aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
افسانچے کو افسانے کا افسانہ بھی کہا جاتا ہے اور اب یہ اردو ادب میں ایک باقاعدہ منظم اور ٹھوس تخلیقی صنف کی حیثیت سے قائم ہو چکا ہے۔ زیر نظرمجموعہ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کی تخلیقی کاوش ہے۔ کیفی صاحب اردو ادب میں کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کے مطالعے کی وسعت انہیں ایک الگ صف میں کھڑا کرتی ہے۔ وہ پائے کے ایک ماہر لسان ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی متحمل و بردبار شخصیت کے مالک تھے۔ زیر نظر مجموعے میں ان کے احساسات و جذبات کو جس سلیقے سے پرویا گیا ہے اسے پڑھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں تفریح کم، تعمیر کا پہلو زیادہ ہے۔ ان کہانیوں میں ایک انوکھی دلکشی اور بے پایاں جاذبیت ہے جسے پڑھنے والا یوں ہی سرسری طور پر نہیں گزر سکتا۔
کیفیؔ۔پنڈت برج موہن دتاتریہ نام اور کیفیؔ تخلص 3دسمبر 1866کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔والد پنڈت کنہیا لال ریاست نابھ میں افسر پولیس تھے جن کا انتقال کیفی کی صغر سنی میں ہوگیا۔انہوں نے اپنے شوق اور محنت سے علم حاصل کیا ۔دور حاضرکے نہایت اعلیٰ پایہ کے ادیبوں اور شاعروں میں آپ کا شمار ہے ۔نہایت صلح کل اور مرنجان و مرنج پالیسی کے مالک اور بے حد خوش اخلاق ملنسار اور بے تعصب بزرگ تھے ۔عربی و فارسی کے فاضل انگریزی زبان کے ماہر اور اردو کے اعلیٰ پائے کے ادیب تھے سنسکرت و ہندی بھی بہت اچھی جانتے تھے ۔تصانیف یہ ہیں بھارت درپن (جو مسدس حالی کی طرز پر ہندوؤں کے لئے لکھی اخمخانہ کیفی۔پر تم رنگینی ۔شوکت ہند ۔توزک قیصری منشورات ۔کیفیہ ۔آئینہ ہند ۔جگ بیتی خمسہ کیفی ۔مرات خیال ناگزیر قیل و قال ۔عورت اور اس کی تعلیم چراغ ہدایت ۔پریم دیوی۔نہتا راجہ راج دلاری مراری دادا خیرہ آپ کا دیوان واردات کے نام سے چھپ چکا ہے ۔فن شعر میں مولانا حالی سے تلمذ تھا یکم نمبر1955کو دہلی کے قریب قصبہ غازی آباد میں وفات پائی ۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets