aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اکبر کو اکبر اعظم بنانے میں ابو الفضل کی محنت شاقہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فیضی بردرس اکبر کے دو اہم بازو تھے جنہوں نے اکبر کے ذہن و دل پر حکومت کی اور اپنے مفید مشوروں سے اسے اکبر دی گریٹ بنایا۔ یہی سبب ہے کہ اکبر بھی اپنی خلوت کو جلوت میں ان لوگوں کی وجہ سے بدل دیتا تھا۔ فیضی نے شاعری اور اپنی مدبرانہ سعی سے اکبر کو تنگ نظر علماء سے آزاد کرایا اور خود فیصلہ لینے کی جرات دلائی۔ ابو الفضل علامی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اکبر کیوں اہم ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اکبر علماء کی گرفت سے تو آزاد ہو گیا مگر وہ ان دو علماء کی گرفت کا شکار ہو گیا اور اکبر کے فیصلوں میں سب سے زیادہ ان دو بھائیوں کا دخل ہونے لگا۔ مگر جو بھی ہو دونوں بھائی اکبر کے لئے دل و جان سے قربان ہونے کے لئے تیار رہتے۔ اکبر نامہ ابوالفضل کا وہ شاہکار تاریخی کارنامہ ہے جو نہ صرف تاریخی نویسی کے اصولوں پر مبنی ہے بلکہ تاریخ نویسی کے کچھ نئے اور اہم باب اس تاریخ کے بعد کھلتے ہیں۔ اپنی منشیانہ طرز تحریر کا یہ بہترین نمونہ ہے جس میں ابو الفضل، اکبر کی تعریف و توصیف اور اس کی ثنا خوانی و مدح سرائی کرتے نہیں تھکتا۔ وہ اس کتاب میں جلال الدین کے متعلق جلال و جمال کا بہت خیال رکھتا ہے اور اس کی شان جن کلمات و اصطلاحات سے دو چند ہوتی ہے ان کو ضرور لکھتا ہے۔ کتاب میں اس نے کہیں بھی اکبر کا نام نہیں لکھا بلکہ اس کے لئے دیگر کلمات کا استعمال کرتا ہے اور اس کتاب کا نام اس نے اکبر نامہ کہیں پر ذکر نہیں کیا بلکہ کتاب کے لئے شگرف نامہ جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ یہ تیموری عہد کی عمومی تاریخ ہے جس میں اس نے اکبر کے جد اعلی تیمور سے کتاب کو شروع کرتا ہے اور پھر بابر و ہمایوں کا ذکر کرتا ہوا اس کے خاندانی مناقب کا ذکر کرتا ہے۔ اس کتاب کی دوسری اور تیسری جلد اکبر کے لئے خاص ہے جس میں اکبر کی پیدائش سے لیکر اس مصنف کی وفات تک کے احوال ذکر کئے گئے ہیں۔ کتاب کی عبارت نثر منشیانہ کی بہترین مثال ہے۔ اکبری عہد کے مفصل احوال اس کتاب سے بہتر کہیں دوسری جگہ نظر نہیں آتے چونکہ مصنف بادشاہ کا ہم جلیس اور ہم پیالہ ہے اس لئے واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے اور تاریخ و سنن کا جو خیال رکھا گیا ہے وہ الگ ہی خاصیت ہے۔ اگرچہ بہت سے مستشرقین نے اکبر کی بیجا تعریف پر ابو الفضل کی گرفت کی ہے مگر وہ الگ بات ہے مگر کتاب کی واقعات و تواریخ کی صداقت کا کوئی منکر نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اپنے ممدوح کی شان میں آسمان و زمین کو ایک کر دیتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس نے واقعہ نگاری اور تاریخ نویسی میں پوری ایمانداری سے کام لیا ہے۔ یہ بات کہنے والے نے بالکل صحیح کہی ہی کہ " ابو الفضل کا قلم اکبر کی ثنا خوانی میں صفحہ قرطاس پر طاؤس کی طرح رقص کرتا ہے۔"
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets