تین انگلیاں
افراد
باٹلی والا۔۔۔شوہر شیریں۔۔۔بیوی
جگن ناتھ۔۔۔جوہری کرنل امر ناتھ۔۔۔مہمان
پولیس انسپکٹر اور دو تین سپاہی
ایکٹ پہلا
پہلا منظر
ایک پُر تکلّف طریقے پر سجا ہوا ڈرائنگ روم۔کھڑکیوں پر ریشمی پردے لٹک رہے ہیں۔قالین بچھا ہوا ہے جو کہ بہت دبیزہے۔ باٹلی والا ایک صوفے پر اضطراب کے ساتھ اپنی ٹانگ ہلا رہا ہے۔عقب میں گھر کا نوکر تپائی پر رکھے ہوئے پھولدان کو جھاڑن سے صاف کرنے میں مشغول‘ گھنٹی بجتی ہے۔ باٹلی والا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
باٹلی والا۔وہ آگئے(سنتو سے)دیکھو سنتو باہر کون ہے۔۔۔ میرا خیال ہے کہ لالہ جگن ناتھ ہونگے۔جاؤ اگر وہی ہوں تو انہیں اندر لے لاؤ۔ کہنا صاحب آپ ہی کا انتظار کر رہے ہیں۔
سنتو: بہت اچھا سرکار۔
(سنتو چلا جاتا ہے)
باٹلی والا: میرا خیال ہے جگن ناتھ ہی ہو گا۔۔۔یہ جوہری وقت اور زبان کے بڑے پکے ہوتے ہیں۔
(سنتو اور جگن ناتھ دونوں کمرے میں داخل ہوتے ہیں)
سنتو: صاحب‘لالہ جی تشریف لے آئے ہیں۔
باٹلی والا: آئیے آئیے۔ لالہ جی تشریف لے آئیے۔۔۔خوب وقت پر آئے
جگن ناتھ: آپ نے یاد جو فرمایا تھا۔
باٹلی والا: ادھر کرسی پر تشریف ر کھیئے۔۔۔سنتو تم اب جا سکتے ہو۔۔۔آپ تشریف ر کھیئے۔
(سنتو چلا جاتا ہے)
جگن ناتھ: فرمائیے!کیسے یاد کیا؟
باٹلی والا: میں ابھی سب کچھ عرض کرتا ہوں۔ پہلے آپ فرمائیے کہ آپ کیا پئیں گے۔آج سردی خوب زوروں پر ہے۔
جگن ناتھ: جی نہیں تکلّف کی کوئی ضرورت نہیں۔
باٹلی والا: لالہ جی میں نے آپ کو اس لیئے تکلیف دی ہے کہ مجھے موتیوں کے ایک ہار کی قیمت دریافت کرنا ہے۔
جگن ناتھ: ہار لائیے۔
باٹلی والا: ہار تو میرے پاس نہیں۔
جگن ناتھ: تو میں قیمت کیسے بتاؤں ؟
باٹلی والا: (ہنس کر) میں ہار دکھائے بغیر آپ سے قیمت دریافت نہیں کروں گا ۔ میں ابھی ہار منگاتا ہوں۔ میری بیوی کے پاس ہے۔
جگن ناتھ: آپ اُسے بیچنا چاہتے ہیں۔؟
باٹلی والا: ارادہ تو یہی ہے اگر قیمت اچھی مل جائے۔۔۔ اچھا تو میں ابھی ہار لے کر حاضر ہوتا ہوں۔
جگن ناتھ: بہت بہتر۔
باٹلی والا: اگر کچھ دیر ہو جائے تو معاف فرما دیجئے گا۔
جگن ناتھ: نہیں کوئی بات نہیں۔ مگر آپ جلدی واپس آنے کی کوشش کیجئے گا۔ کیونکہ مجھے دکان پر جانا ہے۔
باٹلی والا: میں ابھی حاضر ہوا۔
(کمرے سے باہر چلا جاتا ہے)
****
دوسرا منظر
ڈرائنگ روم کے ساتھ والا کمرہ خواب۔ یہ بھی پرُ تکلّف سازو سامان سے آراستہ ہے۔ایک خوبصورت پلنگ پر تکیوں کا سہارا لے کر مسز باٹلی والا (شیریں) لیٹی ہے خاوند کے قدموں کی آواز سنتی ہے۔ لیکن حرکت نہیں کرتی وہ اندر داخل ہوتا ہے اور اس کے پاس آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ شیریں اس کی طرف بالکل بے توجہی سے دیکھتی ہے۔
باٹلی والا: شیریں
شیریں: (روکھے پن سے)کیا ہے۔
باٹلی والا: تم ابھی تک سو رہی ہو۔
شیریں: تو کیا کروں؟
باٹلی والا: اُٹھو کوئی بات چیت کرو۔
شیریں: آج میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔
باٹلی والا: کئی دنوں سے تم اس درد کی شکایت کر رہی ہو۔۔۔کسی ڈاکٹر کو بلواؤں۔؟
شیریں: نہیں۔۔۔تمہاری بہت مہربانی ہے۔
باٹلی والا: تم مجھ سے ابھی تک ناراض ہو؟
شیریں: کاش کہ میں ہو سکتی۔
باٹلی والا: تم بات بات پر ٹھنڈی سانسیں بھرنا شروع کر دیتی ہو۔
شیریں: قسمت میں ہے جو یہی۔
باٹلی والا: قسمت کا گلہ ابھی تک تمہاری زبان پر ہے۔
شیریں: زندہ جو ہوں۔
باٹلی والا: تمہارے یہ زہر میں بجھے ہوئے تیرا بھی تک ختم نہیں ہوئے۔
شیریں: میری رگ رگ میں تم خود زہر بھر چکے ہو۔
باٹلی بالا: تمہیں میری قسموں کا اعتبار نہیں آیا؟
شیریں: آجاتا اگر تمہاری آنکھوں میں ہر وقت مجھے ایک سیال خطرہ تیرتا نظر نہ آئے
باٹلی ولا: خطرہ۔۔۔کس بات کا خطرہ؟
شیریں: جانے دو ان باتوں کو ۔۔۔کہو کیسے آئے۔؟
باٹلی والا: ایک دوست ابھی ابھی ملنے کے لیئے آئے ہیں۔ باتوں باتوں تمہارے ہار کا تذکرہ ہوا۔میں نے بہت تعریف کی۔ چنانچہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔یہاں کے بہت بڑے جوہری ہیں۔
شیریں: میرے صندوقچے میں پڑا ہے۔ لے جاؤ۔۔۔پر۔۔۔
باٹلی والا: پر کیسا؟
شیریں: کچھ نہیں۔
باٹلی والا: کچھ تو ہے۔
شیریں : کہہ جو دیا۔کچھ نہیں۔
باٹلی والا: تمہاری مرضی لیکن تمہارے من میں کوئی بات ضرور ہے۔ شیریں پلنگ پر سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھ جاتی ہے اور اپنی انگلیوں کے ناخن رگڑنا شروع کر دیتی ہے)
شیریں: تمہارا خیال صحیح ہے۔۔۔ دراصل میں بہت شکی ہو گئی ہوں جاؤ اپنے جوہری دوست کو ہار دکھا آؤ۔ پھر بات کریں گے۔
(باٹلی والا اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل پر سے ایک صندوقچہ اُٹھاتا ہے)
باٹلی والا: اس صندوقچے میں ہے؟
شیریں: اسی میں ہے۔
باٹلی والا: تم اتنی قیمتی چیزوں کو یوں کھلے صندوقچے میں کیوں رکھا کرتی ہو؟
کچھ احتیاط تو ہونی چاہیئے۔
شیریں: مجھے زیوروں سے اب کوئی دلچسپی نہیں۔
باٹلی والا: تعجب ہے۔
شیریں: واقعی تعجب ہے۔
باٹلی والا: تعجب ہے کہ اتنے سستے داموں پر یہ ہار مجھے کیسے مل گیا تھا۔؟ ایسے خوبصورت اور گول موتی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھے۔۔۔یہ بھی تعجب ہے کہ اس بارے میں تمہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔۔۔شیریں تمہیں ٹھیک رقم یاد ہو گی۔ کتنے میں یہ ہار ہم نے خریدا تھا؟
شیریں: تم نے شادی سے پہلے لیا تھا۔۔۔ جب تم مجھ سے محبت کیا کرتے تھے
باٹلی والا: مجھے یاد آگیا میں نے اُسے سنگاپور میں چالیس ہزار روپے میں لیا تھا
۔۔۔بہت سستا سودا تھا۔ اس غریب کو روپے کی اشد ضرورت تھی‘
۔۔۔بہت سستا سودا تھا‘ کیوں شیریں؟
شیریں: سودا بے شک سستا تھا۔ مگر سستے سودے سستے سودے ہی ہوتے ہیں۔ اگر مجھے حاصل کرنے کیلئے تمہیں بڑی قربانی کرنی پڑتی تو آج حالات بالکل مختلف ہوتے ۔۔۔ اصل میں عورت ہمیشہ بہت سستے داموں پر اپنا آپ حوالے کر دیتی ہے۔
باٹلی والا: اس موقع کو پانچ برس ہو گئے۔۔۔پانچ برس۔۔۔کتنے انقلاب آچکے ہیں۔ مگر یہ ہار ویسے کا ویسا چمکیلا ہے۔۔۔ تمہارے دانت بھی کبھی اس طرح چمکا کرتے تھے۔
شیریں: کبھی
باٹلی والا: (وقفہ) عورتوں اور موتیوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
شیریں: اس لیئے کہ موتیوں کا ہار پرویا جاسکتا ہے عورتوں کا نہیں۔
باٹلی والا: (ہنستا ہے)۔۔۔خوب کہا۔۔۔اچھا میں ابھی آتا ہوں۔۔۔یہ ہار اُسے دکھا دوں۔
شیریں: جاؤ
(باٹلی والا ہارے لے کر باہر چلا جاتا ہے۔ شیریں جمائی لے کر اُٹھتی ہے اور پھر پلنگ پر لیٹ جاتی ہے)
****
تیسرا منظر
وہی ڈرائنگ روم جو ہم پہلے منظر میں دکھا چکے ہیں لالہ جگن ناتھ جوہری اٹھ کر ایک تصویر دیکھنے میں مشغول ہو جاتا ہے گویا اس طرح وقت کاٹنا چاہتا ہے کہ اتنے میں قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے اور باٹلی والا ہار لے کر اندر داخل ہوتا ہے)
باٹلی والا: معاف فرمائیے گا لالہ جگن ناتھ صاحب۔۔۔ مجھے بہت دیر ہو گئی
جگن ناتھ: جی ہاں۔ کافی دیر ہو گئی۔ مگر خیر۔۔۔ آپ ہار تو لے آئے؟
باٹلی والا: جی ہاں۔ لے آیا۔د یکھیئے۔
جگن ناتھ کی ہتھیلی پر ہار رکھ دیتا ہے۔۔۔ جگن ناتھ اسے غور سے دیکھتا ہے)
باٹلی والا: مجھے دیر اس لیئے ہو گئی کہ میری بیوی نے اسے خدا معلوم کہاں رکھ چھوڑا تھا۔ بڑی تلاش کے بعد ملا۔۔۔اسے زیوروں سے بالکل دلچسپی نہیں۔
جگن ناتھ: اس ہارسے بھی نہیں؟۔۔۔ مسٹر باٹلی والا۔ یہ تو بہت ہی قیمتی چیز ہے۔
باٹلی والا: جی مجھے معلوم ہے۔
جگن ناتھ: بہت ہی عمدہ موتی ہیں۔
باٹلی والا: اچھے ہی تھے تو میں نے یہ ہار ایک بہت بڑی قیمت پر خریدا۔
جگن ناتھ: کیا شک ہے۔۔۔آپ نے کم ازکم ۔۔۔کم ازکم۔۔۔ ساٹھ ہزار سے آپ نے کیا کم دئیے ہوں گے؟
باٹلی والا: کم تو نہیں اس سے زیادہ دئیے تھے۔
جگن ناتھ: تو آپ اسے بیچنا چاہتے ہیں۔؟
باٹلی والا: مجھے روپے کی جیسا کہ آپ جانتے ہیں کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر اچھی قیمت مل جائے تو میں اسے بیچ دوں گا۔۔۔میری بیوی سے کسی روز ایسے ہی کھو جائے گا۔۔۔ دراصل وہ اس ہار کو منحوس بھی سمجھتی ہے۔
جگن ناتھ: کوئی خاص بات ہے۔
باٹلی والا: کوئی بھی نہیں۔۔۔عورتوں کے دماغ میں وہم پیدا ہوتے دیر ہی کیا لگتی ہے۔
جگن ناتھ: درست فرمایا آپ نے ۔۔۔ تو آپ اسے بیچ ڈا لنا چاہتے ہیں
(دو نوں صوفے پر بیٹھ جاتے ہیں)
باٹلی والا: اگر کوئی اچھا گاہک مل جائے۔
جگن ناتھ: وہ اچھا گاہک تو ملنا مشکل ہے۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے۔۔۔ایک گاہک میری نظر میں ہے۔۔۔ مسٹرامر ناتھ کو آپ جانتے ہیں؟
باٹلی والا: جی نہیں کون صاحب ہیں؟
جگن ناتھ: بھولا کرنل امر ناتھ
باٹلی والا: جی نہیں‘ میں کرنل امر ناتھ کو نہیں جانتا
جگن ناتھ: ابھی حال ہی میں ریٹائر ہو کر آئے ہیں پہلے سورت میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔
باٹلی والا: سورت میں۔۔۔ میں سورت کا رہنے والا نہیں۔ وہاں کی میری بیوی ہے۔۔۔ ہاں تو یہ کرنل امر ناتھ۔۔۔
جگن ناتھ: میرے بہت پرانے گاہک ہیں ۔شاید وہ یہ ہار لینا پسند کر لیں
باٹلی والا: آدمی کیسا ہے۔؟
جگن ناتھ: بے حد شریف آدمی ہیں۔۔۔ابھی تو جوان ہیں۔ نہ معلوم کیسے ریٹائر ہو کر یہاں چلے آئے؟
باٹلی والا: تو یہ کرنل صاحب ہار لے لیں گے؟
جگن ناتھ: میرا خیال ہے۔
باٹلی والا: تو آپ ان سے بات چیت کیجئے۔۔۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔
جگن ناتھ: بہت بہتر
باٹلی والا: جب آپ نے کہا ہے کہ آدمی شریف ہے تو ایسا کیوں نہ کریں کہ اُسے یہیں بلوا لیں آج ہی رات دعوت کر دیتے ہیں۔ میرا مطلب ہے اگر ایسا ہو سکے ۔۔۔اگر وہ یہاں آنا چاہے۔۔۔ تھوڑی دیر بات چیت بھی رہے گی کیا خیال ہے آپ کا؟
جگن ناتھ: عجیب بات ہے وہ کل ہی آپ کا ذکر کر رہے تھے۔
باٹلی والا: کس سلسلے میں؟
جگن ناتھ: مجھے یاد نہیں رہا۔ لیکن ایسے ہی باتوں باتوں میں آپ کا ذکر آگیا تھا میرا تو یہ خیال تھا کہ آپ نہیں جانتے ہوں گے۔کیونکہ جس طرح انہوں نے آپ کاذکر کیا تھا اس سے تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ اور آپ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
باٹلی والا: خیر پہلے نہیں جانتے تھے تو اب جان لیں گے۔ آپ اُنہیں میری طرف سے دعوت دے دیجئے گا۔کہئے گا کہ مسٹر اور مسز باٹلی والا آپ سے مل کر خوش ہوں گے۔۔۔ اگر موقع ملا تو ہار کی بات وہیں ڈنر پر ہو جائے گی۔ آپ کی کمیشن تو ہر وقت کھری ہے۔
جگن ناتھ: تو میں اب جاتا ہوں۔۔۔ یہ لیجئے ہار
دونوں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ باٹلی والا ہار لے لیتا ہے)
باٹلی والا: آپ بھی تشریف لائیے گا۔۔۔۔یعنی اگر کرنل امر ناتھ ہماری دعوت قبول کر لیں تو آپ بھی تشریف لائیے گا۔
جگن ناتھ: بہت بہتر میں حاضر ہو جاؤں گا۔
باٹلی والا: جی نہیں آپ کا آنا بہت ضروری ہے۔۔۔ آپ کو آنا ہی پڑے گا
جگن ناتھ: اگر انہوں نے دعوت قبول کر لی تو میں آپ کو فون کر دوں گا
باٹلی والا: جی ہاں یہ ٹھیک رہے گا
جگن ناتھ: اچھا تو آداب عرض ہے
باٹلی والا: آداب عرض ہے۔
(جگن ناتھ جوہری چلا جاتا ہے۔ دوسرے دروازے سے خود باٹلی والا ہار کو ہاتھوں میں اُچھالتا ہوا باہر نکل جاتا ہے)
****
چوتھا منظر
(شیریں کا کمرہ خواب۔اب شیریں نیا لباس پہن کر آئینے کے سامنے کھڑی ہے اور بڑی بد دلی سے اپنے بال سنوار رہی ہے اس کا شوہر ہاتھوں میں اسی طرح ہار اُچھالتا اندر آتا ہے اور شیریں کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے شیریں اس کے عکس آئینے میں دیکھتی ہے)
شیریں: ہار دیکھ لیا تمہارے دوست نے۔
باٹلی والا: ہاں دیکھ لیا اور میری امید کے مطابق بہت پسند کیا اگر ہم اسے بیچنا چاہیں تو ساٹھ ستر ہزار بڑی آسانی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔
شیریں: بیچ دو۔
باٹلی والا: بیچ کے کیا کروں گا۔۔۔تم بیچ ڈالو۔
شیریں: پڑا رہے۔
باٹلی والا: اچھا تو سنبھالو۔۔۔
شیریں: رکھ دو اس میز پر۔
باٹلی والا(سنگھار میز پر ہار رکھ دیتا ہے اور آرام کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)
تم آج کل اتنی اُداس کیوں رہتی ہو؟
شیریں: (مڑ کر اب پھر وہی باتیں نہ شروع کرو۔۔۔ میں اداس ضرور ہوں پر یہ باتیں اور بھی زیادہ اداس ہیں۔
باٹلی والا: تمہاری تفریح کے لیئے آج میں نے دو دوستوں کو ڈنر پر بُلایا ہے
شیریں: (سنگھار میز کے پاس سے ہٹ کر پلنگ کی طرف جاتے ہوئے) یہ دو دوست کون ہیں۔
باٹلی والا: ایک تو یہی ہوں گے جو ابھی آئے تھے ۔ دوسرے ان کے دوست ہیں۔ ان کو میں نہیں جانتا۔۔۔ تمہارا ہار دیکھیں گے جگن ناتھ کہتا تھا کہ وہ موتیوں کے عاشق ہیں۔۔۔ موتیوں کو کون پسند نہیں کرتا ایک صرف تم ہو جو۔۔۔
شیریں: کیا میرا دعوت میں شامل ہونا ضروری ہے؟
باٹلی والا: ضروری تو نہیں۔ تمہارا جی بہل جائے گا ذرا اِدھر اُدھر کی باتیں کریں گے جگن ناتھ موتیوں کے قصے سُنائے گا اور اس کا دوست جو کہ ڈاکٹر اور ابھی ابھی جنگ کے میدان سے آیا ہے مریضوں کی داستانیں سُنائے گا۔ تم اس سے اپنے درد سر کی دوا بھی پوچھ لینا۔
شیریں: تمہیں میری اتنی فکر نہیں کرنی چاہیئے۔
باٹلی والا: (ہنستا ہے) بہت بہتر۔۔۔ میں یہاں سے چلا جاتا ہوں؟
شیریں: نہیں بیٹھو۔ لیکن ایسی باتیں شروع نہ کرو جس سے ۔۔۔خیر یہ ڈاکٹر کون ہیں؟
(پلنگ پر بیٹھ جاتی ہے)
باٹلی والا: میں نہیں جانتا۔۔۔ اگر انہوں نے دعوت قبول کر لی تو آج شام کو پتہ لگ جائے گا۔۔۔(ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے)
باٹلی والا: دیکھنا کون ہے۔۔۔ میرا خیال ہے جگن ناتھ ہو گا۔
شیریں: یہی جو ابھی آئے تھے۔
باٹلی والا: ہاں یہی۔۔۔دیکھو تو۔
شیریں: (اُٹھ کر تپائی پر سے ٹیلیفون کا چونگا اٹھاتی ہے)۔۔۔ ہیلو۔۔۔مسز باٹلی والا
سپیکنگ۔۔۔گڈایوننگ۔۔۔جی ہاں۔۔۔ میرے پاس ہی بیٹھے ہیں۔۔۔بہت بہتر۔۔۔شکریہ۔۔۔
(ٹیلیفون کا چونگا رکھ دیتی ہے)
باٹلی والا: جگن ناتھ ہی تھا۔
شیریں: وہی تھا۔۔۔ آپ کی دعوت قبول کر لی گئی ہے۔۔۔نو بجے یہ لوگ پہنچ جائیں گے۔
****
(ایکٹ دوسرا)
رات کا وقت ۔وہی ڈرائنگ روم جو ہم پہلے منظرمیں دیکھ چکے ہیں پردہ اٹھتا ہے گھڑیاں نو بجاتی ہیں۔ باٹلی والا کرنل امر ناتھ اور جگن ناتھ تینوں کھڑے نظر آتے ہیں۔
باٹلی والا: آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی کرنل امر ناتھ
امر ناتھ: آپ سے زیادہ مجھے ہوئی۔
باٹلی والا: ہاتھ نہیں ملائیں گے آپ۔
امر ناتھ: (ہنس کر) اتنے تکلفات کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ اس کے علاوہ ہاتھ ملانا کچھ مناسب نہیں سمجھتا۔ آپ بُرا نہ مانیے گا۔طبی نقطہ نگاہ سے ہاتھ ملانا ٹھیک نہیں۔
باٹلی والا: (ہنستا ہے) نہ جانے کیا کیا نقطے اور پیدا کیئے جائیں گے۔۔۔ بہر حال آپ کی ہر بات ماننی پڑے گی۔
امر ناتھ: (ہنستا ہے) ڈاکٹروں کی ہر بات مان لی جائے تو آدھی بیماریاں کم ہوجائیں۔
باٹلی والا: جگن ناتھ صاحب آپ خاموش کیوں ہیں۔۔۔بتائیے کیا آپ کرنل صاحب کی ہر بات مان لیا کرتے ہیں؟
جگن ناتھ: میں نے تو آج تک ان کی کوئی بات نہیں مانی۔
باٹلی والا: یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہمیشہ زُکام کی شکایت رہتی ہے۔
(امر ناتھ جگن ناتھ اور باٹلی والا تینوں ہنستے ہیں اور صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں)
باٹلی والا: (توقف کے بعد) کرنل امر ناتھ میں بہت ممنون ہوں کہ آپ غریب خانے پر بغیر کسی تعارف کے تشریف لے آئے۔
امر ناتھ: آپ مجھے شرمندہ نہ کریں۔ ممنون مجھے ہونا چاہیئے۔
باٹلی والا: کرنل امر ناتھ میں آپ سے ایک بات پوچھوں۔ آپ اپنا یہ ہاتھ جیب میں کیوں رکھتے ہیں۔ کیا اس میں بھی کوئی خاص نکتہ ہے۔
امر ناتھ: (ہنس کر) جی نہیں۔۔۔عادت سی ہو گئی ہے۔
باٹلی والا: آدمی عجیب عادات اختیار کر لیتا ہے(شیریں اندر داخل ہوتی ہے سیاہ لباس میں) لیجئے شیریں بھی آگئی۔۔۔شیریں آؤ۔۔۔کرنل امر ناتھ سے ملو۔
شیریں: (چونک کر)کرنل امر ناتھ۔۔۔
(امر ناتھ اُٹھ کر شیریں کی طرف دیکھتا ہے اور گھبرا جاتا ہے)
امر ناتھ: میں۔۔۔ میں!
باٹلی والا: کرنل امر ناتھ یہ میری بیوی ہے۔
امر ناتھ: ب۔۔۔ب۔بہت خوشی حاصل ہوئی۔
باٹلی والا: شیریں یہ کرنل امر ناتھ ہیں۔
شیریں: آپ تشریف رکھئے۔۔۔میں یہاں بیٹھ جاؤں گی۔
(کرنل امر ناتھ اپنی جگہ بیٹھ جاتا ہے شیریں ایک کرسی آگے کر کے اس پر بیٹھ جاتی ہے)
جگن ناتھ: معلوم ہوتا ہے مسز باٹلی والا سے آپ کی پہلے ملاقات ہو چکی ہے۔
شیریں: جی ہاں یہ سورت میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔
باٹلی والا: تو۔۔۔تو۔۔۔ آپ نے مجھے کبھی دیکھا ہو گا؟ ممکن ہے کبھی ملاقات بھی ہوئی ہو۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی شیریں نے آپ سے طبی مشورہ بھی لیا ہو۔
امر ناتھ: جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے۔
باٹلی والا: (اچانک جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہے) میں ابھی حاضر ہوا۔۔۔ایک ضروری ٹیلیفون کرنا ہے
(باہر چلا جاتا ہے)
جگن ناتھ: کرنل امر ناتھ۔ آپ نے مسزباٹلی والا کا ہار دیکھا؟
امر ناتھ: جی ہاں دیکھا ہے۔ سب سے پہلے میری نظر اُسی پر پڑی تھی۔
شیریں: آپ دیکھئے گا؟
امر ناتھ: اگر آپ کو اعتراض نہ ہو۔
شیریں: مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ آپ شوق سے د یکھیئے ۔۔۔یہ ۔۔۔یہ لیجئے۔۔۔گلے سے ہار اُتار کر امر ناتھ کو دیتی ہے)
امر ناتھ۔شکریہ۔۔۔بہت اچھا ہار ہے۔۔۔ہر ایک موتی اپنی جگہ ۔۔۔ ہیں یہ کیا ہوا؟۔۔۔(ایک دم لائٹ اوف ہو جاتی ہے۔بالکل اندھیرا چھا جاتا ہے)
جگن ناتھ: لائٹ اوف ہو گئی۔
شیریں: (گھبرا کر)۔۔۔ یہ کیا ہوا؟
امر ناتھ: کچھ نہیں۔۔۔ابھی روشنی ہو جائے گی۔
شیریں: امر ناتھ۔
جگن ناتھ: مسز باٹلی والا۔۔۔مسٹر باٹلی والا کہاں گئے؟
ایک دم شیریں کے چیخنے کی آواز۔۔۔دو آدمیوں کی باہمی کشمکش۔۔۔شیریں اور زیادہ زور سے چیختی ہے مگر یہ چیخ اُس کے حلق ہی میں دبا دی جاتی ہے۔۔۔گلا گھونٹا جاتا ہے شیریں سانس لینے کی کوشش کرتی ہے مگر اُسے سانس نہیں آتا۔۔۔اس دوران میں جگن ناتھ پاگلوں کی طرح چیختا رہتا ہے۔’’ مسٹر باٹلی والا۔۔۔ مسٹر باٹلی والا۔۔۔یہ کیا ہو رہا ہے؟ کوئی ہے۔۔۔کوئی ہے۔۔۔ شیریں کچھ کہنا چاہتی ہے مگر اس کی آواز اس کے گلے ہی میں دبا دی جاتی ہے۔ پھر ایک دم روشنی ہوتی ہے۔ قالین پر شیریں کی لاش پڑی دکھائی دیتی ہے
جگن ناتھ: روشنی ہو گئی۔۔۔مہ۔۔۔مہ۔۔۔مگر یہ کیا ہے۔۔۔مسز باٹلی والا مسز باٹلی والا بے ہوش پڑی ہیں۔ کرنل امر ناتھ۔۔۔کرنل امر ناتھ (ایک لحظہ کے لیئے مکمل سکوت)
جگن ناتھ: کون؟
باٹلی والا: میں ہوں۔۔۔کیوں۔۔۔ارے یہ کیا ہوا(دوڑ کر شیریں کی لاش کے پاس جاتا ہے) ۔۔۔شیریں۔۔۔شیریں۔۔۔شیریں۔جگن ناتھ صاحب یہ کیا معاملہ ہے؟
جگن ناتھ: (لزراں آواز میں) مجھے۔۔۔مجھے کچھ معلوم نہیں۔
باٹلی والا: شیریں۔۔۔شیریں۔۔۔ (آواز بھرا جاتی ہے) شیریں۔۔۔ اس کا گلاکس نے گھونٹا ہے؟ ۔۔۔جگن ناتھ صاحب آپ دیکھ رہے ہیں یہ نشان گردن پر۔۔۔دس انگلیوں کے نشان صاف طور پر نظر آرہے ہیں۔۔۔ کرنل امر ناتھ کہاں ہیں؟(قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ باٹلی والا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔سامنے کے دروازے سے کرنل امر ناتھ اندر آتا ہے)
امر ناتھ: فرمائیے
جگن ناتھ: آپ کہاں چلے گئے تھے۔۔۔ آپ نے۔۔۔ آپ نے دیکھا۔۔۔یہ کیا ہو گیا ہے؟
امر ناتھ: (سنجیدگی کے ساتھ) میں ٹیلیفون کرنے گیا تھا۔
باٹلی والا: ٹیلیفون؟
امر ناتھ: جی ہاں۔پولیس اسٹیشن کرنا تھا
(سنتو پاگلوں کی طرح دوڑتا اندر آتا ہے)
سنتو: سرکار۔۔۔سرکار۔۔۔
باٹلی والا: کیا ہے؟
سنتو: تھانے سے کچھ آدمی آئے ہیں۔
باٹلی والا: اُنہیں اندر بھیج دو۔
(سنتو باہر چلا جاتا ہے)
باٹلی والا: ہار؟۔۔۔ہار کہاں ہے؟۔۔۔شیریں نے ہار پہنا ہوا تھا۔
جگن ناتھ: کرنل صاحب آپ نے لیا تھا۔
امر ناتھ: میں نے۔۔۔ہار لیا تھا۔ پر جب بجلی گل ہوئی تھی تو یہیں گر پڑا تھا۔۔۔ ٹھہریئے میں ڈُھونڈتا ہوں۔
باٹلی والا: کرنل امر ناتھ۔ آپ کی پوزیشن بہت نازک ہو گئی ہے۔ شیریں کو قتل کیا گیا ہے اور ہار غائب ہے۔
امر ناتھ: آپ کا مطلب؟
باٹلی والا: میرا مطلب بہت واضح ہے۔۔۔پولیس اسٹیشن کو ٹیلیفون بھی آپ ہی نے کیا ہے۔۔۔ (انسپکٹر پولیس اور چند سپاہی اندر داخل ہوتے ہیں)
پولیس انسپکٹر: یہاں سے ٹیلیفون کس نے کیا تھا؟
امر ناتھ: میں نے
انسپکٹر: کیا ہوا ہے؟
باٹلی والا: دیکھ لیجئے۔۔۔میری بیوی کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور ہا ر غائب ہے
انسپکٹر: یہاں سے کوئی آدمی باہر تو نہیں گیا؟
باٹلی والا: جی نہیں۔۔۔ کرنل امر ناتھ میری بیوی کا ہار دیکھنے آئے تھے لالہ جگن ناتھ جوہری کے ساتھ(جگن ناتھ کی طرف اشارہ کر کے)
انسپکٹر: پھر کیا ہوا؟
جگن ناتھ: مسٹر باٹلی والا کہیں ٹیلیفون کرنے باہر گئے۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد ایک دم بجلی اوف ہو گئی اور کسی نے مسز باٹلی والا کا گلا گھونٹ دیا۔۔۔۔ اس قدر اندھیرا تھا کہ سُجھائی نہیں دیتا تھا صرف آوازیں آتی تھیں۔
انسپکٹر: کرنل امر ناتھ کہاں تھے؟
امر ناتھ: بجلی گُل ہوتے ہی میں کمرے سے باہر نکل گیا تھا
انسپکٹر: کیوں؟
امر ناتھ: آپ کو ٹیلیفون کرنے کے لیئے۔
انسپکٹر: آپ نے مسز باٹلی والا کا ہار دیکھا؟
امر ناتھ: جی ہاں انہوں نے اپنے گلے سے اتار کر دیا۔ مگر جب بجلی اوف ہوئی اور میں دوڑ کر باہر نکلا تو وہ یہیں گر گیا۔ تلاش کرنے پر مل جائے گا۔
باٹلی والا: اگر وہ یہاں گرا ہوتا تو نظر آجاتا۔
امر ناتھ: انسپکٹر صاحب۔۔۔میری طبیعت خراب ہے۔ نوازش ہو گی اگر آپ مجھے یہاں سے گھر جانے کی اجازت دے دیں۔
انسپکٹر: کرنل امر ناتھ آپ زیر حراست ہیں۔
امر ناتھ: زیر حراست؟
انسپکٹر: جی ہاں۔۔۔ آپ دوسرے کمرے میں گئے تھے۔۔۔ دیکھو جمال دین تم دوسرے کمرے میں جا کر ہار کی تلاش کرو۔
جمال د ین: بہت بہتر جناب
(باہر چلا جاتا ہے)
امر ناتھ: تو آپ کو مجھ پر شک ہے؟
انسپکٹر: مجھے ہر ایک پر شک ہے؟
جگن ناتھ: (گھبرا کر)مگر۔۔۔مگر میں تو بالکل نردوش ہوں۔
انسپکٹر: تو آپ کی بیوی کا گلا گھونٹا گیا ہے(لاش کے پاس جا کر غور سے گردن کے نشانات دیکھتاہے)۔۔۔ہاں گلا ہی گھونٹا گیا ہے اور بہت ظالمانہ طور پر گھونٹا گیا ہے۔دس انگلیوں کے نشان گردن پر صاف نظر آرہے ہیں۔۔۔کرنل امر ناتھ کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔
باٹلی والا: جی نہیں۔ آج ہی میرے گھر آئے ہیں۔ ہار دیکھنے کے لیئے۔
انسپکٹر: آپ کی بیوی کو جانتے تھے؟
امر ناتھ: ایک دو بار سر سری ملاقات سورت میں ہوئی تھی۔
انسپکٹر: ٹھیک!
جمال دین سپاہی ہار اور ایک اوور کوٹ لیئے اندر خوش خوش داخل ہوتا ہے۔)
جمال دین: انسپکٹر صاحب ہار مل گیا۔
امر ناتھ: لیجئے صاحب ہار مل گیا ہے۔
انسپکٹر: کہاں سے ملا۔
جمال دین: اس اوور کوٹ کی اندرونی جیب سے
انسپکٹر: یہ کوٹ کس کا ہے۔
امر ناتھ: میرا ہے۔۔۔مگر یہ ہار میں نے اس میں نہیں رکھا۔
انسپکٹر: کرنل صاحب اب معاملہ بالکل صاف ہے۔۔۔میں آپ کو مسز باٹلی والا کے قتل کے الزام میں گرفتار کرتا ہوں۔
امر ناتھ: میں نے شیریں کو قتل نہیں کیا۔۔۔آپ۔۔۔آپ غلط کہتے ہیں
انسپکٹر: میں غلط کہتا ہوں لیکن مرحومہ کی گردن غلط نہیں کہتی۔ اس پر آپ کے دونوں ہاتھ نہ مٹنے والا نقش چھوڑ گئے ہیں۔
امر ناتھ: تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں نے شیریں کا گلا گھونٹا ہے۔؟
انسپکٹر: جی ہاں۔
امر ناتھ: اور یہ دس انگلیوں کے نشان جو بیچاری شیریں کی گردن پر نظر آرہے ہیں میرے ہیں؟
انسپکٹر : جی ہاں۔
امر ناتھ: تو آپ کو بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔
انسپکٹر: کیسے؟
امر ناتھ: ادھر دیکھئے۔۔۔(کوٹ میں سے ہاتھ نکالتا ہے)۔۔۔ آپ میرا یہ ہاتھ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ داہنا ہاتھ۔۔۔ ایک ۔دو۔تین اس میں تین انگلیاں نہیں ہیں۔۔۔ایک آپریشن میں تین انگلیاں کٹوا کر مجھے جنگ کے میدان میں سے یہاں آنا پڑا ہے ۔سنّاٹا چھا جاتا ہے
انسپکٹر: تین اُنگلیاں ۔۔۔ہاں سچ مچ تین انگلیاں غائب ہیں تو پھر مسز باٹلی والا کو قتل کس نے کیا ہے؟
امر ناتھ: آپ مسٹر باٹلی والا کو اپنی بیوی شیریں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیجیئے۔۔۔ عدالت میں سارا واقعہ میں بیان کردوں گا۔۔۔ سورت میں بھی انہوں نے ایک دفعہ اس غریب کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر میں نے بچا لیا تھا۔۔۔ افسوس ہے کہ اس مرتبہ باوجود کوشش کے اس کو نہ بچا سکا۔
(شیریں کی لاش کی طرف دیکھتا ہے اور فرطِ غم سے منہ موڑ لیتا ہے)
باٹلی والا: یہ جھوٹ ہے۔۔۔(کانپتی آواز میں)۔۔۔یہ جھوٹ ہے۔۔۔
انسپکٹر: بھاگنے کی کوشش نہ کیجئے۔۔۔سپاہی مکان کے باہر بھی کھڑے ہیں۔
انسپکٹر باٹلی والا کو پکڑ کر ہتھکڑی پہنا دیتا ہے‘
پردہ
- کتاب : افسانے اور ڈرامے
- اشاعت : 1943
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.