by مخمور سعیدی
اٹھارہ سو ستاون کی کہانی مرزا غالب کی زبانی
دستنبو اور خطوط غالب کے حوالے سے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دستنبو اور خطوط غالب کے حوالے سے
انگریزی سامراج کے خلاف مئی ۱۸۵۷ء میں جب میرٹھ سے قومی بغاوت کا آغاز ہوا اور یہ بغاوت تیزی سے پورے ملک میں پھیل گئی، اس وقت مرزا غالب بڑھاپے کی سرحدوں میں داخل ہوچکے تھے۔ سن رسیدگی کے پیدا کردہ جسمانی اضمحلال کی وجہ سے بھی اور ان کی ان مزاجی کیفیات کی وجہ سے بھی جو امن و اماں کے ماحول کی متقاضی رہتی تھیں، ان سے یہ توقع نہی کی جاسکتی تھی کہ وہ اس بغاوت میں عملی طور پر شریک ہوسکیں، لیکن جو واقعات ان کے گردو پیش رونما ہورہے تھے، ان سے چشم پوشی انھوں نے نہیں کی۔ وہ خود گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلے لیکن شہر کے حالات سے انھوں نے خود کو بے خبر نہیں رکھا اور کسی نہ کسی طرح تمام اہم اطلاعات حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے صرف اطلاعات کے حصول پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ انھیں تاریخ وار قلم بند بھی کرتے رہے۔ یہ سب روداد غالب کے روزنامچہ "دستنبو" اور غالب کے اس دنوں لکھے ہوئے خطوط میں موجود ہے۔ زیر نظر کتاب میں "دستنبو" کا اردو ترجمہ اور کچھ خطوط کو سامنے رکھ کر ۱۸۵۷ کی کہانی بیان کی گئی ہے، جس میں تاریخ کے علاوہ حسن بیان بھی ہے۔
نام سلطان محمد خاں اور تخلص مخمور ہے۔۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء کو ٹونک(راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (اردو) تک تعلیم حاصل کی۔اسسٹنٹ سیکریٹری ، اردو اکادمی، نئی دہلی کے عہدے پر فائز رہے۔ بسمل سعیدی سے تلمذ حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے چند نام یہ ہیں: ’’گفتنی‘‘، ’’سیہ برسفید‘‘، ’’آواز کا جسم‘‘، ’’سب رنگ‘‘، ’’واحد متکلم‘‘، ’’آتے جاتے لمحوں کی صدا‘‘، ’’بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا‘‘(شعری مجموعے)، ’’تجدید جنوں‘‘(منظوم تراجم)، ’’ساحر لدھیانوی۔ایک مطالعہ‘‘(مرتبہ)، ’’قصہ جدیدوقدیم‘‘(ایک ادبی مباحثہ)، ’’عمر گذشتہ کا حساب ‘‘(جلد اول ودوم)، ’’شیرازہ‘‘(ہم عصر شاعری کا انتخاب)۔ ان کے مجموعی خدمات پر راجستھان اور دہلی اردو اکادمی نے انعامات دیے۔ مخمور سعیدی کو’ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ‘ ان کی کتاب’’راستہ اور میں‘‘ پر بھی دیا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:336
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets