aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
عزیز احمداردو افسانہ نگاری کا ایک معتبر نام ہے۔ عزیز احمد کے افسانوں میں تاریخ اور تہذیب کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ پیش نظر "عزیز احمد کے افسانے " ہیں۔ جن کو سلیمان اطہر جاوید نے مرتب کیا ہے۔ جس میں عزیز احمد کے (پہلے سے آخری افسانے تک) کل اٹھائیس افسانے شامل ہیں۔ عزیز کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوئے تھے، اس کے علاوہ کچھ اور افسانے بکھرے پڑے تھے، سلیمان اطہر جاوید نے تمام کو یکجا کردیا ہے۔ افسانوں سے پہلے عزیز احمد کی افسانہ نگاری پر بھی بات ہوئی ہے۔ ان کے افسانوں کی اہم خصوصیات حقیقت نگاری ،فطرت نگاری اور کردار نگاری ہے۔اس کتاب میں عزیز احمد کے معروف افسانے "باغباں،زر خرید،پگڈنڈی ،رقص ناتمام،کوکب،تصور شیخ،نفرت کیوں تھی ،کٹھ پتلیاں ،جھوٹا خواب" وغیرہ بھی شامل ہیں۔
16 دسمبر 1978ء کو اردو کے نامور افسانہ نگار، مترجم اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے عالمی پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ پروفیسر عزیز احمد 11 نومبر 1913ء کو عثمان آباد ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور وزارت اطلاعات سے منسلک رہے، 1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1960ء میں وہ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی علوم سے منسلک ہوئے اور آخر تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگار اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقص ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور ناول گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، ہوس اور شبنم کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی کئی انگریزی کتابوں کے مصنف تھے اور انہوں نے انگریزی کی کئی شاہکار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔