Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تلوّن

MORE BYسعادت حسن منٹو

    بارش کا شور........آہستہ آہستہ یہ شور شدّت پکڑتا ہے۔

    نیلم: (ڈرے ہوئے لہجہ میں)کھڑکی بند کر دو جمیل........باہر رات کا اندھیرا ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہو۔۔۔اُف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے۔

    جمیل: (جلدی سے)اتنی بھیانک نہیں جتنی تمہاری کالی زلفیں ہیں۔

    نیلم: تو ڈرنا چاہیئے آپ کو۔

    جمیل: (ہنستا ہے) ان کالی رسیوں سے جو سانپ کی طرح بل تو کھاتی ہیں مگر ڈس نہیں سکتیں(ہنستا ہے) تمہارے سر کے یہ کالے دھاگے صرف شاعروں ہی کے لیئے جال بن سکتے ہیں نیلم۔۔۔ہاں تو کھڑکی کیا سچ مچ بندکردوں ........ کیا تمہیں واقعی ڈر لگتا ہے؟

    نیلم: اس بھیانک رات سے زیادہ اس وقت مجھے تم سے خوف محسوس ہوتا ہے۔

    (کھڑکی بند کر دیتی ہے)

    جمیل: خوف........ مجھ سے تمہیں خوف محسوس ہوتا ہے........ ہونا چاہیئے اس لیئے کہ خوف ہی تم جیسی عورتوں کو رام کر سکتا ہے........وہ شاعر........وہ شاعر........ کیا نام تھا اُس شاعر کا؟

    نیلم: تم اپنے دوست کو اتنی جلدی بھُول گئے۔

    جمیل: میں اُسے اُس کی موت کے بعد بُھولا ہوں‘ اس لیئے کہ اب اُس کو یاد رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا........ اور تم تو اُسے اُس کی زندگی ہی میں بُھول گئی تھیں۔

    نیلم: خدا کے لیئے........خدا کیلئے گڑے مُردے نہ اُکھاڑو جمیل!

    جمیل: جو تم کفنائے بغیر دفن کر چکی ہو........ نیلم واللہ اگر میں کبھی تمہاری محبت میں گرفتار ہو جاؤں تو مزا آجائے........ تمہیں اپنی اس انگوٹھی میں نگینے کی طرح نہ جڑلوں تو میرا نام جمیل نہیں........ وہ لوگ بیوقوف تھے جو تمہارے عشق میں آہیں بھرتے مر گئے........ مجھے تعجب ہے کہ اُن میں سے کسی نے تمہار گلا کیوں نہیں کاٹ ڈالا۔ یہ سفید سفید گلا جس میں سے تم اتنے اچھے سُر نکال سکتی ہو اور اپنے راگ کا جادو چلاتی ہو۔

    نیلم: تم کیوں نہیں کاٹ ڈالتے۔

    جمیل: اس لیئے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔

    نیلم: مانتی ہوں‘ لیکن پھر تم مجھ میں دلچسپی کیوں لیتے ہو؟

    جمیل: سیاح جب بمبئی میں آتے ہیں تو مالا بار کی پہاڑی پر وہ مقام دیکھنے کے لیئیضرور ٹھہر جاتے ہیں جہاں باؤلا قتل کیا گیا تھا........ میں تم سے ملتا ہوں اس لیئیکہ تم ایک ایسا تاریخی مقام بن گئی ہو جہاں کئی بیوقوفوں نے جان دی ہے۔

    نیلم: تم چاہو تو شاعر بن سکتے ہو۔

    جمیل: مگر تم چاہو تو کچھ بھی نہیں بن سکتیں........ عورت اَزل سے ایک ہی راگ لے کر آتی ہے جسے وہ وقت بے وقت گاتی رہتی ہے........

    بتاؤ تمہارے سازِ حیات میں دھوکے اور فریب کے سوا کیا اور کوئی راگ ہے؟

    نیلم: بہت سے راگ ہیں۔ جب تم مجھ سے محبت کرو گے تو سُناؤں گی........فی الحال یہ چند شعر سُنو۔

    جمیل: کیا اس بے وقوف شاعر کے ہیں؟

    نیلم: نہیں میرے اپنے ہیں۔

    (باجے پر اُنگلیاں چلاتی ہے اور ذیل کے شعر گاتی ہے۔)

    زندگی ایک سرگرانی ہے

    یہ مرا عالم جوانی ہے

    یہ جو پلکوں پہ قطرۂ خوں ہے

    تیرے اکرام کی نشانی ہے

    مُسکرانا جسے نصیب نہ ہو

    وہ جوانی بھی کیا جوانی ہے

    (احمد ندیم قاسمی)

    جمیل: اچھا گاتی ہے........(گلاس میں شراب اُنڈیلتا ہے)........اور یہ شراب بھی بُری نہیں۔

    نیلم: (آخری شعر گاتی ہے)........

    ہے اِن آنکھوں کا رنگ پانی میں ورنہ کیا شراب‘پانی ہے

    جمیل: خودستائی کا دوسرا نام عورت ہے‘کیوں نیلم........؟ اور معلوم ہوتا ہے آج کسی نے تمہاری آنکھوں کی تعریف نہیں کی جب ہی تمہیں ان کا رنگ شراب میں گھولنا پڑا........ بخدا نیلم تم بڑی دلچسپ عورت ہو........ تمہاری پلکوں میں پھنسے ہوئے آنسو دیکھ کر مجھے ریگستان کے کنویں یاد آجاتے ہیں۔ ہاں یہ تو بتاؤ آج تم رو کیوں رہی ہو........ اگر مجھے مرعوب کرنے کے لیئے تم نے یہ آنسو بہائے ہیں تو میں کہوں گاکہ تم نے ناحق تکلیف کی........میرے دل کی چھت ٹپکتی نہیں۔

    نیلم: (باجے کے پردے چھیڑتی ہے اور ایک ٹھنڈی سانس بھرتی ہے جمیل عورتیں روتی ہیں........ جانتے ہو عورتیں کیوں روتی ہیں؟

    جمیل: کہ مرد زیاد ہ شراب پئیں (اور شراب گلاس میں ڈالتا ہے)

    نیلم: (تنگ آکر۔بُلند آواز میں)........ جمیل........(ایک دم آواز دبا کر) اب میں تم سے کیا کہوں جمیل؟

    جمیل: کہو کہ جمیل تم خوبصورت ہو........ تمہاری گفتگو ایسی ہو جیسے شراب کے یہ متحرک بُلبلے........تمہاری جوانی ایسی ہے جیسے اس ساز کے تنے ہوئے تار........ تم عورتوں کا........ تم حسین عورتوں کا ........ کہو کیا کہو گی........ ہاں کہو کہ تم حسین عورتوں کا خوابِ جمیل ہو........ کہو کچھ ایسا ہی کہو اور کہے چلی جاؤ........ اگر عورتیں اپنی تعریف سے خوش ہو سکتی ہیں تو کیا ایک مرد نہیں ہو سکتا........ ہاں یہ تو بتاؤ نیلم‘ آج تمہاری شراب سسکیاں کیوں بھر رہی ہے۔ میں نے دو گھونٹ پیئے ہیں اور مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ میرے حلق سے دو آہیں نیچے اُتر گئی ہیں........ یہ شراب کسی دل جلے کا تحفہ تو نہیں؟

    (کھڑکی ہوا کے دباؤ سے کُھل جاتی ہے بارش کا شور سُنائی دیتا ہے۔)

    جمیل: کھڑکی بند کر دو۔ نیلم۔باہر رات کا اندھیرا ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے........ اُف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے۔

    نیلم: اتنی بھیانک نہیں جتنی تمہاری گفتگو ہے۔

    جمیل: تو مجھ سے ڈرنا چاہیئے تمہیں۔

    نیلم: (ہنستی ہے)ڈرنا چاہیئے........ تمہاری اِن باتوں سے جو بالکل کھوکھلی ہیں (ہنستی ہے) ان چنگاریوں سے جن میں خود بھی جلنے کی قوت نہیں۔ ہاں تو کھڑکی کیا سچ مچ بند کر دوں۔ کیا تمہیں واقعی ڈر لگتا ہے؟

    (کھڑکی بند کر دیتی ہے)

    جمیل: مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام مردوں کی رُوحیں جو تمہاری محبت کا زہر بن کر اس دُنیا سے اُٹھ گئے ہیں۔ آج رات اس کالی بارش میں نہا رہی ہیں........نیلم ذرا خیال تو کرو‘ اگر سچ مچ یہ رُوحیں تمہارا راستہ روک کر کھڑی ہو جائیں تو ........تو........

    نیلم: اگر تمہاری رُوح بھی اس قطار میں ہوئی تو شاید مجھے ایک لمحہ کے لیئے ٹھٹھکناپڑے۔

    جمیل: کیوں؟

    نیلم: اِس کیوں کا جواب اُس وقت دوں گی جب تمہاری رُوح کالی بارش میں نہائے گی اور میرا راستہ روک کر کھڑی ہو جائے گی۔

    جمیل: تم اب دلیر ہو گئی ہو۔

    نیلم: تم اسے دلیری کہتے ہو مگر یہ عورت کی سب سے بڑی بُزدلی ہے۔

    جمیل: کیا؟

    نیلم: یہی........یہی دلیری!

    جمیل: تمہاری باتیں اس وقت شراب کے گھونٹوں سے زیادہ مزادے رہی ہیں۔

    نیلم: تو شراب چھوڑ دو۔ یہی پیو۔

    جمیل: بخدا آج تم نے میری طبیعت خوش کر دی۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں جب میرے ہوش وحواس بجانہ رہے تو چند دنوں کے لیئے تم سے ضرور محبت کروں گا........ جانتی ہو محبت کسے کہتے ہیں؟

    نیلم: ہوش وحواس بجانہ رہنے کی صورت میں کسی عورت سے چند دنوں کے لیئے کھیلنا۔

    جمیل: تمہاری یہ باتیں کسی روز مجھے مجبور کر دیں گی کہ میں........کہ میں........

    نیلم: کہو........کہو۔

    جمیل: کہ میں تمہیں ایک کتاب بنا کر اپنی الماری میں رکھ لوں: تم جیسی عورتوں کو فرصت کے وقت ضرور پڑھنا چاہیئے۔

    نیلم: پہلے قاعدہ تو پڑھ لیا ہوتا۔

    جمیل: ہوشیار طالب علموں کے لیئے ابتدائی معلومات اتنی ضروری نہیں ہوتیں۔

    نیلم: ہائے تمہارے ہوشیاری........تمہیں اس ہوشیاری پر کتنا ناز ہے۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری ہوشیاری کسی عورت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔

    جمیل: میری ہوشمندی ،شاعروں کی ہوشمندی نہیں........ ہاں یہ تو بتاؤ تم نے اس بیچارے شاعر سے اتنا بُرا سلوک کیوں کیا؟

    نیلم: اس لیئے کہ مجھ سے تمہارا سلوک اچھا نہیں تھا۔

    جمیل: یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔

    نیلم: اور نہ کبھی آئے گی........اپنے گھروں میں آسانی کے ساتھ سوٹ کیسوں کا تالا کھولنے والے مرد جب کسی عورت کے دل کا تالا کھولنا چاہیں تو یہی مشکل پیش آیا کرتی ہے۔ اور وہ لوگ جو تم ایسے مشکل پسند ہوتے ہیں۔

    آسانیاں اُن کے لیئے دشواریاں ہوتی ہیں۔

    جمیل: کون سی آسان بات سمجھنا میرے لیئے دشوار ہے؟

    نیلم: کہ تمہارے بُرے سلوک نے مجھے تمہارے شاعر دوست سے بُرا سلوک کرنے پر مجبور کیا۔

    جمیل: کتنی آزادانہ مجبوری ہے۔

    نیلم : تمہیں سیدھی سادھی بات میں اُلجھاؤ پیدا کر کے شاید لُطف آتا ہے........ لیکن یاد رکھو کسی روز تم خود ان بُھول بھلیوں میں ایسے پھنسو گے کہ نکلنے کا نام نہ لو گے........ حقائق کا ہر وقت مُنہ چڑانا بھی اچھا نہیں۔ تم جانتے ہو........ نہیں تم محسوس کرتے ہو اس لیئے کہ محسوس کرنا جاننے سے بہت بہتر ہے کہ تمہارے دوست شاعر کی محبت کو میں نے صرف اس لیئے ٹھکرا دیا کہ تمہاری ٹھوکروں سے مجھے پیار ہو گیا تھا۔

    جمیل: میں زیادہ شراب تو نہیں پی گیا؟

    نیلم: نہیں تم نے صرف دو گلاس پیئے ہیں........ مدہوش میں ہو رہی ہوں۔

    جمیل: تو پھر کوئی حرج نہیں........ کہو کیا کہہ رہی تھیں۔ تم نے میرے شاعر دوست کی محبت کو صرف اس لیئے ٹھکرا دیا کہ میری ٹھوکروں سے تمہیں پیارہو گیا تھا........ ہاں پھر کیا ہوا؟

    نیلم: جو ہونا تھا۔

    جمیل: یعنی۔

    نیلم: شاعروں کے سینکڑوں شعر میں ہر روز پھانکتی رہی مگر میرے دل میں محبت کی شعریت پیدا نہ ہوئی اور تمہاری خُشک باتوں نے........ (کھڑکی شور کے ساتھ کھلتی ہے ہوا کی دبیز سیٹیاں کمرے میں پھیل جاتی ہیں۔ عباس کھڑکی کے راستے اندر داخل ہوتا ہے۔ نیلم چیختی ہے)........عباس!

    عباس: (زور سے کھڑکی بند کر دیتا ہے اور فرش پر اپنے وزنی بوٹوں سے چلتا نیلم کے پاس آجاتا ہے)........ ہاں شاعر عباس ........مگر یہ چیخ کیسی........کیا پُرانے دوستوں کا استقبال ایسی چیخوں سے کیا جاتا ہے؟اور جمیل تم کیوں ڈر گئے........ کیا میں تمہارا عزیز دوست عباس نہیں ہوں جس کے سینکڑوں شعر ہر روز پھانکنے پر بھی نیلم کے دل کا ہاضمہ درست نہیں ہوا........خبردار جو تم اپنی جگہ سے ہلے........ میرا پستول شعر نہیں کہتا۔ ایسا نہ ہو کہ اس سے بد کلامی ہو جائے........ ہاں کہو نیلم تم کیا کہہ رہی تھیں........ جمیل کی خشک باتوں نے ........ جمیل کی خُشک باتوں نے کیا کیا؟

    نیلم: (بھنچے ہوئے لہجہ میں)........عباس تم زندہ ہو؟

    عباس: مجھے خود تو یہی محسوس ہوتا ہے۔

    جمیل: ریل گاڑی کے حادثہ میں تمہارے مر جانے کی افواہ........‘

    عباس: غلط تھی لیکن آج شب کے حادثے میں تمہارے مر جانے کی افواہ غلط نہ ہو گی۔

    جمیل: تو مجھے ابھی ابھی وصیت کر دینا چاہیئے اور اپنی ساری جائداد تمہارے حق میں محفوظ کر دینا چاہیئے۔

    عباس: تمہاری جا ئداد........کیا ہے تمہاری جائداد؟

    جمیل: میری خُشک باتیں جو تمہارے شعروں کے ساتھ مل کر شاید نیلم کا دل موہ سکیں۔

    عباس: (ایک دم غصے میں آکر)........ جو میں نہ موہ سکا۔یہی کہنا چاہتے ہونا تم ........دبی زبان میں آج تم نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اگر مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میرے دل کا بوجھ اس قدر زیادہ نہ ہوتا........وہ بوجھ جواب تمہیں اپنے کاندھوں پر اُٹھانا پڑے گا........ میں بیوقوف ہوں........ جیسا کہ تم نیلم سے کہہ رہے تھے شاعر بیوقوف ہی ہوا کرتے ہیں مگر وہ تم جیسے غدار نہیں ہوتے........ بھیڑ کی کھال میں تم جیسے چیتے نہیں ہوتے........تم ........تم........ اپنی طرف سے شاید ایک دلچسپ کھیل کھیلتے رہے مگر جانتے ہو تم نے مجھے بے حد دُکھ پہنچایا ہے........ تم نے میری حساس رُوح کو پاؤں تلے روند دیا ہے........ تم نے شاعر کو تکلیف نہیں دی ایک انسان کو دُکھ دیا ہے جو محبت میں گرفتار تھا........ جانتے ہو محبت کرنے والے انسانوں کی رُوح بہت حساس ہوتی ہے؟

    جمیل: میں نے کبھی محبت نہیں کی۔

    عباس: لیکن اب تمہیں کرنا ہو گی۔

    جمیل: کس سے؟

    عباس: نیلم سے........ اس عورت سے جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ اس مغنیہ سے جس کے حلق سے نکلے ہوئے سُروں میں اتنے برس میری رُوح آشیانہ بناتی رہی اور جس کے تنکے تم نے ہوائی بگولا بن کر اُڑا دئیے........ سُنتے ہو! اُس عورت سے جس کی نسوانیت میری نرم ونازک شاعری نے بنائی ہے تم اپنی کُھردری باتوں سمیت محبت کرو گے۔

    جمیل: اور تم؟

    عباس: میں........ میں تمہارا تماشا دیکھوں گا۔

    جمیل: تمہیں کیسے معلوم ہو گا کہ میں واقعی نیلم سے محبت کرتا ہوں۔

    عباس: تمہیں اس بات کا ثبوت دینا ہو گا........ اور اس سے میری محبت کا ثبوت یہ ہے کہ آج نصف شب کے قریب شاعر عباس‘نیلم پر اپنی جان قربان کردیگا........ اُس دُنیا میں چلا جائے گا جہاں شعریت ہی شعریت ہو۔

    جمیل: دوسرے لفظوں میں مجھے اُس دُنیا میں جانا پڑے گا جہاں شعریت ہی شعریت ہے۔

    عباس: تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو۔

    نیلم: عباس........ خدا کے لیئے عباس ایسے بے رحم نہ بنو۔

    عباس: اس سے تمہاری محبت کا ثبوت لینا کوئی بے رحمی نہیں۔ میں بھی تو اس بات کا ثبوت دوں گا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔

    نیلم : کیسے؟

    عباس: اس گلاس میں جس میں جمیل شراب پیتا رہا ہے‘ میں زہر گھول رہا ہوں(گلاس کی آواز)........ پہلا گھونٹ جمیل پیئے گا جب زہراس کو ہلاک کر دے گا تو دوسرا گھونٹ میں پیؤں گا۔

    نیلم: یہ کیسے ہو سکتا ہے عباس........ تمہارا دماغ بہک گیا ہے۔

    جمیل: اور اگر میں انکار کر دُوں؟

    عباس: تو میرا پستول کبھی انکار نہیں کرے گا۔

    جمیل: پستول کی گولی سے مرنا شاندار نہیں........ میں زہر ہی پیؤں گا مگر مجھے اس بات کا یقین ہونا چاہیئے کہ میری موت کے بعد تمہاری موت بھی ہو گی........ کیا نیلم مجھے اس بات کا یقین دلاسکتی ہے؟

    نیلم: میں ........ میں........ لیکن عباس شاعر ہے۔

    جمیل: تو ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے عباس زہر پیئے اور اُس دُنیا کا دروازہ کھٹکھٹائے جہاں شعریت ہی شعریت ہو۔میں اس کے پیچھے آنے کا انتظار کرتا ہوں........ اس تھوڑے سے وقفے میں مجھے نیلم کی محبت میں گرفتار ہونے کا موقع بھی مل جائے گا۔

    نیلم: ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ سارا زہر میں ہی اپنے حلق سے نیچے اُتار لُوں۔ اور پھرتم ایک دوسرے کے دوست بن جاؤ........ ایک دوسرے سے محبت کرنا شروع کر دو۔

    عباس: (بُلند آواز میں) نہیں........ ہرگز نہیں۔ موت کا یہ جال میری مرضی کے مطابق پانی میں ڈالا جائے گا۔ پہلے جمیل تم اس جال میں آؤ گے پھر میں........ اور نیلم زندہ رہے گی........ اس کو زندہ رہنا پڑے گا....... جب زہر تمہارے اندر سرایت کر جائیگا اور موت کا مضبوط ہاتھ تمہیں رسی کے مانند بٹ دے گا تو نیلم کے دل پر تریڑے پڑیں گے اس نیلم کے دل پر جس نے شاعر عباس کے دل کو فضول سمجھ کر توڑ دیا ........ تم مرو گے اور میں جیوں گا۔ میں جیوں گا اور تم مرو گے(دیوانہ وار ہنستاہے)........ ہاں ہاں تمہیں مرنا ہو گا........ میں خود مروں گا مگر زندہ ہو کر اور تم مرو گے ادھ موئے ہو کر (ہنستے ہی برف کے ٹکڑوں سے اپنی تابانی اُدھار لینے والی نیلم کے لیئے آج کڑی آزمائش کا دن ........ اس کی آنکھوں کے سامنے آج اِس کے دو چاہنے والے موت کی گہرائیوں میں اُتریں گے۔

    جمیل: مذاق ختم ہو چُکا........ رات بہت گزر چکی ہے عباس میں سمجھتا ہوں کہ اب تماشے کو بند کر دینا چاہیئے۔ نیلم برف کی سلوں سے اپنی تابانی اُدھار لیتی ہے‘ تم اُس سے تھوڑی سی سردی مانگ لو اور خدا کے لیئے اس کو بجھاؤ........ میں آگ تاپنے کا عادی نہیں ہوں۔

    عباس: (زور سے قہقہہ لگاتا ہے) صرف باتیں ہی بنانے کے عادی ہو........ تم آگ لگا سکتے ہو مگر آگ لگا کر اس کا تماشا دیکھنے کی تاب تم میں نہیں........ نیلم تمہاری ٹھوس چٹان چٹخنا شروع ہو گئی........ بس اب کچھ دم میں ریزہ ریزہ ہوا چاہتی ہے........ (ہنستا ہے........ تمہیں عورتوں سے کھیلنا پسند ہے مگر زہر کا ایک گھونٹ تم سے نہیں پیا جاتا ........ میرے دوست عورتیں زہر سے زیادہ زہریلی ہوتی ہیںِ۔)

    جمیل: عباس........ جمیل ٹھیک کہتا ہے........ اسے مجھ سے صرف اس قدر دلچسپی تھی کہ میں اس کی دلچسپ باتوں میں دلچسپی لوں۔

    عباس: کیا دلچسپ بات ہے........ اور زہر کے یہ گھونٹ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ........ کتنے پیؤ گے۔ میرے لیئے تو ایک ہی کافی ہو گا۔

    جمیل: میں نہیں پیؤں گا۔

    عباس: تمہیں پینا ہو گا........ (گلاس اُٹھاتا ہے) اسی شراب میں زہر ہے۔ (نیلم لپک کر ہاتھ سے گلاس گرا دیتی ہے۔ عباس اُس کی کلائی پکڑ لیتا ہے۔ نیلم کی چوڑیاں کھنکھناتی ہیں)زہر کی پڑیا واپس دو نیلم۔ (نیلم‘عباس کی زبردست گرفت کے باعث کراہتی ہے اور کہتی ہے میری کلائی ٹوٹ جائے گی۔‘‘) میرا دل ٹوٹ چکا ہے........ لاؤ ........ یہ زہر میرے حوالے کرو۔(نیلم کی ہلکی سی چیخ)........ بس اب ایک طرف ہو جاؤ اور ہمارا‘‘تماشا دیکھو۔خبر دار جمیل........ اپنی جگہ پرکھڑے رہو(گلاس اُٹھاتا ہے اور اُس میں زہر کی پڑیا گھولتا ہے۔ لو اس کا ایک گھونٹ پی جاؤ۔........ ہاتھ میں لو........ ورنہ........

    جمیل: (ڈرتے ہوئے لہجہ میں‘........ نیلم........ کیا سچ مچ مجھے یہ زہر پینا پڑے گا۔

    نیلم: حالات کا تقاضا یہی ہے۔

    جمیل: حالات کا تقاضا........ حالات کا تقاضا........ مجھے حالات سے کیا واسطہ ہے........ مجھے کسی سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہے........ نیلم کیا ہو رہا ہے........ خدا کے لیئے مجھے اس موت سے بچاؤ۔

    نیلم: گلاس میں سے ایک گھونٹ پی جاؤ........ تم بچ جاؤ گے۔

    عباس: (ہنستا ہے)

    نیلم: پی جاؤ........ میرا مُنہ کیا دیکھتے ہو ........ شہد سمجھ کے پی جاؤ۔

    جمیل: شہد........ شہد........

    عباس: (بُلند آواز میں)پی جاؤ........ ورنہ........

    نیلم: پی جاؤ۔ تمہیں کچھ نہ ہو گا۔

    جمیل: کیسے۔کیسے؟

    عباس: پی جاؤ۔

    نیلم: پی جاؤ........ پی جاؤ........

    عباس: بس ایک گھونٹ........ باقی میری طرف بڑھا دو۔

    نیلم: پی جاؤ۔ڈرو نہیں۔

    جمیل: پی جاؤ؟

    عباس: ہاں۔ہاں۔ پی جاؤ۔

    نیلم: پی جاؤ۔

    جمیل: تم بھی پیو گے۔

    عباس: وقت ضائع نہ کرو جمیل۔

    نیلم: ڈرتے کیوں ہو۔

    جمیل: (گلاس میں سے زہر پیتا ہے۔ حلق میں غر غراہٹ پیدا ہوتی ہے۔پھر کھانستا ہے)

    نیلم: بس اتنی سی بات تھی۔

    عباس: بس اتنی سی بات تھی........ لاؤ گلاس مجھے دو........ شاباش........ ارے تمہارا رنگ اتنی جلدی زرد کیوں ہو گیا........ ابھی تو زہر تمہارے اندر ٹھیک طور سے اُترا بھی نہیں۔

    نیلم: گھبراؤ نہیں جمیل........ حوصلہ رکھو........

    عباس: حوصلہ؟........ زہر پی کر یہ کس قسم کا حوصلہ کر سکتا ہے لو دیکھو۔ مٹھیاں بھنچنا شروع ہو گئیں۔

    جمیل: عباس........

    عباس: عباس کو کیوں پکارتے ہو........ اس کا نام نہ لو ورنہ تمہاری جان اٹک جائے گی۔

    جمیل: نیلم........ میں........

    عباس: (زور زور سے ہنستا ہے)ہاہاہا........ بس پانچ منٹ میں تمہاری لاش اس فرش پر ہو گی اور مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں گی۔ تمہارے اس منحوس چہرے پر جوا بھی سے نیلا پڑ گیا ہے۔

    جمیل: نیلا؟........ تم قاتل ہو........ تم میرے قاتل ہو........ میں شور مچانا شروع کردوں گا........ میں چلانا شروع کر دوں گا........

    عباس: کچھ فائدہ نہ ہو گا........ چیخنے اور چلّانے سے جو کام تم کرنا چاہتے ہو وہ میں خود کرنے والا ہوں........ اس گلاس کا باقی زہرا بھی میرے اندر چلا جائے گا........ مگر تمہیں پہلے مرنا ہو گا........ تم میری جانکنی کا تماشا نہیں دیکھو گے........ اس کا مزا صرف میں لوں گا(ہنستا ہے)نیلم۔ ذرا اس بہادر کی حالت تو دیکھو جس کی ٹھوکروں سے تمہیں پیار ہو گیا تھا(ہنستا ہے) ہا ہا ہا........ تم کانپ رہے ہو جمیل........ تمہارا رُ واں رُواں کانپ رہا ہے........ زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا........ بس اب تم چند گھڑیوں کے مہمان ہو۔

    جمیل: (دیوانہ وار)........ میں نہیں مرنا چاہتا........ میں نہیں مرنا چاہتا۔ کوئی مجھے بچائے۔کوئی مجھے بچائے۔

    عباس: شریف آدمیوں کی طرح جان دو جمیل........ یوں چیخو چلّاؤ نہیں۔ موت بہت حساس ہوتی ہے۔

    جمیل: موت........ موت........

    نیلم: ڈرو نہیں‘ تم زندہ رہو گے۔

    عباس: (ہنستا ہے‘ تم زندہ رہو گے اس لیئے کہ تم اس عورت کے لیئے اپنی جان دے رہے ہو (ہنستا ہے) ........ تمہارا رنگ اب بالکل نیلا پڑ گیا ہے........ تمہارے ہونٹ خزاں دیدہ پتوں کے مانند کانپ رہے ہیں۔ تمہاری آنکھیں بُلبلوں کی طرح اُبل رہی ہیں(ہنستا ہے بس اب تم چند گھڑیوں کے مہمان ہو........ کچھ کہنا ہو تو کہہ لو نیلم (ہنستا ہے) میں کتنا خوش ہوں........ (ہنستا ہے)........ (قہقہوں کے درمیان جمیل دیوانہ وار چلّاتاہے۔’’پانی پانی‘‘ نیلم کہتی ہے........ ‘‘ تمہیں کیا ہو گیا ہے جمیل........ تم تو سچ مچ مر رہے ہو‘‘........ عباس ہنستا رہتا ہے۔آخر میں دھڑام سے جمیل زمین پر گر پڑتا ہے۔)

    عباس: مر گیا........ لواب میں چلا........ (اُسی گلاس میں سے زہر پیتا ہے اور ہونٹ چاٹتا ہے)........ لوگ کہتے ہیں زہر کڑوا ہوتا ہے مگر یہ تو میٹھا تھا۔

    نیلم: جمیل!........ جمیل!........ جمیل!........ عباس جمیل تو سّچ مّچ مر گیا۔

    عباس: تو کیا جھوٹ موٹ کی موت مرتا۔ نیلم اب اس کا ذکر نہ کرو جو مر کھپ چُکا ہے۔ میرے ساتھ باتیں کرو جو ابھی مرا نہیں ہے(ہنستا ہے)۔ موت........ موت اور زندگی میں فرق ہی کیا ہے........ زندگی ایک نیند ہے جس میں آنکھیں کُھلی رہتی ہیں اور موت ایسی نیند ہی ہے جس میں آنکھیں بند رہتی ہیں۔

    نیلم: (آہ بھر کر)جمیل مر گیا۔

    عباس: اور اب میری باری ہے........ ایک مرد جس سے تمہیں محبت تھی موت کی آغوش میں جا چُکا ہے........ دوسرا جس کو تم سے محبت ہے مر جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔

    نیلم: تم غلط کہتے ہو........ مجھے جمیل سے محبت نہیں تھی۔

    عباس: پھر کس سے تھی؟

    نیلم: اس کی خُشک باتوں سے........ تم لوگ اتنی معمولی سی بات کیوں نہیں سمجھتے........ بادلوں میں گھِرے ہوئے لوگ کیا صاف آسمان کی خواہش نہیں کرتے........ برف کے تودوں میں دبی ہوئی چیزیں کیا سُورج کی تپش کے لیئے نہیں تڑپتیں........ زمین پر رہنے والے کیا تاروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھتے........ کیا فرشتوں نے آسمان چھوڑ کر زمین پر آنے کی غلطی نہیں کی........ شعروں کے نرم ونازک بستر سے نکل کر حقیقت کے پتھروں پر چلنے پھرنے کی خواہش کیا دل میں پیدا نہیں ہو سکتی۔اور پھر نیلم تو ایک عورت ہے۔

    عباس: عورتوں اور چڑیوں کا فلسفہ میری سمجھ سے ہمیشہ اونچا رہا ہے۔

    نیلم: اس لیئے کہ تم شاعر زیادہ اور آدمی کم ہو........ عباس ہر شے کو شعریت کی نظروں سے دیکھو مگر عورت کو ہمیشہ اپنی آنکھوں سے دیکھو:

    عباس: (ہنستا ہے) یہ دونوں آنکھیں اب موت ہمیشہ کے لیئے میچ دے گی۔

    (حیرت سے)مگر اس زہر نے مجھ پر اثر کیوں نہیں کیا........ میں........ میں موت کو اپنے قریب محسوس کیوں نہیں کرتا........ میرا حلق بھی تو خُشک نہیں ہوا........ میر ا رنگ بھی ویسے کا ویسا ہے۔

    نیلم: اس لیئے کہ تم نے زہر نہیں پیا۔

    عباس: (حیرت سے)زہر نہیں پیا........ جمیل کیسے مر گیا؟

    نیلم: مر گیا........ اُس کی ہوشیاری اور چالاکی اُس کی مدد نہ کر سکی........ حالانکہ میں نے تم دونوں کو بچانے کے لیئے کوشش کی تھی........ زہر کی پڑیا کے بجائے میں نے شکر کی پڑیا بڑی پُھرتی سے تمہارے ہاتھ میں دے دی تھی۔

    عباس: پہیلیاں بُوجھنے کے فن سے میں بالکل کورا ہوں نیلم!

    نیلم: اسی لیئے تم مرے نہیں........ اگر جمیل نے زہر پیا ہوتا تو شاید وہ نہ مرتا۔مگر شکر نے اُس پر زہر کا کام کیا........ اب چھوڑو ان باتوں کو۔ (کھڑکی ہوا کے دباؤ سے کُھل جاتی ہے۔بارش کا شور سُنائی دیتا ہے۔)

    نیلم: کھڑکی بند کر دو عباس........ باہر رات کا اندھیرا ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے........ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جمیل کی رُوح اس کالی بارش میں نہا رہی ہے........ اُف یہ کالی رات کتنی بھیانک ہے........

    عباس: اتنی بھیانک نہیں جتنا تمہارا سفید چہرہ ہے........

    (کھڑکی بند کر دیتا ہے)

    مأخذ :
    • کتاب : دھواں
    • اشاعت : 1941

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے