۔۔۔ نہیں میں بھولا۔۔۔۔۔۔ آئینے نہیں وہ کاغذ جن پر میں نے شعر لکھے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ شعر آئینوں سے بھی بدتر ہیں۔
ثُریّا: (ہنستی ہے)۔۔۔۔۔۔تم بہت دلچسپ آدمی ہو۔۔۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن کوئلے؟
(ایسا نغمہ شروع ہو جس کےُ سر شروع میں بلند ہوں مگر بیچ بیچ میں دھیمے ہو جائیں۔ ایسا معلوم ہو کہ سازوں میں سر باقی نہیں رہے۔ موسیقی کے اس ٹکڑے کے دوران میں کہیں کہیں یہ آواز آتی رہے۔’’لیکن کوئلے۔۔۔۔۔۔لیکن کوئلے۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ آواز سعید کی ہو۔)
سعید: ۔۔۔۔۔۔لیکن کوئلے۔۔۔۔۔۔لیکن کوئلے۔۔۔۔۔۔کتنا اہم سوال ہے۔
(وقفہ)
کرشن یہ شاعری سب بکواس ہے آدھ سیر کوئلے شاعر کے دودیوانوں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک جلتے ہیں اور زیادہ گرمی پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ٹھنڈے ٹھنڈے گورے ہاتھ جن پر نیلی لکیروں کا جال سا بنا ہو ضرور گرم ہونے چاہئیں۔
کرشن: ضرور گرم ہونے چاہئیں۔۔۔۔۔۔تمہارے چار دیوان کیا ان دو ہاتھوں کو گرم نہیں کرسکے۔
سعید: (آہ بھر کر) نہیں۔۔۔۔۔۔ کاش میں نے شاعری کے بجائے کوئلے چننے کا کام کیا ہوتا۔ اب تک میں نے چار بوریاں بھرلی ہوتیں۔۔۔۔۔۔
(وقفہ)
کرشن: کس سوچ میں پڑ گئے۔
سعید: سوچ رہا تھا اگر چار بوریاں کوئلوں سے بھرلی ہوتیں تو اس عورت کو شعروں کی ضرورت ہوتی۔۔۔۔۔۔ ٹھنڈے شعروں کی۔۔۔۔۔۔ میں ایسی کئی عورتوں کو جانتا ہوں جو شعروں کو ملائی برف کی طرح پلیٹ میں ڈال کر چمچے سے کھانا پسند کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔(وقفہ) عورت نرالی ہے یا وہ جو عورتوں کو بناتا ہے، نرالا ہے۔
کرشن: دونوں نرالے ہیں۔ اس لیئے کہ دونوں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔
سعید: لوگ کہتے ہیں کہ شاعر دونوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔
کرشن: یہ بھی شاعری ہے۔
سعید: لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے عورت کو سمجھنے کا گر پالیا ہے۔
کرشن: بتاؤ وہ گرکیا ہے۔
سعید: اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔
(دونوں ہنستے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس ہنسی کے ساتھ ہی طرب انگیز موسیقی کا ٹکڑا شروع ہو۔ آخر میں ثُریّاکے ہنسنے کی آواز آئے)
سعید: ہر شے جو میرے گردوپیش ہے یہ کہتی ہے مجھے سمجھو۔۔۔۔۔۔اس انگیٹھی کا ہر بجھتا ہوا کوئلہ بھی یہی کہتا ہے مجھے سمجھو۔۔۔۔۔۔ دُور آسمان پر ٹھٹھرے ہوئے تارے بھی اسی تمنا میں ٹمٹما رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ چاند۔۔۔۔۔۔یہ نقرئی طشتری میں جما ہوا پانی۔ یہ بھی تو کہتا ہے مجھے سمجھو۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھوں پر یہ نیلی نیلی رگیں جو کنوارے خیالوں کی طرح معصوم ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا ان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنی چاہیئے۔
ثُریّا: کھڑکی بند کردو۔۔۔۔۔۔چاند کی شعاعیں سردی میں اضافہ کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔ کوئلے؟۔۔۔۔۔۔ بس یہ آخری کوئلے تھے کیا؟
سعید: ہاں۔۔۔۔۔۔آخری تھے۔
ثُریّا: تو اب کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔سعید۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھ۔۔۔۔۔۔ ہائے۔ میرے ہاتھوں کا کیا ہوگا۔
سعید: میرا نام تمہیں کیسے معلوم ہوا۔
ثُریّا: کیا تمہارا نام سعید ہے۔
سعید: سعید ہی تو ہے۔۔۔۔۔۔ اور ہو بھی کیا سکتا ہے پر تمہیں کیسے معلوم ہوا۔
ثُریّا: (ہنستی ہے) ایک نجومی نے مجھ سے کہا تھا۔ ان سردیوں میں تیری زندگی کے اندر ایک ساعتِ سعید آئے گی۔۔۔۔۔۔ یہ چند گھڑیاں جن میں میرے ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ آگ تاپتے رہے ہیں۔
سعید: ثریا۔۔۔۔۔۔ثریا۔۔۔۔۔۔(رُک کر)۔۔۔۔۔۔کاش میرے پاس اور کوئلے ہوتے۔
ثُریّا: (چونک کر) لیکن یہ تو میرا نام ہے۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میرا نام ثُریّا ہے۔
سعید: یہ تارہ بہت اونچا ہے۔ ناقابلِ رسا اور بہت خوبصورت۔۔۔۔۔۔
ثُریّا: کیا میں خوبصورت ہوں؟
سعید: خوبصورت بھی اور ناقابل رسا بھی۔
ثُریّا: خوبصورت عورتوں سے تو لوگ محبت کرتے آئے ہیں۔ تم مجھ سے محبت کیوں نہیں کرتے(بدلے ہوئے لہجے میں)۔۔۔۔۔۔ تم نے اب تک یہ راز مجھ سے کیوں چھپائے رکھا کہ میں خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔ آج جب کہ کوئلے ختم ہوچکے ہیں اور میری انگلیاں برف کی ڈلیاں بن رہی ہیں تم نے مجھے بتایا کہ میں خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔ میں خوش نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ میں تم سے ناراض ہورہی ہوں۔۔۔۔۔۔سچ کہتی ہو۔ تم سے ناراض ہونے کے لیئے میں نے اپنے آپ کو بالکل تیار کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں عنقریب تم سے بگڑنے والی ہوں۔۔۔۔۔۔(وقفہ۔۔۔۔۔۔لہجہ بدل جاتا ہے) اچھا یہ بتاؤ۔ میں کتنی خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔تمہیں اندازہ تو ہوگا۔
سعید: (توقف کے بعد)۔۔۔۔۔۔کاغذ جلا دوں۔۔۔۔۔۔ کوئلے بجھ رہے ہیں۔
ثُریّا: پہلے یہ بتاؤ میں کتنی خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔ تمہیں میری جان کی قسم ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔ میں کتنی خوبصورت ہوں۔
(چند لمحات کے لیئے خاموشی)
ثُریّا: بتاتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔آہ۔ میں سمجھ گئی۔ تم کبھی نہیں بتاؤ گے۔ تم نہیں چاہتے کہ مجھے اپنے حسن کا ٹھیک اندازہ ہو۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم حاسد ہو۔۔۔۔۔۔چونکہ آج تک کوئی خوبصورت عورت تمہاری زندگی میں نہیں آئی اس لیئے تم چاہتے ہو کہ مجھے میرے حسن سے غافل رکھو۔۔۔۔۔۔ اس غفلت کا تم ناجائر فائدہ اٹھانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں خوبصورت ہوں۔ تمہارے اس دباؤ سے میرا حُسن دب تو نہیں جائے گا۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھوں کی نیلی رگیں۔۔۔۔۔۔کیا کہا تھا ایک بارتم نے۔۔۔۔۔۔برف میں نیلم کی لکیریں۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ یہ ان سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔۔۔۔۔۔ اور میرا تل۔۔۔۔۔۔ ہونٹوں کے اختتامی کونے کے اوپر وہ ننھا سا نقطہ۔۔۔۔۔۔ تم مجھے بتا چکے ہو کہ یہ خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ اب یہ اور بھی خوبصورت ہوگا(ہنستی ہے)۔۔۔۔۔۔میں اب سنگھار کیا کروں گی۔ سولہ سنگھار۔ ان سے میری اور بھی چھب نکلے گی۔ تم مجھے نزدیک سے دیکھتے ہو۔ لیکن بہت جلد دُور سے دیکھا کرو گے اور۔۔۔۔۔۔ترسا کرو گے(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ تم مجھے کیوں نہیں بتاتے کہ میں کتنی خوبصورت ہوں۔
سعید: کوئلے بالکل بجھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔انگیٹھی میں آخری چنگاری سفید راکھ کی گرد میں آنکھیں میچ رہی ہے۔
ثُریّا: تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کیا پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔بتاؤ۔۔۔۔۔۔ بتاؤ سعید۔
سعید: لو۔ وہ آخری چنگاری بھی سو گئی۔
ثُریّا: میں تنگ آگئی ہوں۔ سعید میرا جی چاہتا ہے۔ غصیّ میں زور زور سے اپنے پیر اس فرش پر ماروں۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم بہت بدصورت ہو۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔تمہارے پاس نگوڑے کوئلے بھی تو نہیں ہیں جو میں اپنے ہاتھ تاپ سکوں۔۔۔۔۔۔تم کچھ بھی نہیں ہو۔۔۔۔۔۔میں نے غلطی کی جو تمہارے پاس چلی آئی۔۔۔۔۔۔ میں اب فوراً چلی جاؤں گی۔ تمہارے پاس ایک منٹ نہیں ٹھہر سکتی۔(تھوڑا وقفہ)
سعید: (اداس لہجے میں)سچ مچ جارہی ہو۔
ثُریّا: (غصےّ میں) مجھے روکنے والے تم کون؟
سعید: جاتی ہو تو میرا یہ کمبل لیتی جاؤ۔۔۔۔۔۔ باہر ناقابل برداشت سردی ہے۔
ثُریّا: تمہاری اس ہمدردی کا میرے دل پرکوئی اثر نہیں ہوا۔
سعید: کمبل لپیٹ لو کہیں سردی نہ لگ جائے۔
ثُریّا: تم میرے دل و دماغ پر طاری ہونے کی کوشش نہ کرو۔۔۔۔۔۔ تمہارا یہ کمبل مجھے پسند نہیں۔ اس کا رنگ نہایت ہی فضول ہے۔۔۔۔۔۔اچھا تو میں چلی۔
سعید: خدا حافظ۔
ثُریّا: (تنگ آکر)تم کچھ نہ کہو۔۔۔۔۔۔کچھ نہ بولو۔۔۔۔۔۔خاموش رہو۔۔۔۔۔۔ میں جانا چاہتی ہوں۔
سعید: جاؤ۔
(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولنے کی آواز۔۔۔۔۔۔(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ثُریّا کی آواز دُور سے آئے۔
ثُریّا: چلی گئی۔۔۔۔۔۔لیکن اب پھر نہ آؤں گی۔
سعید: جاتے وقت تم بہت زیادہ حسین ہوگئی ہو۔۔۔۔۔۔اتنی خوبصورت تم پہلے کبھی نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔
نوٹ:دھیمے دھیمے سروں میں کوئی ساز بجایا جائے۔ سعید ذیل کے اشعار گائے۔ درد بھری دُھن میں)
موج سی پانی میں اک پیدا ہوئی
بہہ گئی
جیسے اک جھونکا ہوا کا
پاس سے ہو کر نکل جائے کہیں
چند روزہ آرزوؤں کا چراغ
جھلملا کر بجھ گیا۔
فید آؤٹ
- کتاب : منٹو کے ڈرامے
- اشاعت : 1942
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.