aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو شاعری کی تاریخ میں سارا شگفتہ نثر ی نظم کی نمایاں شاعرہ کے طور پرسامنے آتی ہیں ۔انہوں نے نثر ی نظم کو ہی اپنے پریشان حال خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا. دیگر اصناف کی جانب توجہ نہیں دی ۔ ان کی شاعر ی سے شناخت حاصل کرنے کے لیے ان کی ذات کو بھی جاننا ضروری ہے ۔ ساراشگفتہ بہت زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں میٹر ک بھی مکمل نہیں کر پائی تھیں کہ گھریلو زندگی میں مصروف ہوگئیں اور ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کا خوب سامنا کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے چار بار خود کشی کی بھی کوشش کی ، دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل ہوئیں، آخر میں ٹر ین کے نیچے آکر انہوں نے اپنی جان دے دی۔ان کی شاعری میں ان کی زندگی کے تلخ تجربات کا احساس بخوبی ہے ، اس میں نسوانی احتجاج کی مضبوط آواز ملے گی ۔ ان کا بیانیہ ادھورا، ان کہا، ان چھوا ، چبھتا ، سسکتا اور مچلتا ہوا نظر آتا ہے ۔ ان کی نظمیں تانیثی مطالعہ کو نہ صرف جواز عطا کر تی ہے بلکہ اس کی پرزور تائید بھی کر تی ہے ۔سارا شگفتہ سے امریتاپر یتم کو بہت لگاؤ تھا۔ اس کتاب میں ان کی تحریر بھی ہے اس سے آپ ان کی شاعری کی قدرو قیمت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔
سارا شگفتہ کا شمار اردو کی جدید شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجرانوالہ ، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ اردو اور پنجابی میں معتد بہ نظمیں تخلیق کیں۔ نظمیہ شاعری کے لیے انھوں نے نثری نظم کا پیرایہ اختیار کیا۔ غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھیں مگر میٹرک بھی مکمل نہ کر سکیں۔ ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں نے انھیں سخت ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔ نتیجتاً انھیں دماغی امراض کے اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں انھوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ خود کشی کی یہ کوشش مختلف موقعوں پر چار بار دہرائی گئی۔ ان کی اردو شاعری کے مجموعے ’آنکھیں‘ اور’نیند کا رنگ‘ کے نام سے شائع ہوئے۔
4 جون 1984کو انھوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔ ان کی ناگہانی موت نے ان کی زندگی اور شاعری کے مطالعے کو ایک نئی جہت عطا کی۔ وفات کے بعد ان کی شخصیت پر پنجابی کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پرتیم نے ’ایک تھی سارہ‘ اور انور سن رائے نے ’ذلتوں کے اسیر‘ کے نام سے کتاب تحریر کی اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک ڈرامہ سیریل پیش کیا جس کا نام ’آسمان تک دیوار‘ تھا۔
ہندوستان میں دانش اقبال نے ’سارا کا سارا آسمان‘ کے عنوان سے ڈراما لکھا جسے طارق حمید کی ہدایت میں ملک کے مختلف حصوں میں متعدد دفعہ پیش کیا گیا۔ شاہد انور نے بھی سارا کی زندگی سے متاثر ہوکر ’میں سارا‘ نام سے ایک ڈراما لکھا تھا جو مہیش دتّانی کی ہدایت میں پیش کیا گیا تھا۔ سارا نے محض تیس برس کی عمر میں اپنی نظموں کا مجموعہ ’ آنکھیں‘ کا مسودہ تیار کر کے دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔ مبارک احمد کی توجہ سے احمد ہمیش کے ادارے تشکیل پبلشرز، کراچی سے جنوری 1985 میں ’آنکھیں‘ کا مسودہ کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کا دیباچہ امریتا پریتم نے ’برا کیتو ای صاحباں‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ سارا کی وفات کے بعد کراچی میں سارا اکیڈمی کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا۔ اسی اکیڈمی نے ان کا دوسرا، اردو شعری مجموعہ ’نیند کا رنگ‘شائع کیا تھا۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets