aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سہیل عظیم آبادی نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ ان کے افسانوں میں بہار کے گاؤں اور کسانوں کی زندگی کو دیکھا جا سکتا ہے۔سہیل عظیم کا بادی کا یہ تیسرا مجموعہ" چار چہرے" ہے جو چار افسانوں سے مزین ہے"چار چہرے" 1977 میں شائع ہوا ۔انہوں نے پہلی بار صوبہ بہارکی زندگی کو افسانوں کا موضوع بنایا،ان کے افسانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو جنہیں دوسرے فنکار نظرانداز کرتے ہیں ان ہی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری کے ذہن میں اس کا مکمل نقش ابھرنے لگتا ہے۔
سہیل عظیم آبادی اردو کے ایک نامور افسانہ نگار ہیں۔ پریم چند کی روایت بہار کی سرزمین پر انہی کے دم سے آگے بڑھی۔ مولوی عبدالحق کی سرپرستی میں انہوں نے بہار میں اردو کے فروغ کی تحریک چلائی۔ اپنے مشہور اخبار’’ساتھی‘‘ سے انہیں اس کام میں بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ ماہنامہ’’تہذیب‘‘ نے بھی اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کی۔
سہیل عظیم آبادی نے بہت سے افسانے لکھے اور ان افسانوں میں حقیقی زندگی کے مرقعے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ان کے افسانوں کا دائرہ وسیع ہے۔ پریم چند کی پیروی میں وہ دیہات کی زندگی کو اپنا موضوع بناتے ہیں لیکن شہری زندگی کو بھی فراموش نہیں کرتے۔
سہیل عظیم آبادی پر ترقی پسند تحریک کا اثر بھی صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے غریبوں اور مظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھائی اور اپنے افسانوں میں ان کے مسائل کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔
وہ ایک کامیاب فنکار ہیں ان کے فن میں گہرائی ہے کیوں کہ وہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ دلکشی ہے کہ کیوں کہ پلاٹ اور کردارنگاری پر خون جگر صرف کرتے ہیں اور آخری بات یہ کہ زبان پر انہیں پوری دسترس حاصل ہے اس لیے ان کا انداز پیش کش بہت مؤثر ہے۔ وقار عظیم لکھتے ہیں ’’سہیل کے افسانوں میں نہ زندگی پر زیادہ زور پڑتا ہے اور نہ فن پر ان کے یہاں طنز ہے لیکن اس میں تلخی نہیں، ادبیت ہے لیکن اس کا شاعرانہ غلو نہیں، زندگی کی سچائی ہے لیکن اس میں زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں۔ ان کے افسانے زندگی کے اضطراب لیکن حق کے سکون کے پیامی ہیں‘‘۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets