aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اس کتا ب کا مقصد انسان کی روحانی ترقی ہے۔ چونکہ اس موڈرن دور میں لوگ مادہ پرستی کی طرف روز بروز مائل ہو رہے ہیں جس سے روحانی ترقی میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے جسے دور کرنے کے لئے یہ کتاب نہایت ہی مفید ہو سکتی ہے۔ اس کتا بچہ میں اس بات کو موضؤع سخن بنایا گیا ہے کہ کس طرح سے خیال کام کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم کسی چیز کے بارے میں مسلسل خیال کرنے لگ جائیں تو وہ چیز عالم مثال میں متشکل ہو جاتی ہے جس کو مصف نے مختلف مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
شوق قدوائی
شیخ احمد علی قدوائی نام، شوق تخلص۔ قصبہ جگور، ضلع لکھنؤ میں ۱۸۵۲ء میں پیدا ہوئے۔فارسی اور عربی کے علاوہ انٹرنس تک انگریزی بھی پڑھی۔ مظفر علی اسیر کی شاگردی اختیار کی جو رشتے میں ان کے دادا ہوتے تھے۔ کچھ مدت فیض آباد میں تحصیل دار کے فرائض انجام دیے۔ بعد میں ملازمت چھوڑ کر لکھنؤ میں اخبار ’’آزاد‘‘ نکالا۔ کچھ عرصے بعد بھوپال میں مختلف عہدوں پر فائز رہے جہاں نظامت کے عہدے سے پنشن پائی۔ آخر عمر میں رام پور آکر کتب خانہ سرکاری سے وابستہ ہوگئے۔ شوق حسب ذیل مثنویوں کے مصنف ہیں۔(۱) عالم خیال(۲) گنجینۂ(۳) ترانۂ شوق۔ آپ کا دیوان’’فیضان شوق‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ ۲۷؍ اپریل ۱۹۲۵ء کو گونڈہ میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:225
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets