aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
ناول ، افسانہ ، تنقیداور ترجمہ میں ایک اہم قام رکھنے والے عزیز احمد کا مشہور ناول "آگ"کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔جو 1946 میں منظر عام پر آیا۔دوسو بائس صفحات پر مشتمل اس ناول کا موضوع دراصل وہ آگ ہے جس کی لپیٹ میں ساری وادی کشمیر ہے۔اس ناول میں عزیز احمد نے ایک طرف تو انگریز ی حکومت کے خلاف وادی کشمیر میں اور ملک میں آزادی کی تحریکوں کو آگ قرار دیا ہے تو دوسری طرف قالین بافی کا کام کرنے والے کاریگروں کے استحصال کوایسی آگ کہا ہے جس میں یہ کاریگر برسوں سے جلتے آرہے ہیں۔ناول کے نام کی مناسبت سے حالات و واقعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔اس ناول کے کردار بھی موضوع سے مناسبت رکھتے خوب ہیں۔"آگ "کا کنیوس بہت وسیع ہے۔کیوں کہ اس میں تین نسلوں کی کہانی مختلف حوالوں سے سامنے آتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول کی جزئیات نگاری، کسا ہوا پلاٹ، مناسب کردار نگاری ، عمدہ زبان و بیان اور حقیقی منظرکشی نے اسے دلچسپ بنایا ہے۔اس ناول کی سب سے بڑی خوبی حقیقی زندگی سے اس کا گہر اتعلق ہے۔
16 دسمبر 1978ء کو اردو کے نامور افسانہ نگار، مترجم اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے عالمی پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ پروفیسر عزیز احمد 11 نومبر 1913ء کو عثمان آباد ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور وزارت اطلاعات سے منسلک رہے، 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1960ء میں وہ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی علوم سے منسلک ہوئے اور آخر تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگار اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقص ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور ناول گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، ہوس اور شبنم کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی کئی انگریزی کتابوں کے مصنف تھے اور انہوں نے انگریزی کی کئی شاہکار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets