aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظرڈاکٹر جمیل جالبی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ"ادب کلچر اور مسائل" ہے جو انھوں نے 35 سال کے عرصے میں لکھے تھے۔یہ مضمون ان کے پہلے شائع شدہ کتب"تنقید اور تجربہ" اور "نئی تنقید" میں شامل نہیں ہیں۔البتہ مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔یہ مضامین وہ تحریریں ہیں جو جالبی صاحب نے مختلف ادوار میں مختلف موضوعا ت پر کام کرتے ہوئے کسی اہم پہلو کی وضاحت یا کسی نئے موضوع کے بعض مسائل پر لکھی تھیں۔ان مضامین کے مطالعے سے جالبی صاحب کے فکری ،فنی تہذیبی وتنقیدی مطالعے اور مشاہدے کا پتہ چلتا ہے۔ان مضامین میں جالبی صاحب کا غیر معمولی تنوع ،زبان و ادب ،تہذیب وثقافت سے متعلق ان کے متفرق خیالات بھی واضح ہوتے ہیں۔پیش نظر مجموعے میں " ادب اور فکر، ادب کیا ہے، ادب کا منصب ، ادب اور قاری اک رشتہ ،روایت اور جدیدت ، حقیقت اورا فسانہ ،نقاد کا کام، راویت اور جذبات وغیرہ زبان و ادب سے متعلق متفرق مضامین ہیں،جو ادب کے ہر طالب علم کے لیے بیش بہا معلومات فراہم کررہے ہیں۔جن کے مطالعےسے اہل علم،زبا ن و ادب کے کئی اہم موضوعات سے واقف ہوجائیں گے۔
جمیل جالبی کا حقیقی نام محمد جمیل خاں ہے۔ جمیل جالبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی نسبت جالب دہلوی سے رہی تھی اس لئے نام کے آگے جالبی لکھنے لگے۔ ان کے دادا کا نام محمد اسمعیل خاں تھا اور والد محمد ابراہیم خاں۔ والدہ اکبری بیگم تھیں۔ جمیل جالبی کے اسلاف سواد سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ ان کا خاندان یوسف زئی پٹھانوں کا ہے۔
جمیل جالبی علیگڑھ میں 2؍جون 1929ء میں پیدا ہوئے لیکن آفس ریکارڈ میں یکم جولائی درج ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول سہارنپور میں ہوئی۔ جہاں سے انہوں نے 1943ء میں میٹرک پاس کیا۔ 1945ء میں میرٹھ کالج، میرٹھ سے ایف اے ہوئے اور 1947ء میں یہیں سے بی اے پاس کیا۔ سندھ یونیورسٹی کراچی سے انہوں نے 1949ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1950ء میں اردو میں ایم اے ہوئے۔ یہیں سے ایل ایل بی بھی پاس کیا۔ اسی یونیورسٹی سے انہیں 1971ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی اور 1976ء میں ڈی لٹ سے نوازے گئے۔
1950ء سے 1952ء بہادریار جنگ اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ اس کے بعد ایک مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔ اور اسی محکمے سے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
نومبر 1980ء میں وزارت تعلیم سے منسلک ہوئے اور پھر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے۔ یہ تفصیلات ’’ڈاکٹر جالبی‘‘ (سوانحی کتابیات، لاہور 1988ء سے ماخوذ ہیں) اسی میں ان کی دوسری مصروفیات بھی درج ہیں۔ مثلاً ان کے اضافی فرائض کیا کیا رہے، کس کس بورڈ کے ممبر ہوئے، کہاں کہاں کانفرنس میں شرکت کی، کہاں یادگار لکچردیئے اور اولین نگارشات کیا تھیں، کون کون تھیں اور کہاں شائع ہوئیں۔ اس کی بھی تفصیل تراجم کون کون ہیں اور کن کن اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہیں۔ خصوصی دلچسپی میں تحقیق و تنقید، فکروفلسفہ وغیرہ بتائی گئی ہے۔ دیگر موضوعات میں تاریخ، تعلیم، کلچر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی اطلاع فراہم کی گئی ہے کہ ان کے کتب خانے میں سترہ ہزار کتابیں اردو کی ہیں، تین ہزار انگریزی اور دوسو فارسی رسالوں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ یہ اطلاع بھی فراہم کی گئی ہے کہ ہم عصروں کے تین ہزار خطوط ان کے پاس ہیں۔ چند اہم مخطوطات جو ان کی ملکیت ہیں ان میں ’’مقالات الشعرا‘‘ (میر علی قانع) ’’ہمایوں نامہ‘‘ (گل بدن بیگم) ’’اقبال نامہ‘‘، ’’ہدایت نامہ) داؤد دکنی) چند نادر کتابوں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ تصانیف میں ’’ادب، کلچر اور مسائل‘‘ کا ذکر ہے اور فہرست مضامین میں 56 عنوانات ہیں۔ پاکستانی کلچر پر بھی ان کی ایک کتاب ہے، نام ہے ’’پاکستانی کلچر: قومی کلچر کا مسئلہ‘‘۔ اس کے بعد ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کا ذکر ہے، قدیم دور آغاز سے 1750ء تک (مجلس ترقی ادب لاہور، 1975ء) ’’تاریخ ادب اردو‘‘ ٹھارویں صدی جلد دوم حصہ اوّل، لاہور (مجلس ترقی ادب، لاہور، 1982ء) لیکن یہ کتاب 1984ء میں شائع ہوئی ہے، جس کی اصلاح کردی گئی ہے۔ ’’تاریخ ادب اردو‘‘ ٹھارویں صدی میں جلد دوم، حصہ دوم (مجلس ترقی ادب لاہور، 1984ء) ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کا ہندوستانی ایڈیشن ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کردیا۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی جگہ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
جمیل جالبی کی ایک کتاب ’’تنقید اور تجربہ‘‘ ہے جس میں چوبیس مضامین ہیں۔ ’’حیرتناک کہانیاں‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہے، جو 1983ء میں بک فاؤنڈیشن، کراچی سے شائع ہوئی ہے۔ قدیم اردو کی لغت مرکزی اردو بورڈ، لاہور نے 1983ء میں شائع کیا۔ محمد تقی میر پر بھی ان کی ایک کتاب ہے، جسے انجمن ترقی اردو کراچی نے 1981ء میں شائع کیا۔ ایک مجموعہ ’’نئی تنقید‘‘ بھی ہے جسے خادر جمیل نے 1985ء رائل بک کمپنی سے شائع کروادیا۔ اس مجموعے میں 23 مضامین ہیں۔ ان کی ایک کتاب پاکستان کلچر سے متعلق ہے۔ دراصل یہ ترجمہ ہادی حسین کی کتاب کا ہے۔ دوسرے تراجم میں ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘، ’’ایلیٹ کے مضامین‘‘ اور ’’جانورستان‘‘ مشہور ہیں۔ تحقیقات میں ’’دیوان حسن شوقی‘‘، ’’دیوان نصرتی‘‘، ’’مثنوی نظامی دکنی المعروف‘‘ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اہم ہیں۔ تالیفات میں بھی چار کتابوں کا ذکر ہے۔ جیسے ’’بزم خوش نفساں‘‘، اس میں شاہد احمد دہلوی کے 26؍ سوانحی خاکے ہیں۔ ’’حاجی بغلول‘‘ (منشی سجاد حسین کا مزاحیہ ناول) اس کے علاوہ ’’ن م راشد: ایک مطالعہ‘‘۔ آخری کتاب انگریزی میں ہے، نام ہے The changing world of Islam دراصل یہ کتاب ڈاکٹر قاضی اے قادر کے اشتراک سے مرتب کی گئی ہے۔ ان تمام ادبی فتوحات کے ساتھ ساتھ ایک لمبی فہرست ان پیش لفظ، مقدمات، تعارف کی ہے جو موصوف وقتاً فوقتاً لکھتے رہے ہیں۔ ان کی تعداد 45 ہے اور اگر انگریزی کے مشملات کو ملا لیا جائے تو تعداد 61(اکسٹھ) ہوجاتی ہے۔
سوانحی کتابیات سے لازماً اس کا احساس ہوجاتا ہے کہ جمیل جالبی ادبی طور پر بیحد فعال رہے ہیں۔ یہ بیک وقت تنقید اور تحقیق کے مرحلے سے گزرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تلاش و جستجو میں نیز رائے زنی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ لہٰذا انہوں نے وہ کام کئے ہیں جو اب تک دوسروں نے نہیں کئے۔ ان کی ’’تاریخ ادب اردو‘‘ جو ہنوزنامکمل ہے بیحد وقیع سمجھی جاتی ہے۔ پہلی بار قدیم سے لے کر اٹھارہویں صدی تک کا معروضی جائزہ لیا گیا ہے او یہ معروضی جائزہ تحقیق پر مبنی ہے۔ ایسی کتاب ہزاروں کتاب کے مطالعے کے بعد ہی لکھی جاسکتی ہے۔ جمیل جالبی کو اس باب میں جتنی بھی داد دی جائے کم ہےاسلئے کہ انہوں نے اردو میں ادبی تاریخ لکھنے کی روایت کو مستحکم کیا ہے اور اس ضمن میں تلاش و جستجو کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے اس کا احساس دلایا ہے۔ اب تاریخ نویس ہر نئی تاریخ کی تدوین و ترتیب میں موصوف کی تاریخ سے اکتساب کرنے پر مجبور ہے۔ کہیں کہیں ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرنے کی گنجائش ہے بلکہ کی جاتی رہی ہے لیکن ایسی بات سے اس تاریخ کی اہمیت کم نہیں ہوتی اور اردو ادب میں جمیل جالبی کا یہ کام نہ صرف گراں قدر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی اہمیت تاریخ ہوگئی ہے۔
جمیل جالبی نے قدیم ترین دکنی ادب خصوصاً بہمنی دور کے شاعر نظامی دکنی کی مثنوی ’’کدام پدم راؤ‘‘ پر جو کام کیا ہے وہ بھی اوریجنل ہے حالانکہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں جو متن شامل ہے اس کی تفہیم کلی طور پر ہوچکی ہے لیکن جتنا کچھ مواد ڈاکٹر جمیل جالبی نے اکٹھا کردیا ہے وہ یقیناً کم نہیں ہے۔
ان کی کتاب ’’ارسطو سے ایلیٹ تک‘‘ بھی لوگوں کے لئے قابل مطالعہ رہی ہے۔ ویسے یہ بات مان لینی چاہئے کہ جمیل جالبی کی حیثیت جیسی ایک محقق، ایک مورخ کی ہے، وہ شاید نقاد کی نہیں ہے۔ تنقیدی جہت کے مضامین بہت گہرے نہیں ہیں، معلوماتی ضرور ہیں۔ دراصل جمیل جالبی کا میدان ہی کچھ الگ ہے اور اس میدان میں ان کی ہمسری مشکل امر ہے۔
جمیل جالبی نے اتنے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے کہ سب کے تحلیل و تجزیے کے لئے ایک تفصیلی کتاب کی ضرورت ہے۔ میں نے محض اشارے پر بس کیا ہے تاکہ جمیل جالبی پر عظیم کام ابھر سکے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا سوانحی خاکہ نسیم فاطمہ نے محنت سے مرتب کیا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:۔
’’کتابیات کے سلسلے کے کام تو اور بھی ہوئے ہیں اور ان کتابیات سے واقفیت رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں لیکن اس قسم کے کاموں میں فنی واقفیت سے زیادہ فن کو عملاً برتنے اور عملی کاموں سے ذاتی شغف کی ضرورت ہوتی ہے۔ نسیم فاطمہ صاحبہ کی شخصیت ان دونوں صفات کی حامل ہے۔ وہ کتابیات کے فن پر ماہرانہ نظر بھی رکھتی ہیں اور طویل تالیفی و تدوینی تجربے کی بنا پر اس فن کو سلیقے سے برتنے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔
زیر نظم کتاب میں نسیم فاطمہ نے اپنے موضوع کو مختلف عنوانات کے تحت جس خوش اسلوبی سے تقسیم کیا ہے اور عنوان کی تفصیلات کی ترتیب و توضیح میں جس نکتہ سنجی اور محنت سے کام لیا ہے وہ ان کے حسن خیال اور حسن عمل دونوں پر دلالت کرتا ہے۔
’کتابیات‘ کیا ہے، ڈاکٹر جمیل جالبی کے مشاغل کی رفتار کا پیمانہ بھی کہہ سکتے ہیں اور علمی ادبی بلندیوں تک پہنچنے کا زینہ بھی کہ یہ دونوں سمتوں سے قاری کو باخبر کرتا ہے۔‘‘
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets