ٹیپو کی موت
جولیس سیزراورسکندرِ اعظم کے بعد دنیا کے بڑے سپہ سالار اور فاتحوں کی فہرست میں نپولین کا نام آتا ہے ۔ اسکندر اور جولیس سیزر کی فتوحات کو ایک زمانہ گزر چکا ہے ۔۔۔ آج کل نپولین کا نام ہی سب سے پیش پیش ہے کہ یورپ سے ابھی تک اس جنگ جو انسان کے دہشت ناک کارناموں کے نقش نہیں مٹے ۔۔۔ نپولین اعظم کی بزرگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اگر ہم میسورکے بادشاہ فتح علی ٹیپو کی زندگی کو پیشِ نظر رکھیں اور دنیا کی ان دو نامور ہستیوں کے لمحات آخری لمحات کا موازنہ کریں ۔۔۔ تو ذیل کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
نپولین کی قوم نے نپولین کا پورا ساتھ دیا ۔ اس کے ہر معرکے میں اس کی قوم بہ دل و جان شریک رہی۔ اس کے افسر وفادار تھے۔ اور اس کے ایک اشارے پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھے۔ اس کے برعکس ٹیپو سلطان کے امراء اوروزراء اس کی تخت نشینی سے لیکر اس کی موت تک اس کے زوال کی تدبیریں سوچتے رہے۔ سلطان کی آستین میں اپنے پالے ہوئے اتنے سانپ تھے کہ نپولین کے دشمن نہیں ہونگے۔ نپولین کو جب شکست ہوئی تو اس نے اپنا وطن دشمنوں کے سپرد کرنے ہی میں سلامتی سمجھی۔ اس نے اپنے آپ کو بھی دشمنوں کے حوالے کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سینٹ ہلینا میں قید کردیا گیا جہاں اس نے بڑی تکلیف میں جان دی۔
سلطان کو جب اپنے وزراء اور امراء کی سازش کے باعث شکست ہوئی تو اس نے بہادر سپاہی کی طرح اپنی آزادی برقرار رکھنے اور اپنے ملک وملت کی ناموس بچانے کے لیئے شمشیر بکف مرنا قبول کیا۔
پروفیسر جالیسر ٹیپو سلطان کے متعلق کہتے ہیں: اس کے حریف ہمیشہ اس کو مٹانے پر آمادہ اوراندرون سلطنت اس کے خاص افسر اس کے زوال کے لیئے سازشیں کرتے رہے۔ مگر یہ سلطان ہی کا دل و جگر تھا کہ سترہ سال تک ان سب کا نہایت خوبی اور کامیابی سے مقابلہ کیا ۔۔۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم شیرِمیسور کے آخری لمحات بیان کریں گے وہی ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔
سلطان کا نیئر اقبال ڈوب چکاتھا۔ اتحادیوں کی چال کامیاب ہوگئی تھی ۔ میدان جنگ میں اور دارالسلطنت میں ہر جگہ نمک حرام افسراتحادیوں کی انگلیوں پر رقصاں تھے۔ میدان جنگ میں سلطان کو خبر پہنچی کے سرنگاپٹم پر حملہ کی تیاری ہو رہی ہے۔ اور میر قمر الدین نے غداری کرکے انگریزی فوج کا کورگ میں مقابلہ نہیں کیا جس کی وجہ سے جنرل سٹوارٹ بغیر کسی رکاوٹ کے پایۂ تخت پہنچ گیا ہے۔ یہ خبر سُنتے ہی سلطان دارالسلطنت کو روانہ ہوا۔
سلطان کے پلٹتے ہی انگریز ی فوج بغیر کسی مدافعت کے سرنگا پٹم پر بڑھی اور جنرل سٹوارٹ کی فوج کے ساتھ مل کر ان مورچوں پر قابض ہوگئی جو سلطان نے قلعہ کے سامنے شمال میں بنوائے تھے۔ یہاں بھی سازش کے باعث مدافعت بالکل نہ ہوئی۔ غرض جب انگریزی فوجوں نے سرنگا پٹم کے اطراف میں اچھی طرح ضروری اورمضبوط مقامات پر قبضہ کرلیا تو گولہ باری شروع ہوئی جس کے باعث قلعے کی دیوار چھلنی ہوگئی۔
ٹیپو: تم نے نمک حرامی اور غداری کی داستان سُن لی!
سید غفار: (دُکھ بھرے لہجہ میں) ہاں ۔ عالی جاہ! سُن لی۔ غُلام کو یقین نہیں آتا کہ دنیا میں نمک حراموں کا وجود ہوسکتا ہے۔
ٹیپو: اس لیئے کہ تم ٹیپو کے وفادار دوست ہو۔ اس لیئے کہ تمہارا دل انسانیت سے لبریز ہے ۔۔۔ مگر سید غفار! دنیا غداروں سے خالی نہیں ۔ اگر دنیا میں غدار نہ ہوتے تو آج ہمیں اس قدر پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ہمیں قسم ہے اس خدا کی جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے کہ ہمیں ان انگریزوں نے اتنا پریشان نہیں کیا جتنا ہمیں اپنے دوست نما دشمنوں نے کیا ہے۔
نواب علی خان: حضور کو اب محتاط ہونا لازم ہے۔
ٹیپو: اب احتیاط کرنے سے کیا ہوگا۔ غدار ہماری جڑوں میں پانی پھیر چکے ہیں۔ خُدا کی قسّم اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ ہمارے دربار میں کون کون آدمی غدار ہے تو ہم ان خبیثوں کو ایسی کڑی سزا دیں کہ ۔۔۔ پر اب کیا ہوسکتا ہے۔ دشمن اپنا کام کرچکا ہے ۔۔۔ ہمارے گھر کے چراغ ہی سوختہ سامانی کی بنیادیں استوار کرچکے ہیں۔
سید غفار: مگر ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیئے۔
ٹیپو: سید غفار ! ہم نا اُمید نہیں ہیں۔ ٹیپو سلطان کی رگوں میں جب تک حیدر علی کے خون کا ایک قطرہ بھی باقی ہے وہ دشمن کا اسی شدت سے مقابلہ کرئے گا ۔ سید غفار! قسم ہے پروردگار کی یہ انگریز خواہ کتنے بھی طاقتور ہوجائیں ان کے دلوں سے ٹیپو کی دہشت کبھی دُور نہیں ہوسکتی۔
سید غفار: بالکل درست ہے عالی جاہ! ۔۔۔ اس کا دشمن کو بھی اعتراف ہے ۔
ٹیپو: یہ سب کچھ ہے ۔۔۔ ہمیں اپنی قوت کا بخوبی اندازہ ہے۔ مگر سید غفار جو کچھ گلشن آباد کی سرحد پر ہوا اس نے ہمارا دل بہت مغموم کردیا ہے ۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس مورچے پر ہماری فوجوں کو کیوں شکست ہوئی ۔۔۔ کیا اس میں بھی تو کسی سازش کا ہاتھ نہیں ۔
سید غفار: عالی جاہ! میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ صرف شکوک ہی شکوک ہیں۔
ٹیپو: (اضطراب کے ساتھ ) ۔۔۔ شکوک ۔۔۔ شکوک ۔۔۔ ہر طرف شکوک ہی شکوک ۔۔۔ قلعے کی دیوار گولہ باری سے چھلنی ہوتی جارہی ہے ۔۔۔ انگریز بڑھتے چلے آرہے ہیں اوریہاں ہم شکوک کا ایک بہت بڑا ڈھیر لیئے اسے کرید رہے ہیں ۔۔۔ سید غفار ! نواب حسین علی خان ! سب شکوک اپنے دل سے نکال دو۔ آؤ۔ دشمن کا جم کر مقابلہ کریں ۔۔۔ آؤ کوئی تدبیر سوچیں۔
ٹیپو سلطان کو اپنے افسروں اور معتمدوں کے طرزِ عمل سے معلوم ہوگیا کہ ان میں سے کچھ دشمن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور کچھ ناتجربہ کاری کے باعث سرگرمی دکھانے سے معذور ہیں۔ چنانچہ اس نے 24 ذیعقد 1213 ء کو موسیو سپیو اور دوسرے فرانسیسی افسروں کو بلایا۔
ٹیپو: موسیو سپیوہم نے تمہیں تمہارے دوستوں کو اس لیئے یاد کیا ہے کہ چند ضروری باتیں کہنا ہیں۔
موسیو سپیو :
ٹیپو: موجودہ حالات تم دیکھ رہے ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ قابلِ اطمینان نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہم اپنا دوست یقین کرتے تھے عین موقع پر دشمن ثابت ہوئے۔ ان کی دغا بازی اور مکاری کو ہم حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ غم و غصے کی لہریں ہمارے دل و دماغ پر دوڑ رہی ہیں اور غنیم کا زور ساعت بساعت بڑھتا چلا آرہا ہے ۔۔۔ کیا ہماری حالت قابلِ رحم نہیں۔
موسیو سپیو: مگر عالی جاہ! آپ کے سارے دوست غدار نہیں۔
ٹیپو: موسیو سپیو۔ ہم تمہارے جذبۂ دوستی کی قدر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس وقت تمہیں یاد کیا بولو اب تمہاری رائے کیا ہے۔
موسیو سپیو: ہم نے حضرت کا نمک کھایا ہے اور حضور نے ہمیشہ ہم پر بھروسہ کیا ہے۔
موسیولالی: ہم اعلیٰ حضرت کے لیئے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں۔ صرف اشارے کی دیر ہے۔
ٹیپو: موسیو لالی۔ ہمیں تمہاری دوستی پر یقین ہے۔
موسیو سپیو: حضور کو ہمارا مشورہ درکار ہے۔؟
ٹیپو: ہاں ہاں! موسیوسپیو۔ اسی لیئے ہم نے تمہیں یہاں بلوایا ہے۔
موسیوسپیو: تمام حالات کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے خادم یہی مشورہ دے گا کہ آپ جواہرات کی پٹیاں ، اشرافیاں اور توشے خانے کاسارا قیمتی سامان لیکر حرم سراکی خواتین سمیت آدھی رات کی خاموشی میں قلعہ معلی سے باہرتشریف لے جائیں۔
ٹیپو : (سوچتے ہوئے) پھر
موسیوسپیو: باہرنکل کر دس ہزار سوار اورپانچ ہزار فوج باقاعدہ پیادہ کا زبردست بدرقہ بیس ضرب توپ کے ساتھ لے لیں اور یہ سبیل یلغار صوبہ سرا اورقلعہ چتلدرگ پر جاپہنچیں۔
ٹیپو: یہاں پھر وہی اعتماد کا ٹیڑھا سوال ہے۔
موسیو لالی: فدوی اور موسیو سپیو پر حضور اعتماد فرماویں یہ قلعہ ہماری تفویض میں چھوڑ جائیں ۔ جب تک ہم میں سے ایک بھی باقی رہے گا حضور کے ادائے نمک میں قصور نہ ہوگا۔
موسیوسپیو: اور اگر یہ بات منظور خاطر نہ ہو تو حضور ہم سب فرانسیسیوں کو پکڑ کر انگریز کے حوالے کردیں ۔ ہم ان کے قبضے میں آگئے تو وہ حضور کے ساتھ مصالحت کی گفتگو شروع کردیں گے کیونکہ انہیں زیادہ تر ہمارے ہی ساتھ کینہ و پر خاش ہے۔
ٹیپو: آفرین ہے تم پر موسیو سپیو ۔۔۔ تم نے ہمارے زخموں پر مرہم رکھ دیا ۔۔۔ خدا تمہیں اس کی جز ادے۔۔۔ مگر ہمیں تمہاری یہ تجویز قبول نہیں ۔
موسیوسپیو: عالی جاہ ! ہم صدق دل سے چاہتے ہیں کہ آپ کی یہ پریشانی دُور ہوجائے۔
ٹیپو: دوستو تم غریب الوطن ہمارے بلانے پر یہاں آئے ہو اور تم ہمیشہ ہماری رفاقت اور وفاداری کا دم بھرتے رہے ہو۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم تم جیسے شریف بہادر۔ نمک حلال اور وفادار دوستوں کو دشمن کے حوالے کردیں۔
موسیوسپیو: یہ اعلیٰ حضرت کی زرہ پروری ہے مگر حالات ہی کچھ ایسے ہیں۔
ٹیپو: حالات کیسے بھی ہوں اگر ہماری تمام سلطنت تاخت و تاراج ہوجائے تو بھی ہم تمہیں کبھی انگریزوں کے حوالے نہیں کریں گے ۔۔۔ ٹیپو اپنی بے داغ زندگی پر یہ دھبا کبھی نہیں لگائے گا۔ ہم مورخوں کو یہ موقع نہیں دیناچاہتے کہ جب وہ شیرِ میسور کے حالاتِ زندگی قلمبند کریں اس کی بلند سیرت کا ذکر کریں تو آخر میں یہ بھی لکھیں کہ اس نے حالات سے پریشان ہوکر اپنے فرانسیسی دوستوں کو دشمن کے حوالے کردیا ۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا موسیوسپیو۔
اس کے بعد سلطان نے نمک حرام دیوان میر صادق اور پورنیا سے فرانسیسی سرداروں کے مشورے کا ذکر کیا اور رائے طلب کی۔
ٹیپو: کیوں میرصادق تمہارا کیا خیال ہے ؟
میرصادق: اعلیٰ حضرت کا فیصلہ اٹل ہے مگر غلام کا خیال کچھ اور ہی ہے۔
ٹیپو: ظاہر کرو۔
میرصادق: اس قوم نے کس کس کے ساتھ وفا کی ہے جو آپ کے ساتھ کریں گے۔
پورنیا: فرانسیسی اور انگیز دونوں ایک ہیں۔
میرصادق: اعلیٰ حضرت یہ دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہ دونوں آخر میں ایک ہوجائیں گے ، نقصان ہمیں ہی ہوگا۔ اس سفید چمڑی کے آدمیوں کو ہم سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے۔
پورنیا: سگ زرد براور شغال ۔
میرصادق: حضرت یقین فرمالیں کہ جیسے ہی آپ نے قلعہ ان کے سپرد کیا یہ انگریزوں کے حوالے کردیں گے۔
ٹیپو: ہمیں ان کی وفاداری پر پورا پورا بھروسہ ہے۔
میرصادق: غلام نے اپنا خیال ظاہر کردیا ہے ماننا نہ ماننا اعلیٰ حضرت کا اختیار ہے۔
ٹیپو: ہمارے اختیار میں بہت سی باتیں ہیں اگر تقدیر پر ہمیں کوئی اختیار ہوتا تو میر صادق آج ہماری صفوں کے درمیان یہ غدار نہ ہوتے ، جن کی مکاریوں کے باعث ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔ ہم انگریزوں سے صلح کے طالب ہوئے مگر ان کی طرف سے ایسی ذلیل شرطیں پیش کی گئی ہیں کہ خُدا کی قسّم ہمارا خون کھول رہا ہے اگر آج ہمارے دوست ہمارے دشمن نہ ہوتے تو میر صادق تم دیکھتے ہم دشمن کے تمام ارادوں کو یوں پاؤں تلے روند دیتے ۔۔۔ ہم ان کی ذلیل شرائط ہرگز قبول نہیں کریں گے ۔
میرصادق: اعلیٰ حضرت کی مرضی کے آگے ہمارا سرخم ہے ،
ٹیپو: وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے فرانسیسی دوستوں کو ان کے حوالے کردیں ۔۔۔ ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے ۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم خراج ادا کریں ۔۔۔ ٹیپو اور خراج گذار؟ ۔۔۔ ناممکن ہے ۔۔۔ اور میرصادق تم نے ان انگریزوں کی بے ایمانی دیکھی ۔۔۔
میرصادق: کیا اعلیٰ حضرت!
ٹیپو: تم بھی ہم سے پوچھتے ہو کہ کیا ؟ ۔۔۔ انہوں نے شرائط ماننے کے لیئے ہمیں چوبیس گھنٹے کی مہلت دی ہے ۔ لیکن اس دوران میں برابر قلعے پر گولہ باری ہو رہی ہے ۔۔۔ اس بے اصولی نے ہمیں بہت خشم آلود کیا ہے۔
پورنیا: تو اب حضور کا کیا ارادہ ہے۔
ٹیپو: بدرالزمان خان کو ہمارے حضور میں بلایا جاوے۔ ہم اس کو چند احکام دینا چاہتے ہیں۔
میرصادق: بہت اچھا عالی جاہ! میں انہیں ابھی آپ کی خدمت میں حاضر کرتا ہوں۔ (چلا جاتا ہے)
ٹیپو: (اضطراب کے ساتھ ٹہلتے ہوئے) ۔۔۔ کاش ہمیں ان غداروں کا پتہ چل جاتا ۔ پورنیا ۔۔۔ ان انگریزوں کو ہمارا گھر جلانے کے لیئے ہمارے ہی گھر کے چراغ مل گئے ہیں۔ ہم ان کی شرائط ہرگز قبول نہیں کریں گے۔۔۔ (میرصادق بدرالزمان نائطہ کے ہمراہ اندر داخل ہوتا ہے)
میرصادق: عالی جاہ! حسب الحکم بدرالزمان خان نائطہ حاضر ہیں۔
ٹیپو: بدرالزمان آؤ۔ ہم تمہیں چند احکام دینا چاہتے ہیں۔
بدرالزمان: ارشاد عالی جاہ!
ٹیپو: تمام جواہرات اور خزانہ ۔۔۔ توشے خانے کاتمام اعلیٰ ساما ن صندوقوں میں بند کرکے اونٹوں پر لدوا دیا جائے ۔ حرم سرا کی زنانہ سواریوں کے لیئے تیز رفتار بیلوں اور کہاروں کا فوراً انتظام کردیاجائے۔ ہمراہی کے لیئے ہم نہایت معتمد اور جانثار افسر مامور کردیں گے۔
بدرالزمان: عالی جاہ! آپ کا حکم سرآنکھو ں پر مگر غلام کچھ عرض کرنے کی اجازت مانگتا ہے۔
ٹیپو: تمہیں اجازت ہے ، کہو کیا کہنا چاہتے ہو!
بدرالزمان: قبلہ عالم ! جیسے ہی حضور کا مع خواتین حرم سرا قلعہ چھوڑ کر باہر تشریف لے جانامعلوم ہوگا تو سب جاں نثاروں کی ہمت ٹوٹ جائے گی اور شیرازہ جمعیت قائم نہ رہے گا۔۔۔ میرے منہ میں خاک لیکن اس وقت یہ عمل شاہانہ شان کے بھی منافی ہے۔
ٹیپو: میرصادق ۔۔۔ پورنیا۔ تمہاری کیا رائے ہے۔
میرصادق: میرا خیال ہے کہ حضور کا قلعہ نہ چھوڑنا مصلحت کے عین مطابق ہے۔
ٹیپو: تم کیا کہتے ہو پورنیا ۔؟
پورنیا: عالی جاہ! میں بھی دیوان صاحب سے متفق ہوں۔
بدرالزمان: میرے لیئے کیا حکم ہے عالی جاہ!
ٹیپو: تم جاؤ بدرالزمان (ٹھنڈی سانس بھر کر) ۔۔۔ رضائے مولیٰ برہمہ اولیٰ
خدائے قادر کی رضا پر راضی ہوکر سلطان نے اپنا ارادہ تبدیل کردیا ۔۔۔ امراء کی سازش کامیاب ہوئی۔ اگر سلطان قلعے سے باہرچلا جاتاتو یہ سازش کامیاب نہ ہوسکتی۔ سلطان حیران تھا کہ اس کے سردار جا بجا متعین ہیں مگر ان سے کچھ بھی نہیں ہوتا ظاہر ہے کہ بغیر سازش کے یہ ممکن نہیں ان حالات کے پیش نظر سلطان نے حرم سرا کے چاروں طرف خندق کھدوا کر بارود بچھوا دی تاکہ انگریز جب اندر آجائیں تو حفظِ ناموس کے لیئے حرم سرا کو اُڑا دیا جائے سرداروں کو سوار اور پیادہ فوج کے ساتھ ضروری مقاموں پرمامور کیا اور ایک فوج انگریزوں کا سامانِ رسد روکنے کے لیئے روانہ کی۔ لیکن سلطان کے کسی حکم کی تعمیل نہ ہوئی اس لیئے کہ ان میں سے اکثر غدار تھے۔ چار مئی کی صبح کا ذکر ہے:۔
نجومی: عالی جاہ! میں آپ کی خدمت میں کچھ عرض کرنے کے لیئے حاضر ہوا ہوں۔
ٹیپو: بولو۔ تمہیں کیا عرض کرنا ہے۔
نجومی: حضور ستاروں کا حساب لگانے پر معلوم ہوا ہے کہ آج کا دن اعلیٰ حضرت کے لیئے نہایت منحوس ہے،
ٹیپو: تو کیا کرنا چاہیئے۔
نجومی: حضور کو صدقہ دینا چاہیئے۔۔۔ غسل فرمانے کے بعد عالی جاہ صدقہ ضرور دیں ۔
ٹیپو: ضرور دیں گے ۔۔۔ ہم غسل کرچکے ہیں، جاؤ دیوان سے کہو کہ ایک ہاتھی کالے مخمل کی جھولی سمیت جس کی جھالر میں کئی سیر کے موتی اورجواہر ٹنکے ہوئے ہیں درویشوں کو دے دیا جائے۔
نجومی: حضور کا اقبال دن بدن ترقی پر ہو۔(چلا جاتا ہے)
ٹیپو: (زیرلب ہنستا ہے) حضور کا اقبال دن بدن ترقی پر ہو!
(ایک خادم آتا ہے )
خادم: عالی جاہ ! آپ کے ارشاد کے مطابق قلعے کی شمالی فصیل کے پاس سایہ دار درخت کے نیچے آپ کا خاصہ چُن دیا گیا ہے۔
ٹیپو: چلو ۔ ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں۔
سلطان نے ابھی خاصے کا ایک لقمہ تناول کیا تھا اور دوسرا لقمہ اٹھانے ہی والا تھا کہ واویلا کرتے ہوئے لوگ دوڑے آئے کہ سید غفارنے اپنی جان شاہ پر نثار کردی ہے۔ سلطان نے اس لقمہ کو ویسا ہی چھوڑ کر دستر خوان سے ہاتھ کھینچ لیا اور ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ۔ ’’ اب ہم بھی آفتابِ لبِ بام ہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر سلطان نے دو نالی بندوق اٹھائی اور چھوٹے دروازے سے باہر نکلا۔ اس وقت سلطان نیم رنگ کپڑے کی قباپہنے ہوئے تھا شاہانہ پگڑی سرپر تھی۔
جس وقت سید غفار کے گولہ لگا، دوپہر کا وقت تھا۔ سپاہ برابر مستعدی سے اپنے کام میں لگی ہوئی تھی ۔ اسی دوران میں پورنیا کا حکم آیا کہ فوجوں کی تنخواہ تقسیم ہو رہی ہے۔ اس لیئے سپاہی آکر اپنی تنخواہ لے جائیں۔ اندرونی سازش یہ تھی کہ جب سپاہ یہاں سے ہٹ جائے تو انگریزی فوج کے چڑھ آنے کے لیئے اشارہ کردیا جائے سپاہی تنخواہ لینے کے لیئے مسجد اعلیٰ کے پاس چلے گئے اور انگریزی فوج اشارہ پا کر آسانی کے ساتھ فصیل پر چڑھ کر قلعے کے اندر داخل ہوگئی۔
انگریزی فوج میں جو شخص سب سے اول تھا جنرل بیرڈ تھا مگر اس کی رہنمائی کیلئے ایک اور شخص اس سے آگے آگے تھا ۔۔۔ میر قاسم علی۔۔۔
انگریزی فوج انہی غداروں کی مدد سے فصیل پر قابض ہوکر قلعے کے اندر داخل ہوچکی تھی ۔ سلطان قلعے میں داخل ہونے کے لیئے جب ڈڈی دروازے پر آیا تو اسے بند پایا۔
ٹیپو: یہ دروازہ اندر سے کس نے بند کیا ہے؟
ایک سپاہی: عالی جاہ! آپ جب اس دروازے سے نکل کر باہر تشریف لے گئے تھے تو دیوان صاحب آپ کے پیچھے آئے تھے۔
ٹیپو: میرے لیئے پیچھے پیچھے آیا تھا تو کدھر گیا ۔ اب کہاں ہے یہ دروازہ کس نے بند کیا ہے۔
سپاہی: عالی جاہ، دیوان صاحب نے ہی دروازہ بند کیا ہے۔
ٹیپو: (حیرت سے ) کیا کہا۔۔۔ میرصادق نے یہ دروازہ بند کیا ہے۔
سپاہی: ہاں عالی جاہ ! انہوں نے اپنے ہاتھ سے یہ دروازہ بند کیا۔
ٹیپو : اُسی نے کیا ہوگا۔۔۔ اب تک اور میر بھی تو کئی دروازے بند کرچکے ہیں۔
ہم سو رہے ۔۔۔ہم غافل رہے ۔
(ایک سپاہی بھاگتا ہوا آتا ہے )
ٹیپو: کیا ہوا! تم اتنے دہشت زدہ کیوں ہو؟
دوسرا سپاہی: (ہانپتے ہوئے) عالی جاہ ! انگریزی فوج قلعے میں داخل ہوکر اس مقام پر آگئی ہے۔
ٹیپو: کس مقام پر ؟
دوسرا سپاہی: یہاں سے بالکل قریب عالی جاہ۔۔۔ آپ کہیں چھپ جائیں۔
ٹیپو: دوست گیڈر کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی اچھی ہے۔
جہاں سلطان جارہا تھا ایک طرف تو انگریزی فوج سے جو فصیل پر تھی اور دوسری جانب سامنے اور پیچھے سے انگریزی فوج کے دوسرے حصے سے سلطان کے سپاہیوں کا مقابلہ ہوگیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد سلطان مع اپنے جاں نثاروں کے محصور ہوگیا۔
بندوقوں کے فائر کے ساتھ ہی ساتھ دست بدست لڑائی شروع ہوئی ۔ خوب گھمسان کی جنگ ہوئی۔ ناگاہ ایک گولی سلطان کے گھوڑے کے لگی۔ گھوڑا وہیں مرگیا۔ اب سلطان پیادہ ہو کر لڑنے لگا۔ چونکہ غداروں سے معلوم ہوچکا تھا کہ سلطان بذات خود اس جنگ میں شریک ہے لہٰذا تمام انگریزی فوج پوری طاقت سے اس جگہ مصروف پیکار تھی جہاں سلطان ایک تنگ جگہ پر محصور تھا ۔ اس دست بدست لڑائی میں جس میں سلطان دادِ شجاعت دے رہا تھا ناگاہ ایک گولی سلطان کے دل کے قریب لگی۔۔۔
ٹیپو : (زخمی ہوکر) راجہ خاں۔۔۔راجہ خاں
راجہ خاں: عالی جاہ!
ٹیپو: اِدھر آؤ ۔۔۔ ایک لمحے کے ۔۔۔ لیئے لڑنا موقوف کرکے اِدھر میرے پاس آؤ۔
راجہ خاں: (سلطان کے پاس جاکر ) ارشاد عالی جاہ !
ٹیپو: ہم زخمی ہوگئے ہیں، راجہ خاں۔
راجہ خاں: (سینے سے لہو نکلتا دیکھ کر ) عالی جاہ۔۔۔ میرے منہ میں خاک مگر آپ کے تو بہت مہلک زخم لگا ہے۔
ٹیپو: گولی کا زخم اتنا مہلک نہیں راجہ خاں ۔۔۔ ہمارا سینہ اور ہی زخموں سے چھلنی ہوچکا ہے۔
راجہ خاں: عالی جاہ! اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو انگریزوں پر ظاہر کردیں۔
ٹیپو: کیا تم دیوانہ ہوگئے ہو راجہ خاں ۔۔۔ خاموش رہو۔
سلطان کو فوراً سپاہیوں نے اٹھا کر ایک پالکی میں لٹا دیا۔۔۔ یہ پالکی دروازے میں رکھ دی گئی ۔ سلطان اس پالکی ہی میں تھا کہ ایک انگریز سپاہی کا گزر اِدھر سے ہو ا اس نے سلطان کی تلوار اور پیٹی چھیننا چاہی جب اس نے ہاتھ دراز کیا تو سلطان نے تلوار سے اس کے پاؤں پر ضرب لگائی۔ اس پر اس انگریز سپاہی نے اپنی بھری ہوئی بندوق سلطان پرخالی کردی۔ جس سے شیرِمیسور کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
جب سلطان کی موت کی خبر جنرل ہارس کو پہنچی تو وہ لاش پر آیا اور فرطِ مسرت سے پکار اُٹھا۔ ’’آج ہندوستان ہمارا ہے!‘‘
- کتاب : جنازے
- اشاعت : 1942
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.