aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سکندر احمد کا نام اہم ترین ناقدین میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کی طرف توجہ شروع ہی سے کم دی گئی ہے ۔ریختہ ای بک کے ذریعے ہماری کوشش رہے گی کہ ہم ان کی تحریریں آپ تک پہنچائیں ۔یہاں ہم ان کا ایک طویل مضمون افسانے کے قواعد پیش کر رہے ہیں اسے کتابی شکل میں اشعر نجمی نے پہلی بار شائع کیا ہے۔فکشن کی تنقید یوں بھی ہمارے یہاں کم لکھی گئی ہے اور جو کچھ ہے بھی اس کا اپنا ایک مخصوص حوالہ ہے ۔اس مضمون میں کیا ہے اور یہ افسانے کے کون سے ایسے پہلووں پر بحث کرتا ہے جو شروع ہی سے فکشن تنقید کا حصہ نہیں رہے ہیں اس کا ذکر اس مختصر تعارف میں ذرا مشکل ہے۔البتہ یہ بات کہہ دینا ضروری ہے کہ یہ مضمون افسانے کی پوری شعریات کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے اور افسانے کے فن کے بارے میں ایک عرصے سے دھرائی جارہی باتوں پر سخت سوالات بھی قائم کرتا ہے۔سکندر احمد کی ایک خصوصیت خالص تنقیدی زبان بھی ہے،ان کا مخصوص استدلالی اور منطقی اسلوب مسائل کوالجھنے نہیں دیتا ۔یہ مضمون شب خون ۲۸۸ میں شائع ہوا تھا اور ادب کے سنجیدہ حلقے میں گفتگو کا موضوع رہا تھا ۔اچھی تحریروں کی بازقراٰت ضروری ہے ۔مضمون پڑھئے اور اپنے اختلافات اور اتفاقات درج کیجئے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free