aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
صدیق الرحمن قدوائی اردو کے معروف ناقد اور محقق ہیں۔جن کی خدمات کے اعزاز میں انھیں پدم شری سے بھی نوازا گیا۔ تنقید میں کئی اہم کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔جن میں "تاثر نہ کہ تنقید، گمان اور یقین ،تمنا کہیں جسے اور "ادب ،ثقافت اور دانشوری" اہمیت کی حامل ہیں۔ زیر مطالعہ آخرالذکر تصنیف "ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور ادب" ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے متعلق بیش بہا معلومات سے مزئین اہم ہے۔ جس میں صدیق الرحمن صاحب کے مذکورہ موضوع سے متعلق متفرق مضامین یکجا کیے گیے ہیں۔جیسے غزل اور نئے تقاضے، عصر حاضر میں تنقید، دانشوری کیا ہے،اردو میں دانشور ی کی روایت، تہذیب کے علاقائی روپ اور اردو ناول، ہمارا ادبی ورثہ مثنوی گلزار نسیم،وغیرہ مضامین کا مطالعہ قارئین کو ادب، تہذیب ، ثقافت اور دانشوری کے متنوع رنگوں سے واقف کراتے اہم ہیں۔
صدیق الرحمن قدوائی کا شمار اردو کے ممتاز ناقدین میں ہوتا ہے ۔ اُن کی کتابیں ‘تاثر نہ کہ تنقید’ ،‘ ادب ، ثقافت اور دانشوری ’ ‘گمان اور یقین’، ‘تمنا کہیں جسے’ ، ‘ہندوستان میں فکری اور تہذیبی اصلاح کا آغاز’ ہیں۔
اِس کے علاوہ انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول فسانہ مبتلا ، انتخاب نظیر اکبر آبادی اور مکاتب مظہر الحق جیسی اہم کتابیں بھی تصنیف و تالیف اور تدوین کی ہیں۔ ان کی کتابوں کے انگریزی اور کچھ دوسری زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے بھارت کے علاوہ پاکستان ، فرانس ، جرمنی ، انگلینڈ اور امریکا کے بھی ادبی پروگراموں میں شرکت کی ہے ۔
قدوائی صاحب کا تعلق ایک مشہور خانوادے سے ہے ۔ ان کے والد شفیق الرحمن قدوائی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں سے تھے ۔ انہوں نے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں اردو کے استاد مقرر ہوئے ۔ بعد میں وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہوئے اور وہیں سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی مسلسل تحقیقی کاموں سے منسلک رہے ہیں۔ فی الحال، وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور انجمن ترقی اردو ہند کے کارگزار صدر بھی ہیں ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets