سلیمہ
(تالیوں کا شور۔۔۔۔۔۔چند لمحات کے بعد یہ شور بند ہو جائے)
پرنسپل: یہ رسم جب سے میں اس کا پرنسپل مقررّہُوا ہُوں۔ ہر سال باقاعدہ ادا کی جاتی ہے ہر سال اس موقعہ پر تالیوں کے شور کے ساتھ اپنی کرسی سے اُٹھتا ہوں اور قریب قریب وہی تقریر کرتا ہوں جو میں نے آج سے دس سال پہلے کی تھی تمہیں دیکھ کر میرے دل میں وہی جذبات پیدا ہوتے ہیں جو اس سلسلے کے آغاز پرہوئے تھے۔ آج جب میں نے اس پر غور کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں پوسٹ ماسٹرہوں اور کالج کی یہ بلڈنگ بہت بڑا ڈاک خانہ۔ تم سب خطوط ہو جوکچھ دیر اس بلڈنگ میں رہ کر اپنے اپنے ٹھکانے پہنچا دیئے جاتے ہو، تم میں سے کوئی بیرنگ ہو جاتے ہیں جس کے باعث تمہارے والدین کوجرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ غلط ایڈریس کی وجہ سے اِدھراُدھر بھٹکتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بہرحال یہ کھیل ہے بہت دلچسپ۔۔۔۔۔۔ہر سال امتحانوں کا ایک چکر شروع ہوتا ہے اس میں کچھ کامیاب ہوتے ہیں کچھ ناکام، مسرت اور غم کی ملی جلی لہریں،میں ہرسال دیکھتا ہوں اس وقت میرے سامنے ایسے کئی چہرے ہیں جو کامیابی کے باعث تمتما رہے ہیں۔ اس کے ساتھ میں ایسے چہرے بھی دیکھ رہا ہوں جو ناکامیابی کے صدمے سے مرجھائے ہوئے ہیں خزاں اور بہار کا مِلا جُلا موسم ہر سال آتا ہے اور چند دنوں کے بعد گزر جاتا ہے۔وہ لڑکیاں اور لڑکے جو’’ بی اے‘‘ کا امتحان پاس کرچکے ہیں تو اونچی تعلیم حاصل کرنے کے لیئے کسی بڑے کالج میں داخل ہو جائیں گے یا تعلیم کا سلسلہ ختم کرکے دنیوی کاموں میں مصروف ہو جائیں گے۔یہ جو اس امتحان کی دیوار نہیں پھاند سکے وہ دوبارہ کوشش کریں گے۔۔۔۔۔۔ جو یہاں سے جارہے ہیں ان کو میں الوداع کہتا ہوں اور ان کی کامیاب زندگی کے لیئے دعا کرتا ہوں جو نئے آئے ہیں میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ان کے فائدے کے لیئے کہتا ہوں کہ اس تعلیم گاہ میں داخل ہوتے وقت ان لوگوں کو ایک نظرضرور دیکھ لیں جو باہر جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو خواہش کے باوجود اپنی کمزوریوں کے باعث یا کسی اوروجہ سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ان سے مجھے پوری پوری ہمدردی ہے۔ خاص طور پر مجھے سلیمہ سے بہت ہمدردی ہے۔جومحنت کرنے کے باوجود اس سال بھی امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب میں اپنی تقریرکو ختم کرتا ہوں۔خُدا کرئے، آئندہ سال سلیمہ کامیاب ہو جائے۔
(تالیوں کا شور، اس کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کی ملی جلی آوازیں)
(آہستہ آہستہ ان آوازوں کو مدھم کردیا جائے اور ذیل کا مکاملہ سپر امپوز کیا جائے)
ذکیہ: نرملا۔۔۔۔۔۔کیا سلیمہ ہال میں موجود تھی؟
نرملا: نہیں تو۔ کیوں اوشا۔۔۔۔۔۔ کیا سلیمہ موجود تھی؟
اوشا: نہیں۔
ذکیہ: میرا خیال ہے وہ آئی ہی نہیں۔
نرملا: بے چاری کو دُکھ بہت ہوا ہوگا۔
ذکیہ: ایک بار فیل ہونے ہی سے آدمی کی کمرٹوٹ جاتی ہے وہ تو دوسری دفعہ فیل ہوئی ہے۔
نرملا: محنت تو بے حد کرتی ہے۔
ذکیہ: اصل میں یہ سب اس کے مزاج کی خرابی کا نتیجہ ہے کسی سے مدد لینا کوئی گناہ تو نہیں۔ امتحان شروع ہونے سے پہلے میں نے کئی بار اس سے کہا۔ سلیمہ تم میرے گھر آجایا کرو میں تمہیں ساری اکنامکس از بریاد کرادوں گی۔ بس یہ سنتے ہی جیسے اس کے مرچیں لگ گئیں: تم اپنے آپ کو بہت زیادہ سمجھنے لگی ہو ذکیہ۔ تمہارے بغیر گویا اکنامکس کسی کو یاد ہی نہیں ہوسکتی یعنی ایک صرف تم ہی ہو جسے اکنامکس آتی ہے میں تو بالکل گدھی ہوں،بے وقوف ہوں۔ اب نرملا تم ہی کہو میں نے کیا اسے چھیڑنے کے لیئے اپنی مدد پیش کی تھی یہ تو سب جانتے ہیں کہ وہ اکنامکس میں بالکل صفرہے۔ بس دماغ ہی جو ایسا پایا ہے کوئی اچھی بات کرئے تو اسے بُری لگتی ہے۔
نرملا: میرے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔ میں نے کہا: ایسا نہ ہو کہ تمہارا سا ےئکالوجی کا پیپر کمزور رہ جائے کہو تو میں تمہیں اپنا نوٹ لادوں۔ بس یہ سُنتے ہی بگڑ گئی: نوٹوں کی تو اس کو ضرورت ہو جوکتاب سے کچھ سیکھ نہ سکے اور اگرمجھے نوٹ کی ضرورت ہوئی تو میں خود خرید لُوں گی۔ میں اتنی گئی گزری تو نہیں ہوں یہ نوٹ جوتم مجھے دینا چاہتی ہو دو روپے دس آنے کا آتا ہے کوئی اتنی بڑی رقم خرچ تو نہیں ہوتی۔ بھئی وہ دن اور یہ دن میری جان جلے جو میں نے پھر اس سے ایسی بات کی ہو۔
اوشا: کسی کو کیا پڑی ہے جو۔۔۔۔۔۔
ذکیہ: پڑی وڑی کی بات نہیں اوشا۔ ہمارے دل پتھر کے توہیں نہیں اس کو دیکھ کر کسے دُکھ نہیں ہوتا اور جب دکھ ہو تو منہ سے ہمدردی کا کلمہ نکل ہی جاتا ہے۔
نرملا: پر اسے ہمدردی کی ضرورت بھی ہو۔۔۔۔۔۔ وہ تو کاٹنے کو دوڑتی ہے اگر اس سے ہمدردی کا ایک لفظ بھی کہہ دیا جائے۔
ذکیہ: جانے اس کے مزاج میں یہ تلخی کہاں سے آگئی۔
اوشا: اس تلخی کو چھوڑو۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ بے حد غریب ہے لیکن اگر اس سے کہو سلیمہ تم ہرروز یہ سبز ساڑھی کیوں پہن کر آتی ہو تو فوراً بگڑ کر جواب دے گی میرے پاس ایسی ایک نہیں کئی ساڑھیاں ہیں۔مجھے یہ خاص کپڑا اور خاص رنگ بہت پسند ہے پرماتما جھوٹ نہ بلوائے تو اس کے پاس اس ساڑھی کے سوا ایک چندی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
نرملا: سر میں تیل لگائے گی ایسا بدبودار کہ ناک پھٹ جائے پر اس سے پوچھو تو یہی کہے گی کہ یہ خاص تیل ہے اس سے بال لمبے ہوتے ہیں۔ مجھے ایسے بھی خو شبودار تیل پسند نہیں۔ لگاؤ تو زکام ہو جاتا ہے۔
اوشا: بی مینڈکی کو بات بات پر زُکام کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔۔۔۔۔۔توبہ ہے بھئی۔
ذکیہ: اور دیکھو سب لوگ آئے پر وہ زُکام کی بچی نہیں آئی۔
(وقفہ)
خواہ مخواہ میں نے اُسے گالی دی۔اللہ کی قسم، مجھے دُکھ ہوا۔ نرملا سچ کہتی ہوں اس کا وحشیانہ پن دُورہو جائے تو اس ایسی اچھی سہیلی تمہیں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گی مگر مصیبت تو یہ ہے کہ بات بات پر بگڑ جاتی ہے ہر وقت بھری بندوق بنی رہتی ہے اس کا کیا علاج کیا جائے۔
(قدموں کی چاپ)
انور: کس کا علاج۔۔۔۔۔۔
ذکیہ: ہم سلیمہ کا ذکر کررہے ہیں۔ آپ دوستوں وغیرہ سے مل چکے؟
انور: جی ہاں، تو آپ سلیمہ کا ذکرکررہی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر یہ علاج کا قصہ کیا تھا؟
ذکیہ: (ہنستی ہے) کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ اچھا تو اب کس کالج میں داخل ہو جئے گا۔
انور: جس میں آپ کہیں؟
ذکیہ: نرملا، سُنا تم نے، یہ آج۔۔۔۔۔۔ایک نیا فراڈ چلا ر ہے ہیں ہر ایک سے یہ ہی کہتے پھرتے ہیں، جس میں آپ کہیں۔۔۔۔۔۔
(سب ہنستے ہیں)
انور: آپ سلیمہ کی باتیں کررہے تھے۔
ذکیہ: جی ہاں!
انور: آپ؟
ذکیہ: میں جی اس کی باتیں کررہی تھی۔
انور: اور آپ؟
اوشا: اس گفتگو میں میں بھی شامل تھی۔
ذکیہ: آپ تو بالکل پولیس انسپکٹربن رہے ہیں۔
انور: جی نہیں۔ میرے دخل در معقولات کی وجہ یہ ہے کہ میں ابھی ابھی سلیمہ سے گفتگو کرکے آرہا ہوں۔۔۔۔۔۔
نرملا: کہاں ہے؟
انور: باہر باغ میں۔
اوشا: چلو، ذکیہ چلیں!
انور: ٹھہرئیے۔
اوشا: فرمائیے۔
انور: اس وقت اگر آپ اس کے پاس نہ جائیے تو اچھا ہے اس کی طبیعت بے حد مغموم ہے۔ صدمے نے اس کے دماغ کو درہم برہم کر رکھا ہے۔ وہ آپ لوگوں سے اچھی طرح گفتگو نہ کرسکے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا چُبھتاہوا لفظ کہہ دے جس سے آپ میں سے کسی کو رنج پہنچے وہ اس وقت بالکل بھری بیٹھی ہے۔ اگر کسی نے اس کو چھیڑا تو آفت برپا ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔
ذکیہ: یہ بڑی مصیبت ہے اب اگر کوئی اس سے ہمدردی کا اظہار کرنا چاہے توکیا کرئے۔
انور: خاموش رہے۔
ذکیہ: کیسے؟
انور: بالکل میری طرح۔۔۔۔۔۔ باغیچے کی طرف سے میرا گزر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ وہ جھاڑی کی چھاؤں تلے بیٹھی ہے اس کی آنکھوں میں دومکمل آنسو دیکھ کر ہی میرے قدم رک گئے اس نے میری طرف دیکھا۔ میں فوراًسمجھ گیا کہ وہ دماغی اضطراب کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آنا چاہتے ہیں مگروہ انہیں روک رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ اس کی کمزوری کا اظہار کسی غیرشخص پرہو جائے۔ میں نے اس وقت عجیب و غریب بات محسوس کی کہ وہ خود کو بھی غیر سمجھ رہی ہے وہ اپنی آنکھوں کو بھی نہیں بتانا چاہتی اس کے حوصلے اور اس قوت ارادی کا میں ہمیشہ معترف رہا ہوں لیکن اگر میں اس کے پاس چلا جاتا تو وہ پہاڑ جو اس نے اتنی محنت سے کھڑا کیا تھا یقیناً ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ اس ڈر کے مارے اس کے پاس نہ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور میں نے اس کی طرف۔ اس کے نامکمل آنسو تکمیل کی آرزو میں تڑپ گئے اور میں یہاں چلا آیا۔
ذکیہ: آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اس کے پاس جاؤں تو وہ مجھے مارے گی؟
انور: میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اس وقت غضب ناک حالت میں ہے ناکامی پر ان آدمیوں کی اکثر یہی حالت ہوا کرتی ہے جنہیں اپنے اوپر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔وہ ناکامی کو اکثر چھوٹی سی گیند سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اسے ایک ہی ٹھوکر سے پرے ہٹا کر اپنا راستہ صاف کرلیں گے مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ گیند زمین میں گڑ جاتی ہے اور زور زورسے ٹھوکریں مارنے پر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتی لیکن شاید میرا خیال غلط ہو۔۔۔۔۔۔ میں دراصل کوشش کے باوجود سلیمہ کو نہیں سمجھ سکا۔
ذکیہ: ہم سب کے لیئے بھی ایک معماّ بنی ہوئی ہے۔
اوشا: یہ تو انور صاحب نے ٹھیک کہا کہ اسے ضرورت سے زیادہ اپنے اوپر اعتماد ہے کیا پتہ ساری خرابی کی یہی جڑ ہو۔
ذکیہ: ہو سکتا ہے۔
انور: میرے اور اس کے تعلقات کسی حد تک خوشگوار رہے ہیں مگر اس کے باوجود میں نے اس وقت اس سے ہمدردی کا اظہارکرنا مناسب خیال نہ کیا۔ آپ لوگوں سے تو اس کی چخ چخ چلتی رہی ہے۔میں سمجھتا ہوں نرملا بہن کو تو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اس صورت میں جب کہ سلیمہ اور آپ کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج حائل رہی ہے۔
ذکیہ: ہمارا اس کے پاس جانا واقعی مناسب نہیں۔
انور: اور میری رائے پر اگر آپ عمل کریں تو اس دروازے سے باہر نکل جائیں ممکن ہے آپ کو دیکھ کر اسے تکلیف پہنچے۔
اوشا: پہنچتی ہے تو پہنچے۔ بھئی میں تو اس دروازے سے باہر جاؤں گی۔ چڑانے کے لیئے بالکل اس کے پاس سے اکڑی ہوئی چلوں گی۔
انور: اوشا! تم نے اسے کلاس میں سب سے زیادہ تنگ کیا ہے۔ اب کالج چھوڑ کر جاتے جاتے اس کے دکھے دل کو اپنی کامیابی کے اظہار سے ٹھیس پہنچانا کیا درست ہوگا؟ ممکن ہے تمہیں اس میں مزا آئے مگر اس کویقینی طور پر دکھ ہوگا، سلیمہ بہت حسّاس لڑکی ہے۔
اوشا: تم ہمیشہ اس کی پخ کرتے رہے ہو لیکن یاد ہے اس روز تمہاری اس حساس لڑکی نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔
انور: (ہنستا ہے) میری حسّاس لڑکی۔۔۔۔۔۔
(سب ہنستے ہیں)
ذکیہ: سچ تو یہ ہے،کلاس میں سلیمہ سے آپ کا سلوک ویسا ہی تھا جیسے ایک باپ کا اپنی بیٹی سے ہوتا ہے۔
انور: (ہنستا ہے) لیکن اس کے باوجود(جیسا کہ اوشا نے ابھی ابھی کہا ہے میری شفقت کو وہ ہمیشہ ٹھکراتی اور میری ہمدردی کو ہمیشہ روندتی رہی ہے)
ذکیہ: ضدی اور بدزبان لڑکیوں سے آپ اور کس قسم کے برتاؤ کی توقع کرسکتے ہیں؟
انور: اس کی ضد اور بدمزاجی سے آپ کی طرح میں بھی واقف ہوں مگر یہ ضد اور بدمزاجی کیسے پیدا ہوئی اس کے متعلق نہ آپ جانتی ہیں نہ میں۔ اب ہم سب یہ کالج چھوڑ کر جارہے ہیں اور وہ اکیلی رہ گئی ہے اجنبیوں کے درمیان۔ ظاہر ہے کہ نئے لوگ اسے بہت زیادہ پریشان کریں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے مزاج میں اور زیادہ چڑچڑاپن پیدا ہو جائے کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس لڑکی کا انجام کیا ہوگا۔ تم لوگوں نے غور نہیں کیا کہ وہ کس قدر دبلی ہوگئی ہے اس کی ہڈیاں باہر نکل آئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کئی برسوں کی بیمار ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ۔۔۔۔۔۔میرے جسم پرکپکپی طاری ہو جاتی ہے جب میں سوچتا ہوں کہ سلیمہ اپنی زندگی کے پُراسرار محاذ پر لڑتی لڑتی تنہا ماری جائے گی۔
ذکیہ: وہ اپنے دل کا حال کسی کو بتائے بھی!
انور: میں تو اس سے کئی بار پوچھ چکا ہوں۔
نرملا: اپنے میلے پیٹی کوٹ کی طرح وہ ہمیشہ اسے چھپائے رکھتی ہے۔
انور: لیکن اس کا دل اس کے پیٹی کوٹ کی طرح میلا نہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے اس کا یقین ہے۔
(دُور سے بہت سے لڑکے لڑکیوں کی ہنسنے کی آوازیں)
انور: ایک گروہ کا گروہ ادھر آرہا ہے۔ آپ چلی جائیں۔ میں نہیں چاہتا کہ سلیمہ کے متعلق یہ لوگ بھی باتیں کریں۔ آپ چلی جائیں۔
(ہجوم کاشورقریب آجاتا ہے۔ نرملا،اوشا اور ذکیہ اس میں شامل ہو جاتی ہیں سب مل کر ایک لہر کی طرح آگے گزر جاتے ہیں آہستہ آہستہ اس شور کو فیڈ آؤٹ کیا جائے۔ اس کے بعد انور کے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔اسے قائم رکھا جائے)
انور: (ہچکچاتے ہوئے)سلیمہ۔۔۔۔۔۔کیا میں تمہارے پاس آسکتا ہوں۔
سلیمہ: (تلخ لہجے میں) تمہیں کس نے روکاہے آنا چاہتے ہوتو آجاؤ۔
انور: (لمبا وقفہ) تم یہاں بہت دیر کی بیٹھی ہو۔
سلیمہ: ہاں، بہت دیر کی بیٹھی ہوں۔ کہتے ہو تو اُٹھ کر چلی جاتی ہوں۔
انور: نہیں، نہیں ۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ تم اٹھ کر چلی جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں دراصل تم سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔
سلیمہ: کیسی باتیں؟
انور: تمہارا لہجہ اس قدر سخت ہے کہ۔۔۔۔۔۔
سلیمہ: بدمزاج جو ٹھہری ۔
انور: نہیں سلیمہ نہیں۔
سلیمہ: تم کہنا کیا چاہتے تھے؟۔۔۔۔۔۔
انور: کوئی خاص بات نہیں۔ بس یونہی تم سے باتیں کرنے کو دل چاہا۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی میں ادھر سے گزرا تھا۔ مگر تم سلیمہ تنہائی میں کیا بالکل نہیں گھبراتی ہو۔
سلیمہ: کیسی تنہائی۔۔۔۔۔۔ میں بالکل تنہا نہیں ہوں۔
انور: (ہنستا ہے) ہاں اب تم تنہا نہیں ہو۔
سلیمہ: اس سے پہلے بھی تنہا نہیں تھی۔ تم چلے جاؤ گے پھربھی میں تنہا نہیں ہوں گی۔۔۔۔۔۔
انور: میرا مطلب یہ ہے کہ تم نے کیوں اپنی طبیعت پر اتنا بوجھ ڈال رکھا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی تنہا ہونے پر بھی ہجوم میں گھرا ہوا ہوسکتا ہے پر تمہارے متعلق میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ تم خوفناک طور پراکیلی ہو تمہارا کوئی دوست نہیں، تمہارا کوئی ہمدرد نہیں۔
سلیمہ: یہاں کالج کی چار دیواری میں اگر میرا کوئی دوست نہیں تو اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ میں خوفناک طور پر اکیلی ہوں۔ میرے دوست ہمدرد ہیں اگر میں چاہتی تو یہاں بھی اپنے دوست پیدا کر لیتی مگر مجھے ان کی ضرورت نہیں اور ہمدرد اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کسی کی حالت قابلِ رحم ہو۔۔۔۔۔۔ میری حالت قابلِ رحم نہیں۔۔۔۔۔۔تم مجھے ہمیشہ غلط سمجھتے رہے ہو۔ تم کیا سب مجھے غلط سمجھتے رہے ہیں۔(ہنستی ) اچھی بھلی ہوں۔ چلتی پھرتی ہوں، بولتی ہوں، ہنستی ہوں، مجھ میں کیا نقص ہے، مجھ میں کیا خرابی ہے جو دوسروں کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ ان لوگوں کے اپنے دماغ کی خرابی کا نتیجہ ہے لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں۔میں جانتی ہوں تم کس غرض سے میرے پاس آئے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہاری ہمدردی میں خلوص ہو مگر مجھے اس کی ضرورت بھی ہو۔۔۔۔۔۔میں اگر دوبارہ فیل ہوگئی تو اس کایہ مطلب نہیں کہ میرا کوئی عزیز مر گیا ہے،میرا بازو ٹوٹ گیا ہے، میں لُولی لنگڑی ہوگئی ہوں اور جو اس کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ میں کند ذہن ہوں وہ بھی دُرست نہیں۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کہیں زیادہ ذہین ہوں۔ کونسی بات ہے جو میرے ذہن میں نہیں آسکتی۔۔۔۔۔۔ تم ہی بتاؤ کلاس میں جب نئے نئے آئے تھے تو کیا میں نے فلسفے کے کئی دقیق نکتے نہیں سمجھائے تھے۔ تم کلاس میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم مانے جانے تھے لیکن میں کئی بار تمہاری غلطیاں نکال چکی ہوں۔ کیا یہ درست نہیں ہے!
انور: سلیمہ! میں تمہارا پیکر خیال توڑنا نہیں چاہتا تھا مگر اب مجبوراً مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ میں ہمیشہ تمہاری حوصلہ افزائی کرتا رہا ہوں۔ فلسفے کے جونکتے تم نے مجھے سمجھائے تھے سرتا سر غلط تھے ایک لفظ بھی تمہارا صحیح نہیں تھا۔ کلاس میں تم میری غلطیاں نکالتی رہی ہو اور میں تسلیم کرتا ہوں صرف اس لیئے کہ تمہارا شغل جاری رہے اور تمہیں ناامیدی نہ ہو۔ آج مجھے افسوس ہوا کہ میرا یہ طرز عمل بالکل غلط تھا تم اپنے آپ کو دھوکا دیتی رہی ہو اور میں تمہاری مدد کرتا رہا ہوں۔ یہ میری خطرناک غلطی تھی۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں نے اُسے دُور کرنے کے لیئے تم سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اپنی ذہانت اور قابلیت کے متعلق تمہارا دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے۔
سلیمہ: میں جانتی تھی، مجھے معلوم تھا کہ تم سب سے بڑے حاسد ہو آج تم نے جو زہر اُگلا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واقعی حاسد ہو۔ چونکہ میں لائق ہوں، ذہین ہوں اورتمہارے مقابلے میں میری ذہنی قوتیں بہت ارفع و اعلیٰ ہیں اس لیئے تم دوسروں کی طرح مجھ سے خار کھاتے ہو۔ کلاس میں اگر میں نے تمہاری طرف کچھ توجہ دی تھی تو اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ تم دوسروں کے مقابلے میں کچھ اچھے تھے اُن کے مقابلے میں تمہارے اندر حسد کا مادہ کچھ کم تھا۔ پر اب معلوم ہوا تم سب سے زیادہ زہریلے ہو۔۔۔۔۔۔ (آواز بھرّا جاتی ہے) کئی بار تمہاری چکنی چیڑی باتیں سُن کر مجھے خیال ہونے لگا کہ شاید تم میرے سچے دوست ہو۔ پر انور! تم نے اپنی اصلیت۔۔۔۔۔۔
انور: سلیمہ!
سلیمہ: (آوا ز بھرّا جاتی ہے) تم نے اس وقت جو نشتر زنی کی ہے اس کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔(رونے لگتی ہے) بالکل اثر نہیں ہوا۔تمہاری کامیابی نے میری ناکامی کا جی بھر کے منہ چڑا لیا ہے۔ اب جاؤ۔ خوشی خوشی اپنے گھر چلے جاؤ۔ آئے تھے وہاں سے ہمدردی کرنے۔۔۔۔۔۔ہمدردی۔۔۔۔۔۔جاؤ اس ہمدردی کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ میرے بوٹ کے تلے ابھی اتنے کمزور نہیں ہوئے جو مجھے تمہاری اس ہمدردی کی ضرورت ہو(پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیتی ہے) مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں، تم سب سمجھتے ہو کہ میں تنہا ہوں، بے یارومددگار ہوں، اپاہج ہوں(روتے روتے ہنستی ہے) اس لیئے تم مجھے خیرات کے طور پر اپنی ہمدردی کے سوکھے ٹکڑے دیتے ہو۔۔۔۔۔۔ میں، میں نہیں چاہتی یہ بھیک۔۔۔۔۔۔ میں نہیں لینا چاہتی یہ۔۔۔۔۔۔یہ خیرات۔۔۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔۔یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔(بہت زور سے رونا شروع کردیتی ہے)
انور: جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن سلیمہ خدا گواہ ہے کہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
سلیمہ: جاؤ جاؤ۔۔۔۔۔۔میں کچھ سننا نہیں چاہتی۔
انور: (افسردگی کے ساتھ) بہت بہتر چلا جاتا ہوں۔
(قدموں کی چاپ اس کے ساتھ ساتھ سلیمہ کی سسکیاں آہستہ آہستہ)
۔۔۔۔۔۔فیڈ آؤٹ۔۔۔۔۔۔
انور کا باپ:تم نے یہ بڑی عجیب و غریب کہانی سنائی۔
انور: اباّجی، کہانی نہیں۔ حقیقت ہے۔
انور کا باپ:کہاں رہتی ہے یہ لڑکی۔۔۔۔۔۔؟
انور: معلوم نہیں، کہاں رہتی ہے؟ کلاس میں کسی کو بھی اس کے گھر کا پتہ معلوم نہیں تھا۔ میں نے کئی بار اس سے پوچھا مگر اس نے بڑی صفائی سے ٹال دیا۔
انور کا باپ:کالج چھوڑ دیا کیا اس نے؟
انور: معلوم نہیں؟ آج تقریباً چھ مہینے کے بعد بمبئی سے یہاں آیا ہوں لیکن میرا خیال ہے اس نے تعلیم ترک نہیں کی ہوگی بہر حال آج کسی سے پتہ نکالوں گا۔۔۔۔۔۔میں اس سے ایک بار پھر ملنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ میری باتوں سے اسے بہت دُکھ پہنچا تھا ا بّا جی۔۔۔۔۔۔ میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔
(نوکر اندر داخل ہوتاہے)
انور: چھوٹے صاحب!ایک لڑکا آپ کے نام خط لایا ہے۔
انور: خط!
انور کا باپ:(نوکر سے خط لے کر) لو یہ رہا۔
انور: (کھولتا ہے،وقفہ) سلیمہ۔۔۔۔۔۔ابّا جی!وہی سلیمہ۔
انور کا باپ:کیا لکھتی ہے؟
انور: (گھبراہٹ میں) مسٹر انور۔۔۔۔۔۔ میں مرنے کے قریب ہوں، آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔
راقم’’سلیمہ‘‘
انور کا باپ:مرنے کے قریب ہے جاؤ، انور بھاگ کر جاؤ۔
نوکر: جو لڑکا خط لایا تھا۔ باہر کھڑا ہے۔
انور: اسے روکے رکھو۔۔۔۔۔۔
انور کا باپ: جاؤ میری موٹر لے جاؤ۔ باہر کھڑی ہے۔
انور: کیا ہوا اُسے؟۔۔۔۔۔۔ میں جاتا ہوں۔
(قدموں کی تیز آواز۔۔۔۔۔۔دروازہ۔۔۔۔۔۔موٹراسٹارٹ ہوتی ہے پھر چلتی ہے۔ چند لمحات کے بعد یہ آواز فیڈ آؤٹ کردی جائے)
(دروازہ کھولنے کی آواز)
انور: سلیمہ، سلیمہ، کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔ارے۔۔۔۔۔۔سلیمہ!
سلیمہ: (نحیف آواز میں)آجاؤ۔۔۔۔۔۔ ادھر میرے پاس آجاؤ۔۔۔۔۔۔
انور: میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔کیا ہوا تمہیں۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔!
سلیمہ: میں بے حد کمزورہوگئی ہوں۔۔۔۔۔۔ہے نا؟۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا تم یہیں ہو گے لیکن نہیں۔ میں ابھی کچھ دیر زندہ رہوں گی،مجھے تم سے چند باتیں کرنی ہیں۔۔۔۔۔۔بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔ادھر ہی بیٹھ جاؤ۔
انور: مَیں۔۔۔۔۔۔مَیں۔۔۔۔۔۔!
سلیمہ: تمہیں حیرت ہورہی ہے اس غلیظ کمرے کو دیکھ لو، اسے نہ دیکھو۔ یہاں جس شے کو بھی دیکھ کے تمہیں حیرت ہوگی۔ سب سے بڑی حیرت انگیز چیز تو میں ہوں۔ مجھے دیکھو اور جتنا حیرت زدہ ہونا چاہو۔ ہو لو۔
انور: مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی قدر سمجھ رہا ہوں۔
سلیمہ: خود سمجھنے کی کوشش نہ کرو، مجھے سمجھانے دو۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں اس دفعہ فلسفے کے دقیق نکتے نہیں سمجھاؤں گی۔ یہ کتابوں کی اُلجھی ہوئی باتیں نہیں، میرے دل کی تحریر ہے جو بے حد شکستہ خط میں لکھی گئی اور کسی نے پڑھی نہیں۔ سچ پوچھو تو جان بوجھ کر میں نے اس بد خطی سے کام لیا۔۔۔۔۔۔میری آواز زیادہ کمزورتو نہیں!سُن رہے ہو نا۔۔۔۔۔۔
انور: سُن رہا ہوں۔۔۔۔۔۔
سلیمہ: انور میری کشتی پاش پاش ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔ پیندے اور پتواروں کے بغیر اسے کئی برس منجدھار میں کھینچتی رہی ہوں پر اب یہ کشتی ہی نہیں رہی۔ اس کو کھینچنے کی قدرت اب بھی میرے بازوؤں میں موجود ہے لیکن میں اب اسے اپنے ساتھ قبر میں لے جاؤں گی انور! کیا وہاں بھی ایسی ہی ٹوٹے ہوئے پیندے اور پتواروں کے بغیر کشتیاں ملیں گی؟۔۔۔۔۔۔ وقفہ۔۔۔تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں تیر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھو ، میری آنکھیں تو بالکل خشک ہیں۔۔۔۔۔۔ہیں نا؟
انور: ہاں بالکل خشک ہیں!
سلیمہ: میں اپنی اِس ٹوٹی ہوئی کشتی کے لیئے اِدھر اُدھر سے چند چیتھڑے اکٹھے کرکے بادبان بناتی رہی ہوں لیکن طوفانوں نے بڑی بے رحمی سے ان کو چیر پھاڑ دیا۔ انور یہ طوفان اس قدر بے رحم کیوں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔انہوں نے کیوں اتنا نہیں سوچا کہ اس لڑکی کے پاس مضبوط کپڑا حاصل کرنے کیلئے دام نہیں تھے۔ انور! میں نے یہ طاقت تسلیم کی ہے پھر یہ ظلم کیوں؟ میں اس اندھیری کوٹھڑی میں تن تنہا مشقت کرتی ر ہی ہوں۔میں نے کسی کے آگے دامن نہیں پھیلایا کیایہ جُرم تھا جو اس کی اتنی کڑی سزا مجھے دی گئی؟ میں نے اپنے تمام لطیف جذبات نکال کر باہر پھینک دیئے کہ یہ میرے راستے میں حائل ہوں گے۔میں نے بھوک اور پیاس سہی۔ میں نے اور بہت سی تکلیفیں برداشت کیں صرف اس لیئے کہ میں ایک بار امتحان پاس کرلوں گی اور خود کمانے کے قابل ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔ لیکن ان تمام قربانیوں کا انجام یہ ہے۔ سوکھے ہوئے ہونٹ، گالوں کی اُبھری ہوئی ہڈیاں اور اندر دھنسی ہوئی آنکھیں۔ ان تمام قربانیوں کا انجام یہ ڈراؤنا بھوت ہے جو تمہارے سامنے لیٹا ہے۔۔۔۔۔۔
(وقفہ)
میں تھوڑی دیر کے بعد سو جاؤں گی۔ وہ لوہا جو میں اتنی دیر اپنی زندگی کی بھٹی میں سُرخ کرکے کُوٹتی رہی اب خود بخود مڑ کر قبرکے دہانے کی طرف جارہا ہے۔ انور! کیا وہاں بھی مجھے یہی بھٹی سُلگانی پڑے گی۔ کیا وہاں پہنچ کر یہ لوہا خود بخود مڑ کر کسی اور کے دہانے کی طرف تو نہیں چلا جائے گا۔ بولو۔۔۔۔۔۔مجھے جواب دو۔۔۔۔۔۔
انور: بڑے بڑے عالم ہی ایسی باتوں کا جواب دے سکتے ہیں۔
سلیمہ: کاش! تم ایسے عالم ہوتے۔۔۔۔۔۔ اب میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ تم نے تو میری کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
انور: کیا چاہتی ہو تم۔۔۔۔۔۔؟
سلیمہ : میں مر رہی ہوں اورتم نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔اب ایسا کرنا کہ میری وہ سبز ساڑھی اور یہ ساری کتابیں یہاں بکھری پڑی ہیں اُٹھا کر میرے ساتھ ہی دفن کردینا۔ ممکن ہے وہاں یہ چیزیں اور بھی زیادہ مہنگی ملیں۔ میں نے بڑی مصیبت سے یہاں سے خریدی تھیں۔۔۔۔۔۔ اور دیکھو کسی اور کو میری موت کی خبر نہ ہو۔۔۔۔۔۔چپکے سے مجھے کہیں دفنا دینا۔ اب مجھ سے زیادہ بولا نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اور بھی کچھ کہنا تھا۔۔۔۔۔۔
انور: یاد کرلو۔۔۔۔۔۔(ایک دم تشویش کے ساتھ)سلیمہ!
سلیمہ: ہاں۔۔۔۔۔۔انور! میرے دماغ پر دُھند سی چھا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ سبز ساڑھی میرے اردگرد لپیٹی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ کتابوں کے ورق پھڑپھڑا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ایک خاموش سی آندھی چل رہی ہے کشتی کا پیندا ٹوٹا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔پتوارندارد۔۔۔۔۔۔انور۔۔۔۔۔۔سو گئے کیا؟
انور: نہیں۔۔۔۔۔۔سلیمہ۔۔۔۔۔۔تمہاری آنکھیں بند ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔
سلیمہ: ہاں!میری اپنی آنکھیں بند ہورہی ہیں۔ لو اب میں رخصت چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔مجھے معاف کردینا۔۔۔۔۔۔ ہاں!مجھے وہ بات یاد آگئی۔۔۔۔۔۔انورسُن رہے ہو؟
انور: سُن رہا ہوں سلیمہ!
سلیمہ: تم بہت اچھے ہو۔۔۔۔۔۔بس مجھے یہی کہنا تھا کہ تم بہت اچھے ہو۔۔۔۔۔۔ تم بہت ہی اچھے ہو۔۔۔۔۔۔
(آواز دھیمی ہو جاتی ہے)
فیڈ آؤٹ
- کتاب : منٹو کے ڈرامے
- اشاعت : 1942
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.