ٹیڑھی لکیر
افراد
جاوید :
اسلم :
الطاف : (جاوید کے دوست)
جمیل :
عباس :
گل خان : (نوکر)
معلن : (جو ریڈیو کے اعلان پڑھے گا)
ایک گوّیا : (جو اقبال کے شعر گائے گا)
مجید :
(شہنائی کی آواز۔۔۔۔۔۔ آرکسٹرا وہ دُھن بجا رہا ہے جو عام طور پر بیاہ شادی کے موقع پر بجائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ میوزک اس انداز سے بجایا جائے کہ سامعین یہ سمجھیں کوئی برأت گزر رہی ہے ، چنانچہ آہستہ آہستہ یہ میوزک تحلیل ہو جائے۔)
جاوید: باجوں کے اس شور میں اور شادی میں کتنی مناسبت ہے۔۔۔۔۔۔ دونوں شروع میں شور مچاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ یہ شور غائب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور وہ۔۔۔۔۔۔اور وہ نکاح پڑھنے والا مُلّا۔۔۔۔۔۔ اس سے بڑھ کر اور کون چغد ہو سکتا ہے۔ میں جب اس کا تصوّر کرتا ہوں تو مجھے اس میں اور بارش کے بعد کسی جوہڑ کے کنارے بیٹھے ہوئے مینڈک میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ لیکن شایدمینڈک کی حالت مُلّا سے بہتر ہوتی ہے اس لیئیکہ وہ صرف برسات ہی میں ٹراتا ہے۔ ہمارے مُلّا صاحب تو ہر موسم میں۔۔۔
اسلم: کیا بیہودہ بکواس کرتے ہو، آخر تمہیں اس دنیا کی کوئی چیز پسند بھی ہے۔ شادی بیاہ بکواس، دعوتیں فضول، مذہب ناکارہ، تعلیم ناقص، دوستی بیہودہ۔۔۔۔۔۔ کوئی شے آپ کو اس دنیا کی پسند بھی ہے۔۔۔۔۔۔ تو جناب ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اپنے لیئے ایک علیحدہ دنیا بنالیں اسی میں رہیں، اپنی پسند کے قانون وضع فرمالیں، عورت کے بجائے کوئی اور چیز تخلیق کرلیں۔۔۔۔۔۔ یوں نیچر کا’’ برتھ کنٹرول‘‘ ہو جائے تو جناب کی ساری خواہشیں پوری ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔لاحول ولا۔۔۔۔۔۔ کچھ ہوش کی دوا کرو۔
جاوید: جس کا یہ نسخہ سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے کہ ایکُ ملاّ یا پنڈت بُلاؤ اور اس سے کچھ پڑھوا کے شادی کر لو۔۔۔۔۔۔ہوش کی دوا یہی تجویز فرمائیں گے نا آپ؟۔۔۔۔۔۔بھئی عورت نہ ہوئی لخلخہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے۔ میں آپ سے ایک سیدھا سادا سوال کرتا ہوں۔منطق اور استدلال سے قطع نظر آپ یہ فرمائیے کہ رسموں پر اتنی شدّت سے کاربند رہنا کیا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔شادی تو خیر ہوئی۔ یعنی اس چیز کا مطلب اس لیئے سمجھ میں آجاتا ہے کہ عورت موجود ہے، اس کا کچھ نہ کچھ تو ضرور ہونا چاہیئے اس کچھ نہ کچھ کا نام آپ نے شادی رکھ لیا ہے جس پر خاکسار کو کوئی اعتراض نہیں پر میں یہ پوچھتا ہوں کہ شادی اگر ہو تو ساتھ ہی ساتھ رسمیں کیوں ہوں، یعنی اگر میں کسی عورت کو رفقۂ حیات بنانا چاہتا ہوں اور وہ بھی مجھے اپنا جیون ساتھی بنانے کے لیئے تیار ہے تو اس میں مُلاّ صاحب کی تشریف آوری کیوں ضروری ہے۔۔۔۔۔۔شادی میری ہے۔یعنی میری اور اس عورت کی۔اس میں دوسرے لوگ کیوں شریک ہوں اور پھر پلاؤ کیوں پکے۔۔۔۔۔۔ باجے کیوں بجیں اور دوسری ایک ہزار لغویات کیوں ہوں۔۔۔۔۔۔ اور وہ شادی کے رقعے(ہنستا ہے) بخدا یہ شادی کے رقعے بھی عجیب چیز ہیں۔
الطاف: لو بھئی اسلم، ان شادی کے رقعوں کے بارے میں بھی جاوید صاحب کے ارشادات سُن لو۔۔۔۔۔۔ فرمائیے حضرت، ان کے متعلق آپ کا نرالا فلسفہ کیا کہتا ہے۔
جاوید: (ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔نرالا فلسفہ کیا کہتا ہے(یہ فقرہ پھر دہراتا ہے) نرالا فلسفہ کیا کہتا ہے(جیسے سوچ رہا ہے پھر ایک دم) یہ تمہارے نزدیک تپائی پر جو سینما کا اشتہار پڑا ہے۔ اسے پڑھ کر سناؤ، پھر بتاؤ ں گا۔
الطاف: کیا پکچر دیکھنے کا ارادہ ہے؟
جاوید: بھئی نہیں، تم یہ اشتہار تو پڑھو۔
اسلم: لاؤ میں پڑھے دیتا ہوں۔
جاوید: پڑھو۔
اسلم: لکھا ہے(کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ)لکھا ہے۔۔۔۔۔۔آگ کا کھیل عرف مداری کی آنکھ۔۔۔۔۔۔گوہر ٹوہن ٹاکیز کا پہلا شاہکار۔۔۔۔۔۔سو فیصدی ناچتا بولتا اور گانا فلم خاص اداکار: مس منیر اور سیتا رام۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی زندہ ناچ و گانا بھی ہوگا۔۔۔۔۔۔نگینہ ٹاکیز۔۔۔۔۔۔ پہلا کھیل شام کے چھ بجے دوسرا کھیل ساڑھے آٹھ بجے۔
نوٹ: منیجر کو پروگرام بدلنے کا حق حاصل ہے، خریدا ہوا ٹکٹ واپس نہیں کیا جائے گا، شراب پی کر دنگا فساد کرنے والوں کو حوالہ پولیس کیا جائے گا۔بجلی فیل ہونے کی صورت میں ٹکٹوں کے دام واپس نہیں کیئے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ نگینہ ٹاکیز امرت بازار۔
جاوید: شادی کے رقعوں میں بھی کھیل کا نام ہوتا ہے اور خاص اداکاروں کا بھی۔۔۔۔۔۔یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ یہ کس کا پہلا شاہکار ہے۔۔۔۔۔۔ زندہ ناچ اور گانے کا ذکر نہیں ہوتا مگر یوں یہ چیز ہوتی ضرور ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کھیل کے اوقات بھی درج ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ البتہ یہ نوٹ ساتھ نہیں ہوتا کہ منیجر کو پروگرام بدلنے کا حق حاصل ہے۔ خریدا ہوا ٹکٹ واپس نہ ہوگا اور پھر بجلی فیل ہونے کی صورت میں ٹکٹ کے دام واپس نہیں کیئے جائیں گے۔ حالانکہ ان باتوں کا حوالہ ان رقعوں میں ضروری ہے۔
اسلم: مین میخ خوب نکالتے ہو اور مضحکہ اُڑانے کا فن بھی تمہیں خوب آتا ہے پر دوست زیادہ دیر تک تم سے اس مشکل راستے پر نہ چلا جائے گا۔
جاوید: سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ تم مجھے ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔۔۔۔۔۔ زیادہ دیر تک مجھ سے اس مشکل راستے پر نہ چلا جائے گا، یہی کہتے ہو نا؟۔۔۔۔۔۔ لیکن بھئی میں کچھ دیر تو ضرور اس مشکل راستے پر چلوں گا، بس کافی ہے۔۔۔۔۔۔ تم سیدھی اور ہموار سڑک کے قائل ہو جس میں نہ کوئی موڑ ہو نہ پھیر لیکن بندہ ایسی سڑک پر دو قدم نہیں چل سکتا۔۔۔ سیدھی سڑک پر تو ہر آنے والی چیز سامنے ہوتی ہے، اس میں کیا خاک لطف آسکتا ہے۔۔۔ یعنی ہر شے تمہاری نگاہوں کے سامنے ہے، کوئی چیز تمہاری نگاہوں سے اوجھل نہیں۔۔۔۔۔۔ ٹیڑھی بنگی موڑوں اور پھیروں والی سڑک ہو تو کئی آنکھوں سے اوجھل چیزیں بڑے ڈرامائی انداز میں آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اس موڑ پر ایک دم کوئی بھاری بھر کم لاری تمہارے دل میں دھڑکا پیدا کرتی ہانپتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ اس موڑ پر اچانک کوئی۔۔۔۔۔۔کوئی حسین عورت اس انداز سے تمہارے سامنے آتی ہے۔ جیسے تحت الشعور سے کوئی دُھندلا سا خیال ایک دم ذہن میں کود پڑے۔۔۔۔۔۔ زندگی صرف موڑوں اور پھیروں ہی کی وجہ سے بسر کرنے کے قابل ہے، ورنہ اس میں رکھا ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔
اسلم: قطع کلامی معاف مگر آپ نے ابھی ابھی حسین عورت کا ذکر کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت میں حسن تلاش کرنا آپ نے کب سے شروع کیا ہے، یعنی موڑوں پر حسین عورتوں کے اچانک سامنے آجانے میں آپ نے کب سے دلچسپی لینا شروع کی ہے۔
جاوید: (وقفہ) ٹیڑھا سوال کیا ہے تم نے؟
اسلم: اس لیئے کہ آپ سے سیدھا سادا سوال کیا ہی نہیں جاسکتا۔
جاوید: ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔(وقفہ) موڑوں پر حسین عورتوں کے اچانک سامنے آجانے میں کب سے دلچسپی لینا شروع کی ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں اپنے کچھ الفاظ واپس لے لوں۔۔۔۔۔۔ نہیں صرف ایک لف٭۔۔۔۔۔۔عورت کے بجائے گائے کہہ لینے دیجئے مجھے۔۔۔۔۔۔اس میں آپ کا کیا ہرج ہوگا۔۔۔۔۔۔ ہاں تو اس موڑ پر اچانک کوئی حسین گائے اس انداز سے تمہارے سامنے آتی ہے جیسے۔۔۔۔۔۔
اسلم: دوست حسین گائے تو سامنے آئی پر اب تحت الشعورسے وہ دُھندلا خیال تمہارے ذہن میں نہیں کودے گا۔۔۔۔۔۔ گائے کی دُم تمہارے تحت الشعور تک نہیں پہنچ سکتی جس کو تھام کر وہ خیال اوپر آجائے۔
جاوید: بھئی مجبوری بھی کوئی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے ہاں سڑکوں پر عورتوں سے زیادہ گائے بھینسیں چلتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورتی ہیں کہاں؟۔۔۔۔۔۔ میں بھولا، ہیں، مگر صندوقوں میں بند۔۔۔۔۔۔ اب اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔یہی وجہ کہ اکثر آزادی پسند اور آرٹسٹک طبیعت رکھنے والے مرد تنگ آکر کوئی ڈیری فارم کھول لیتے ہیں۔
اسلم: آپ نے تنگ آکر کوئی ڈیری فارم کھولا؟
جاوید: جی نہیں، اس کے لیئے بھی تو گایوں کی ضرورت ہے اور میری زندگی میں نہ چوپایہ نہ دو پایہ۔۔۔۔۔۔البتہ اُمنگیں سینے میں کافی ہیں۔۔۔۔۔۔پر یاد رہے صرف اُمنگیں۔۔۔۔۔۔ اور ہیں۔۔۔۔۔۔ اور میں کیا ہوں؟۔۔۔بقول آپ کے ایک ٹیڑھی لکیر جو سیدھی لکیر کے مقابلے میں ہمیشہ بڑی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔یہ بڑا پن۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) یہ بڑاپن اپنے آپ کو تسکین دینے کیلیئے بُرا نہیں۔ کیا خیال ہے الطاف صاحب!
الطاف: خیال؟۔۔۔۔۔۔ میرا خیال؟ میرا خیال آپ کے خیال کے مقابلے میں اتنا لمبا نہیں ہے جو آپ اپنے فلسفے کے اسکندری گز سے ماپ سکیں۔
جاوید: الطاف۔۔۔۔۔۔اسلم۔۔۔۔۔۔ تم دونوں مجھے اپنا دوست سمجھتے ہو اور یہ بھی کہتے ہو کہ تم دونوں میرے دوست ہو۔۔۔۔۔۔ میں آج تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔۔۔۔۔۔کیا میں واقعی برا ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا میرے خیالات واقعی اتنے خطرناک ہیں کہ یہاں کسی چوراہے میں ٹکٹکی سے باندھ کر مجھے کوڑے لگائے جائیں؟۔۔۔۔۔۔ میں چور نہیں، ڈاکو نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر میں کبھی سیندھ لگاؤں تو اپنے ہی گھر میں چوری کروں گا تو اپنی ہی چیزوں کی۔ میری پھونکیں اس تہذیب کا چراغ بجھانا نہیں چاہتیں۔۔۔۔۔۔ میرے اندر چند دیئے روشن ہیں، میں ان ہی کو جلانے بجھانے کے دلچسپ کھیل میں مشغول رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے اور تم جو میرے دوست ہو اس میں کیا عیب دیکھتے ہو۔
(خاموشی)
جاوید: لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن اس کمرے کی فضا ایکی ایکی اتنی اداس کیوں ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا یہ میری باتوں کا اثر ہے یا۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔
اسلم: چھوڑو جاوید ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔تم نے بالکل سچ کہا تھا، ہم تمہیں نہیں سمجھ سکے او ر نہ کبھی سمجھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔الطاف، کوئی اسٹیشن تو نکالو۔۔۔۔۔۔ریڈیو تمہارے قریب پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ذرا گانا ہو جائے۔
(ریڈیو)
اقبال ؔ کی یہ نظم گائی جا ئے:۔
یہ دیر و کہن کیا ہے؟ انبار خس و خاشاک
مشکل ہے گزر اس میں بے نالہ آتشناک
رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی
ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بیباک
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
ریڈیو: ابھی ابھی آپ اعجاز صاحب سے حضرت اقبالؔ کا کلام سن رہے تھے اب آپ کو کل یعنی گیارہ فروری کے پروگرام کے متعلق کچھ بتایا جائے ۔۔۔۔۔۔ کل۔۔۔۔۔۔گیارہ فروری کو۔۔۔۔۔۔
(وقفہ)
ریڈیو: ہم دہلی سے بول رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ابھی ابھی آپ بازار کے بھاؤ سن رہے تھے آپ سے کل یعنی گیارہ دسمبر کے پروگرام کی چند دلچسپیوں کا ذکر کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔
اسلم: الطاف، تمہیں یاد ہے، جاوید سے مِلے ہوئے ہمیں پورے دس مہینے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔’’ پچھلی بار جب اس سے گفتگو ہوئی تھی اس دن فروری کی گیارہ تاریخ تھی۔۔۔۔۔۔آج دس دسمبر ہے۔۔۔۔۔۔کہاں غائب ہوگیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
الطاف: یہی میں بھی سوچتا ہوں۔مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اسے نارا ض کردیا ہے۔۔۔۔۔۔اس کے دل کو دکھ پہنچایا ہے۔۔۔۔۔۔اسلم، جاوید دل کا بہت نازک ہے۔۔۔۔۔۔تمہیں یاد ہے اس روز کس درد بھرے لہجے میں اس نے ہم سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا میں واقعی برا ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا میرے خیالات واقعی اتنے خطرناک ہیں کہ یہاں کسی چوراہے میں ٹکٹکی سے باندھ کر مجھے کوڑے لگائے جائیں۔۔۔۔۔۔ مجھے جب اس کے یہ لفظ یاد آتے ہیں تو دل میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
(دستک کی آواز)
الطاف: دیکھنا بھئی، کوئی باہر دستک دے رہا ہے۔
اسلم: کون ہے۔۔۔۔۔۔چلے آؤ، دروازہ کھلا ہے۔
(دروازہ کھلنے کی آواز)
اسلم: آخاہ!۔۔۔۔۔۔ یہ تو اپنا مجید ہے۔۔۔۔۔۔کہو بھئی مجید اتنے دن کہاں رہے۔
مجید: بیمار تھا۔۔۔۔۔۔لیکن بھئی تم لوگ جاوید کے نکاح پر کیوں نہیں آئے۔ کیا یہاں نہیں تھے۔
اسلم: جاوید؟۔۔۔ ۔۔۔ کون سا جاوید؟
مجید: بھئی واہ۔۔۔۔۔۔جاوید ایک ہے دو تو نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ تم کتنے جاویدوں کو جانتے ہو؟
الطاف: تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تمہارا مطلب۔۔۔۔۔۔یعنی تمہارا مطلب اپنے جاوید سے ہے۔
مجید: یہ قصہّ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ ایک ہی جاوید کو تو ہم لوگ جانتے ہیں اور وہ ہمارا اپنا ہی تھا پر اب تو کسی اور کا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ بڑی حیرت کی بات ہے تم لوگ جو اس کے بہترین دوست ہو اس کی شادی کے متعلق کچھ جانتے ہی نہیں۔
اسلم: جاوید نے شادی کرلی؟
الطاف: کس سے؟۔۔۔۔۔۔کہاں؟۔۔۔۔۔۔کب؟
مجید: گوجرانوالہ میں یکم دسمبر کو۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔عباس کو نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لم تڑنگ جو ہمارے ساتھ اسکول میں پڑھا کرتا تھا۔
اسلم: اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔کیا ہوا اس کو؟
مجید: جاوید کا نکاح اس کی بہن سے ہوا ہے۔
اسلم: جھوٹ۔
مجید: مجھے اس میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنی لڑکی کو چھوڑنے کے لیئے میں گوجرانوالہ گیا تھا وہاں عباس سے ملاقات ہوئی چنانچہ مجھے نکاح کی رسم میں شریک ہونا پڑا۔
اسلم: اور۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔وہاں ملاّ صاحب بھی تھے؟
مجید: کون سے ملاّ صاحب؟
اسلم: ارے بھائی وہی جو نکاح پڑھواتے ہیں۔
مجید: ان کے بغیر نکاح کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔کہیں تمہارا دماغ تو نہیں بہک گیا۔۔۔۔۔۔نکاح خوانی کے وقت جو کچھ ہوا کرتا ہے ہوا، جاوید نے سہرا پہن رکھا تھا اور۔۔۔۔۔۔
الطاف: چھوہارے بھی بانٹے گئے وہ الائچی دانے بھی تھے؟۔۔۔۔۔۔ ایجاب و قبول ہوا ہوگا اور جاوید نے تین مرتبہ سر ہلا کر ہاں بھی کی ہوگی۔
اسلم: کیوں نہیں؟
الطاف: (بلند آواز میں)وہ مارا۔۔۔۔۔۔اسلم، مار لیا جاوید کو۔۔۔۔۔۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو بندے کو ناچنے میں بھی کوئی عذر نہیں۔۔۔۔۔۔مجید، بھئی خُدا کی قسم کیا خبرسُنائی ہے تم نے۔۔۔۔۔۔ دل باغ باغ کردیا۔اب وہ ہے کہاں۔۔۔۔۔۔ گوجرانوالہ ہی میں ہے؟۔۔۔۔۔۔ کیا اس وقت کوئی گاڑی ادھر جاتی ہے؟۔۔۔۔۔۔ میں یہ دیکھتا چاہتا ہوں کہ وہ اب ہم سے آنکھ کیسے ملاتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ کہاں گیا جناب کا وہ فلسفہ؟۔۔۔۔۔۔ کیوں اسلم، کیا فرما رہے تھے جناب اس دن؟ یہ شادی بیاہ کی رسمیں کیا ہیں؟۔۔۔۔۔۔ اور سرکار نے سہرہ بھی لگایا۔۔۔۔۔۔ مایوں بھی بیٹھے ہوں گے۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے۔۔۔۔۔۔ زور زورسے ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔ لیکن اب معلوم یہ کرنا ہے کہ حضرت، ہیں کہاں؟۔۔۔۔۔۔ ان سے ملاقات کہاں ہو سکتی ہے؟
اسلم: کیوں مجید، کیا تم اس کا پتا بتا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔لیکن میں حیران ہوں وہ گوجرانوالہ کیسے پہنچ گیا اور یہ۔۔۔۔۔۔یہ نکاح کیسے ہوگیا۔
مجید: کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔۔۔۔۔۔نکاح کیسے ہوگیا؟۔۔۔۔۔۔ تمہارا نکاح کیسے ہوا تھا اور۔۔۔اور تمہاری شادی کیسے ہوئی تھی۔۔۔
اسلم: چھوڑو اس بحث کو، تم نہیں جانتے کہ ہم اس قدر متعجب کیوں ہورہے ہیں۔ تم فقط اتنا بتاؤ کہ وہ آج کل ہے کہاں۔
مجید: میں جب گوجرانوالہ سے واپس آرہا تھا تو وہ کہیں جانے کی تیاریاں کررہا تھا۔ کیونکہ اسے شادی کے لیئے انتظام کرنا تھا۔۔۔۔۔۔ ہاں، میں تم کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ اس کی شادی یکم جنوری کو ہورہی ہے، یعنی نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی نئی زندگی بھی شروع ہو جائے گی۔
اسلم: تو۔۔۔۔۔۔یکم جنوری سے پہلے ہم اس سے نہیں مل سکتے۔۔۔۔۔۔مگر تمہیں سب باتوں کا علم بھی تو نہیں۔۔۔۔۔۔ الطاف، تم اطمینان رکھو میں سب کھوج لگالوں گا۔
الطاف: اسلم وہ ہم سے بچ کر جائے گا کہاں؟
(قدموں کی چاپ)
جاوید: میں خود حاضر ہوگیا ہوں۔
اسلم: جاوید!
الطاف: جاوید؟
مجید: لو بھئی جاوید خود ہی آگیا۔۔۔۔۔۔ادھر آؤ یار، ان دونوں کی اوٹ پٹانگ باتوں نے تو مجھے پریشان کردیا ہے۔۔۔۔۔۔تمہارے نکاح کا ان کو یقین ہی نہیں آتا اور پھر جانے کیا کیا باتیں کی ہیں انہوں نے۔۔۔۔۔۔ کب آئے گوجرانوالہ سے!
اسلم: تو جناب کا نکاح ہوگیا؟
جاوید: (سنجیدگی کے ساتھ) جی ہاں!
الطاف: مُلاّ صاحب بھی تشریف لائے تھے؟
جاوید: جی ہاں، وہ بھی تشریف لائے تھے؟
اسلم: مایوں بھی بیٹھے ہوں گے آپ؟
جاوید: جی ہاں!
اسلم: اور۔۔۔اور۔۔۔
جاوید: جی ہاں۔
اسلم: یعنی۔۔۔۔۔۔یعنی۔۔۔۔۔۔
جاوید: جی ہاں۔
الطاف: تو۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔گویا آپ اس اونچے منارسے نیچے تشریف لے آئے ہیں جہاں بیٹھ کر آپ ہم لوگوں کو دیکھا کرتے تھے، یعنی اب آ پ نے بھی لخلخہ سُونگھ لیا ہے۔
جاوید: جی ہاں۔
اسلم: اب آپ یہ فرمائیے کہ ایک زمانے کے بعد آپ کا یہاں آنا کیسے ہوا؟
جاوید: آپ سے وہ سو روپے واپس لینے کے لیئے جو عرصہ ہوا آپ نے مجھ سے قرض لیئے تھے۔ آپ نے کہا تھا جب تمہیں ضرورت ہوگی میں یہ رقم واپس دے دُوں گا۔
اسلم: جناب کو اپنی شادی کے لیئے یہ روپے چاہئیں۔۔۔۔۔۔ اپنی شادی کے لیئے جو کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے آپ کے نزدیک مضحکہ خیز چیز تھی۔
جاوید: جی نہیں، مجھے یہ روپے اپنی شادی کے لیئے نہیں چاہئیں۔۔۔۔۔۔ ایک اس سے بھی زیادہ ضروری کام مجھے ان روپوں کے ذریعے نکالنا ہے۔
الطاف: وہ ضروری کام کیا ہے؟
جاوید: میں ایک لڑکی کو اغوا کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ پرسوں رات میں اسے بھگا کر لے جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے کہ اس کام کے لیئے مجھے روپوں کی اشد ضرورت ہے۔
مجید: اور۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔وہ تمہاری شادی۔۔۔۔۔۔اس لڑکی کا کیا ہوگا جس کو تم نکاح کے بندھن میں باندھ چکے ہو۔
اسلم: (ہنس کر) تو جناب کسی لڑکی کو پرسوں اغواکرنے کا اردہ رکھتے ہیں۔
جاوید: جی ہاں۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکی بالکل تیار ہے۔۔۔۔۔۔ اور میں بھی بالکل تیار ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود ہم اسے اغوا ہی کہیں گے۔۔۔۔۔۔ اس لیئے کہ الطاف صاحب اور اسلم صاحب بھی میرے اس فعل کو اغوا ہی کا نام دیں گے۔
اسلم: آپ کی یہ گفتگو بھی اغوا سے کم خطرناک نہیں۔
جاوید: تو لیجئے میں اپنی زبان بند کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔براہ مہربانی وہ سو روپے مجھے دے دیجئے تاکہ میں چلا جاؤں۔میں یہاں زیادہ دیر ٹھہر کر آپ لوگوں کے دماغ پر’’اغوائی‘‘کیفیت طاری نہیں کرنا چاہتا۔
الطاف: تم بہت روکھے ہوگئے ہو جاوید۔۔۔۔۔۔
اسلم: تمہارے لہجے میں یہ تلخی کہاں سے آگئی؟
الطاف: اپنی رام کہانی تو سُناؤ۔۔۔۔۔۔ اس دوران میں تم پر کیا کیا بیتی۔۔۔۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ اسلم، تم نے غور کیا، کس قدر دُبلا ہوگیا ہے جاوید۔۔۔۔۔۔جاوید کیا ہوگیا ہے تمہیں؟
مجید: میں نے پچھلے دنوں گوجرانوالہ میں جب انہیں دیکھا تو اتنے لاغر نہیں تھے۔۔۔۔۔۔اب تو۔۔۔۔۔۔
جاوید: وہ سو روپے آپ نے ابھی تک مجھے نہیں دیئے۔۔۔۔۔۔ شاید آپ نے میری بات باور نہیں کی۔۔۔۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں پرسوں مجھے ایک لڑکی کو اغواء کرکے لے جانا ہے اور میرے پاس ز یادہ وقت نہیں جو میں بیکار ضائع کرسکوں۔
اسلم: روپے میری جیب میں ہیں۔۔۔۔۔۔ میں ابھی نکالے دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔ روپے لے لو پھر باتیں کریں گے۔۔۔۔۔۔(نوٹوں کی کھڑکھڑاہٹ۔۔۔۔۔۔تھوڑا وقفہ، ستر، اسی نوے اور یہ سو۔۔۔۔۔۔دس نوٹ ہیں دس دس کے۔۔۔۔۔۔لو۔
جاوید: شکریہ۔۔۔۔۔۔بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔اچھا میں اب رخصت چاہتا ہوں۔
اسلم: چلے جاؤ گے۔۔۔۔۔۔
الطاف: کچھ دیر ٹھہرو گے نہیں۔
مجید: یہ معاملہ کیا ہے؟
اسلم: جاوید!
الطاف : جاوید!
جاوید: میں چلا۔۔۔۔۔۔لیکن تم دُعا کرو خُدا مجھے کامیابی دے۔
(تھوڑا وقفہ۔۔۔۔۔۔ایک سناّٹا طاری رہتا ہے)
اسلم: آج تاریخ کیا ہے؟
مجید: دس دسمبر۔
(وقفہ)
عباس: آج دسمبر کی تیس تاریخ ہے جمیل۔۔۔۔۔۔خُدا کے لیئے سوچو کہ ہم پر مصیبت کا کتنا بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ ان تین دنوں میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔ دس روز سے متواتر ہم اسے تلاش کررہے ہیں مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ اب کیا کروں۔۔۔۔۔۔کسی نے سچ کہا ہے کہ۔۔۔
جمیل: میں خود بہت حیران ہوں عباس۔۔۔۔۔۔اس سے مجھے یہ توقع ہرگز نہ تھی۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ ابھی خاموش رہو۔۔۔۔۔۔شاید۔۔۔
عباس: نہیں، اب زیادہ دیر تک مجھ سے خاموش نہ رہا جائے گا۔ والد صاحب کی بھی یہی رائے ہے کہ جاوید سے سب کچھ کہہ دیا جائے۔اس کو اندھیرے میں رکھنا بہت بڑا ظلم ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے اسی لیئے تمہیں یہاں گوجرانوالہ آنے کی تکلیف دی ہے کہ تم واپس جا کر مجید کو ساری بات سمجھا دو۔ مجید کو میں نے یہاں بُلا لیا ہوتا مگر اس کو دفتر سے چھٹی نہیں مل سکتی۔ مجید، جاوید کو سمجھا دے گا۔ آدمی شریف ہے۔ سن کر خاموش ہو جائے گا اور شور نہیں مچائے گا۔۔۔۔۔۔ اب تم خود ہی غور کرو کہ اس کہ سوا اور چارہ ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے نصیب ہیں کہ اس نے ہماری ناک کٹوائی۔
جمیل: جو تم نے کہا ہے میں بڑے اچھے طریقے سے مجید کو سمجھا دوں گا۔۔۔۔۔۔ پر کیا یہ بہتر ہوگا کہ ابھی ایک دو دن اور دیکھ لیا جائے۔
عباس: کیا دیکھ لیا جائے؟۔۔۔۔۔۔ یہ دن دیکھنا تھا سو دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔ نہیں جمیل یہ طے ہے کہ جاوید کو سب کچھ بتا دیا جائے۔
(نوکر کی آمد)
نوکر: ایک صاحب تشریف لائے ہیں، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
عباس : کون ہیں؟۔۔۔۔۔۔ کہہ دو عباس گھر پر نہیں۔
نوکر: بہت اچھا جناب۔۔۔۔۔۔یہ کارڈ لے لیجئے گا ان کا۔
(تھوڑا وقفہ)
جمیل: ارے بھئی۔۔۔۔۔۔یہ اسلم ہے۔۔۔۔۔۔نوکر کو جلد واپس بُلاؤ۔
عباس: گل خان۔۔۔۔۔۔گل خان۔۔۔۔۔۔کون اسلم؟۔۔۔۔۔۔گُل خان بات سنو۔
جمیل: اسلم۔۔۔۔۔۔وہی اسلم جو لاہور میں ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔۔۔۔۔۔ بھئی واہ اتنی جلدی بھول گئے۔۔۔۔۔۔تمہاری اس کے ساتھ خط و کتابت بھی تو ہے۔
عباس: گل خان۔۔۔۔۔۔ اور دیکھو اگر وہی ہے تو اس سے کوئی بات نہ کرنا۔ لیکن اگراس نے پوچھا کہ شادی کب ہورہی ہے تو میں کیا جواب دُوں گا؟۔۔۔ میری جان کس قدر مصیبت میں پھنس گئی ہے۔۔۔ میں تم سے کیا کہوں جمیل، والدہ نے تو اپنا بُراحال کر رکھا ہے۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ ایکا ایکی کیا ہوگیا۔۔۔
جمیل: لو وہ اسلم آگیا۔۔۔۔۔۔ آوٗ بھئی اسلم۔۔۔۔۔۔کیسے آئے۔
عباس: آئیے، آئیے تشریف لائیے، پر آپ نے اپنی آمد سے مطلع تو کردیا ہوتا۔۔۔ یہاں۔۔۔ یہاں آپ کس کے ہاں ٹھہرے ہیں۔۔۔ یعنی کیا میرا گھر نہیں تھا۔۔۔ ابھی پرسوں ہی تو آپ کا خط مجھے ملا ہے، اس میں لکھ دیا ہوتا۔۔۔تشریف ر کھیئے۔۔۔ ہاں ۔۔۔ہاں۔۔۔ تو میں کیا کہہ رہا تھا بات دراصل یہ ہوئی اسلم صاحب کہ میں۔۔۔ کہ میں بہت پریشان ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں آپ کے خط کا جواب نہ دے سکا۔
اسلم: کوئی حرج نہیں اور اپنی آمد کی اطلاع دینے کے متعلق یہ عرض ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ میں اتنی جلدی ادھر آنکلوں گا۔۔۔ قصہّ یہ ہے کہ مجھے کل جاوید کا خط ملا تھا چنانچہ مجھے فوراً ہی ادھر کا رُخ کرنا پڑا۔
عباس: تو۔۔۔تو۔۔۔ آپ کو معلوم ہے۔
اسلم: جی ہاں۔۔۔ اور میری عقل کام نہیں کرتی کہ اس نے یہ کیا حماقت کی؟
جمیل: دیکھو اسلم، اب جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔۔۔ خُدا کے لیئے یہ بات اب پھیلنے نہ پائے۔۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو اس میں ایک بڑے خاندان کی عزت کا سوال ہے اور عباس ہمارا دوست ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ جاوید نے اپنے خط میں تمہیں کیا لکھا ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے اس افسوسناک واقعہ کو کس رنگ میں دیکھا ہے۔
اسلم: میں کچھ سمجھ نہ سکا تم نے کیا کہا ہے۔۔۔ جاوید اپنی حماقتوں کو ہمیشہ ہی سے ایک عجیب و غریب رنگ میں دیکھتا رہا ہے جو کہ اس کی سب سے بڑی حماقت ہے۔۔۔ مگر اس واقعے نے تو میرے ہوش گم کردیئے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ یہ بات کس کے ذہن میں آسکتی تھی۔
عباس: میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔۔۔۔۔۔ جاوید صاحب نے کیا کیا ہے۔
اسلم: اس کا خط پڑھ لیجئے۔۔۔۔۔۔(کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ)۔۔۔۔۔۔جمیل میں تم سے کیا کہوں، جاوید جیسا عجیب و غریب آدمی دنیا میں پھر کبھی پیدا نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔
عباس: (تتلا کر) یہ۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کیا جاوید صاحب نے؟۔۔۔۔۔۔یعنی۔۔۔۔۔۔یعنی۔۔۔ اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔۔۔ اور ہم دس دن سے اس کا کھوج لگا رے ہیں۔۔۔ کھانا پینا اور رات کی نیند ہم پر حرام رہی ہے۔۔۔ میں پوچھتا ہوں اس میں انہوں نے کیا مصلحت دیکھی۔
اسلم: یہی تو میں بھی سوچتا ہوں۔۔۔۔۔۔ نکاح ہو چکا تھا، بیوی اس کی تھی، وہ جب چاہتا اسے اپنے گھر لے جاتا مگر یہ اغوا کرنے کی ضرورت اسے کیوں محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔رات کو وہ اسے بھگا کر کیوں لے گیا۔۔۔ اور جیسا کہ آپ کہتے ہیں آپ کو کچھ علم نہیں۔۔۔۔۔۔خُدا جانے آپ نے یہ دن کس طرح گزارے ہوں گے اور وہ۔۔۔اور وہ۔۔۔ اب میں اس کو کیا کہوں۔۔۔
عباس: ٹیڑھی لکیر۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھئے نا خط پر ٹیڑھی لکیر کھینچی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔
- کتاب : منٹو کے ڈرامے
- اشاعت : 1942
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.